تاریخ سے یہی سیکھا
ہر حکومت کی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بھی یہ اولین خواہش ہو گی کہ وہ اپنی مدت پوری کرے۔
لاہور:
ہر حکومت کی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بھی یہ اولین خواہش ہو گی کہ وہ اپنی مدت پوری کرے۔ حکومت نے جس کمیشن کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے اس کمیشن کی رپورٹ منفی آئے یا مثبت، تاہم یہ یقینی ہے کہ تحقیقات اور نتائج میں اتنا وقت صرف ہو جائے گا کہ حتمی رپورٹ آنے تک ن لیگ اپنا مقصد حاصل کر چکی ہو گی یعنی مدت حکومت پوری کر چکی ہو گی۔
پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد عالمی سطح پر جو منظرنامہ ابھرا اس میں الزامات کی زد میں آنے والی مقتدر شخصیات مستعفی ہو کر حکومت سے علیحدہ ہو گئیں۔ پاکستانی اپوزیشن بھی اسی خیال میں ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اسی قسم کی کوئی تبدیلی رونما ہو جائے، عوام، سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ یا سپریم کورٹ یا کوئی بیرونی نادیدہ قوت وزیراعظم کو گھر بھیجنے پر شاید مجبورکر دے۔ تاہم یہ کام اس لیے آسان معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ہمارا معاشرہ، سیاست دان، حکمران اور ان کا طرز سیاست و حکومت مغربی نہیں مشرقی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کا نام نہیں، لیکن ان کی اولاد اور خاندان کا نام تو آیا، ان کی بیٹی اور بیٹوں کے بیانات اور انٹرویوز میں کھلے تضادات بھی پائے گئے، جن کی بدولت اس ایشو کو مزید ہوا ملی اور یہ سوالات بھی اٹھے کہ میاں صاحب اور ان کے خاندان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی؟ جیسا کہ چوہدری اعتزاز احسن نے سوال اٹھایا کہ شریف خاندان کے پاس کیا کوئی پارس پتھر ہے کہ جس چیز سے لگاتے ہیں وہ سونے کی بن جاتی ہے؟ میاں صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ انھوں نے پائی پائی کا حساب دیا، لیکن حقائق اس سے مختلف ہیں اور بیرون ملک ان کے اثاثوں اور جائیدادوں کی تفصیلات سے قوم آج بھی بے خبر ہے۔
علاوہ ازیں جو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ میاں صاحب نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا وہ بھی اپنی سوچ سے رجوع کریں اور صرف ایک میاں صاحب ہی نہیں ہمارے تو اکثر سیاست دانوں نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے۔ پانامہ لیکس کے انکشافات تاریخ ہی کا سبق ہے، ہمارے ملک میں جمہوری حکومتوں پر اکثر آمریت کی تلوار لٹکی رہی ہے اور اکثر حکومتیں اپنی مدت پوری نہیں کر پائیں اور انھیں وقت سے پہلے چلتا ہونا پڑا اور پھر اس کے بعد دوبارہ انتخاب تک حکمران وقت کو یہ عرصہ بیرون ملک گزارنا پڑا، لہٰذا پھر اپنے اثاثے، املاک، دولت و جائیداد ملک میں رکھنا کس کام کا؟ جب اقتدار سے اترنے کے بعد اکثر زندگی باہر ہی گزارنی ہے تو پھر ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے سہولیات زندگی بھی بیرون ملک ہی رکھنا اچھی معلوم ہوتی ہیں۔
آج سابق صدر آصف علی زرداری اور پرویز مشرف بھی بیرون ملک ہی مقیم ہیں، بیرون ملک ہر چیز بہت مہنگی ہے، زندگی گزارنے کے لیے بڑے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، باہر رکھا پیسہ ایسے ہی مواقعے پر کارآمد ثابت ہوتا ہے، ویسے بھی ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا دل اکثر صرف اقتدار ہی کے موسم میں وطن میں لگتا ہے، اقتدار سے ہاتھ دھوتے ہی ملک انھیں کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے اور پرآسائش مغرب و یورپ ہی انھیں بھاتا ہے۔ اولاد کے نام پر آف شور کمپنیاں، اثاثے، املاک و جائیداد اس مشن کو مزید آسان کر دیتے ہیں، اپنا دامن بھی صاف رہتا ہے اور مال محفوظ بھی رہتا ہے۔ ویسے بھی اپنے بعد بھی تو سب کچھ اولاد ہی کو دے کر جانا ہے، اگر پہلے ہی بیوی بچوں کے نام کر دیا جائے توکیا حرج ہے، انھیں قبل از وقت دے دینے سے کوئی مال پرایا تو نہیں ہو جانا؟ لہٰذا اکثر سمجھدار سیاست دان برے وقت میں اپنے سرمایہ کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے اپنے ملک میں اور اپنے نام سے سرمایہ کم ہی رکھتے ہیں۔
