سوشل میڈیا اور کرکٹ
چند روز قبل سوشل میڈیا کے ذریعے ایک معروف کرکٹر کی بیٹی کے انتقال کی افواہ جنگل میں آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔
معروف کرکٹر ۔۔۔۔ کی بیٹی کا انتقال ہو گیا۔
چند روز قبل سوشل میڈیا کے ذریعے یہ افواہ جنگل میں آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی، کسی نے ایک بچی کی آخری رسومات کے موقع پر لی گئی تصویر بھی پوسٹ کردی ، ایک پرانی تصویر کو بھی یہ کہہ کر پوسٹ کیا گیا کہ مذکورہ کرکٹر بیٹی کے جنازے میں شریک ہے، یہ سب کچھ دیکھ کرمجھے بیحد افسوس ہوا کیونکہ میں سمجھ چکا تھا کہ یہ غلط ہے،پھر جب مختلف لوگوں کے فون آئے تو معاملے کی سنگینی کا علم ہوا،ایسے میں جب دفترکی ایک اہم شخصیت نے خبرکی تصدیق کاکہا تو میں نے مذکورہ کرکٹر کے بھائی سے بات کی جس نے بتایا کہ یہ سب کچھ غلط اور گھر میں سب خیریت ہے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی بے بنیاد باتیں جس گھرانے کے بارے میں پھیلائی گئیں اس کا کیا حال ہوا ہو گا، یہ اور اس قسم کی چند دیگر منفی باتیں سوشل میڈیا کا ''کمال '' ہیں، آپ نے لندن کے ہائیڈ پارک کا تو سنا ہی ہو گا، وہاں سب کو حکمرانوں سمیت کسی کیخلاف کچھ بھی کہنے کی اجازت ہوتی ہے، بدقسمتی سے سوشل میڈیا کو بھی ہائیڈ پارک سمجھ کر استعمال کیا جا رہا ہے، عام زندگی میں جس انسان کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ٹویٹر پر اس کو باآسانی گالیاں بھی دے سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سی معروف شخصیات سوشل میڈیا پر ہیں ہی نہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ فیس بک یا ٹویٹر پر جائیں تو اہم شخصیات کے سیکڑوں اکاؤنٹس ملیں گے، وہ بعض ایسی فیملی تصاویر بھی پوسٹ کرتے ہیں۔
جن سے اکاؤنٹ اصل ہونے کا گمان ہوتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا،پاکستانی کرکٹرز کے بھی ہزاروں اکاؤنٹس موجود ہیں، ٹویٹر پر یہ آسانی ہے کہ تصدیق شدہ اکاؤنٹ پر ایک نشان لگا دیا جاتا ہے، سوشل میڈیاکی وجہ سے کھلاڑیوں کا اپنے پرستاروں سے براہ راست رابطہ ہو گیا ہے، آپ دنیا بھر میں کسی بھی اسپورٹس ، فلم اسٹار، سیاستدان وغیرہ سے رابطہ کر سکتے ہیں، اگر اس کی میڈیا ٹیم متحرک ہوئی تو جواب بھی دے گی، معروف شخصیات کی نجی زندگی کے راز بھی اب راز نہیں رہے، انھیں خود اپنے بارے میں بتانے کا شوق ہوتا ہے، ابھی میں نے فلاں کپڑے خریدے ، اس ہوٹل میں کھانا کھایا، یہ فلم دیکھی، آج فلاں جگہ گھومنے گیا، احمد شہزاد جیسے کرکٹرز اپنے ہر لمحے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی وجہ سے ''سیلفی بوائے'' قرار پائے ہیں، میچ کی باتیں جب ٹویٹر پر آنے لگیں تو بورڈز کو معاہدوں میں شق شامل کرنا پڑی کہ کوئی اندر کی بات پوسٹ نہ کی جائے۔
جب ٹیم ہارے تو کھلاڑیوں کو تنقید بھی سہنا پڑتی ہے کہ ایسی کارکردگی اور دیکھو سیلفیز کیسے پوسٹ کر رہا ہے، دنیا بھر کے کرکٹرز کو بھی سوشل میڈیا نے قریب کر دیا اور وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، کرس گیل ، کیون پیٹرسن جیسے کرکٹرز تو بہت متحرک ہیں، گذشتہ دنوں کسی نے ایک کھلاڑی کے بارے میں دلچسپ بات بتائی کہ ٹیم سے ڈراپ ہونے پر اس نے بعض غیرملکی اسٹارز کو واٹس ایپ کر کے اپنے بارے میں ٹویٹس کرائیں، پاکستانی کھلاڑیوں کے بھی ٹویٹرزپر لاکھوں فالوورز ہیں، بعض اب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انھیں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی ضرورت نہیں رہی، بس ٹویٹ کرو سب کو پتا چل جائے گا، حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے، اگر میڈیا وہاں سے خبر لے کر شائع یا نشر نہ کرے تو بہت سے لوگوں کو اس کا علم ہی نہ ہو، سوشل میڈیا کی یقیناً بہت اہمیت ہے۔
اسمارٹ موبائل فونز کی وجہ سے اب استعمال مزید آسان ہو گیا ہے، مگر اس کے ساتھ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، میں اعدادوشمار سے تو واقف نہیں لیکن میرے خیال میں جس ملک کی شرح خواندگی انتہائی کم ہے وہاں کتنے فیصد لوگ سوشل میڈیا پر ہوں گے؟البتہ یہ بات ماننا پڑے گی کہ سوشل میڈیا کا روایتی میڈیا کو بھی بیحد فائدہ ہوا اور اب چٹکی بجاتے ہی خبر مل جاتی ہے، ہمیں بھی نئے قارئین ملے، کرکٹ کارنر جب فیس بک یا ٹویٹر پر پوسٹ ہوتا ہے تو ملک اور بیرون ملک اسے ہزاروں ایسے لوگ بھی پڑھتے ہیں جنھوں نے اخبار میں نہیں پڑھا ہوتا،البتہ ہر اچھی چیز کی طرح سوشل میڈیا کا بھی غلط استعمال ہوتا ہے، اس کی ہر خبر پر یقین نہ کیا کریں۔
تصدیق لازمی ہے، وہاں غلط خبروں کی بھرمار ہے، جیسے سیاستدان مخالفین کو سبق سکھانے کیلیے کرائے کے غنڈے رکھتے ہیں ویسے ہی ہمارے بعض کرکٹرز نے ''سوشل میڈیا کے غنڈے'