تاریخ کا یہی سبق 12 اکتوبر 1999ء میں بھی پوشیدہ ہے، جب میاں صاحب اپنی جان بچانے کے لیے بیرون ملک بھاگنے پر مجبور ہوئے اور تاریخ کا یہی سبق عہد حاضر میں بھی پنہاں ہے کہ جب آصف علی زرداری اور پرویز مشرف و شوکت عزیز جیسے حکمران بیرون ملک بھاگنے اور زندگی گزارنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، لہٰذا ایسے مواقعے پر ہی آف شور کمپنیاں اور بیرون ملک سرمایہ و اثاثے اس پہلی محبت کی طرح معلوم ہوتے ہیں جس کی یاد تاحیات دل کو بہلاتی اور محظوظ رکھتی ہے۔ تاریخ کا یہی سبق 1971ء اور بعد کے رونما ہونے والے حالات میں بھی پنہاں ہے۔
1971ء کے آخر میں ذوالفقار علی بھٹو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے تو آئین معطل ہو گیا اور حکومت نے ملک کے تمام صنعتی اور نجی ادارے قومیا لیے، ان اداروں میں اتفاق گروپ بھی شامل تھا۔ یوں شریف خاندان اپنی تقریباً تمام املاک سے محروم ہو گیا۔ یہی سبق 1977ء کے مارشل لاء میں بھی پنہاں ہے، جب جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو گرفتار کیا اور پھر بھٹو خاندان 1977ء سے 1988ء تک جلاوطن اور در بدر رہا، تاریخ کا یہی سبق تھا جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو سوئس اکاؤنٹس، سرے محل، دبئی میں جائیداد وغیرہ بنانے کی راہ سجھائی اور ہماری تاریخ کے اسی سبق نے آج پانامہ لیکس اسکینڈل کو بھی جنم دیا ہے۔ اس سبق نے خودغرضی کو پروان چڑھایا اور وطن پرستی، حب الوطنی اور اجتماعی و قومی مفاد کی سوچ پر ضرب لگائی۔ میاں صاحب کے تحریک استقلال میں شمولیت سے لے کر آج تک کے سفر میں آپ کو تاریخ کے اسی سبق کی جھلکیاں بدرجہ اتم دکھائی دیں گی۔
آج تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی مل کر میاں صاحب کے خلاف کمیشن بنانے اور فرانزک ماہرین کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن صرف چار سال پہلے یہی میاں صاحب اور عمران خان مل کر میموگیٹ اسکینڈل میں آصف علی زرداری کے خلاف فرانزک ماہرین کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہماری سیاست عجیب گورکھ دھندہ ہے۔ کل جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو این آر او کیس میں توہین عدالت کے الزام کا سامنا تھا تو میاں صاحب جلسوں میں یہ پرزور مطالبہ کرتے نظر آئے کہ آپ اقتدار سے اتر کر اپیل کریں، اپیل کے بعد فیصلہ اگر آپ کے حق میں آ جائے تو واپس اقتدار کی کرسی پر آ جائیے گا ورنہ گھر ہی پر بیٹھے رہیے گا۔
لیکن آج جب عالمی سطح پر شریف خاندان پر الزامات لگے تو نواز شریف خود اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اگر کمیشن نے الزامات ثابت کر دیے تو گھر چلا جاؤں گا، یہ کیا کھلا تضاد ہے۔ عمران خان کم از کم اس اعتبار سے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ وزیراعظم جو پارلیمنٹ میں بھی بمشکل نظر آتے تھے آج اتنے متحرک ہو چکے ہیں کہ سڑکوں پر جلسے کرتے دکھائی دیتے رہتے ہیں، گویا انتخابی موسم یا انتخابی مہم کا آغاز ہو۔
جیسے اطلاعات ہیں کہ پانامہ لیکس دوبارہ تہلکہ مچانے کو تیار ہے اور اس کی دوسری قسط 9 مئی کو منظرعام پر جلوہ افروز ہو گی۔ مزید 400 پاکستانیوں کے ناموں کی بازگشت ہے گویا ''ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا''۔ لہٰذا دیکھیے مزید کتنے اور بڑے برج الٹیں گے۔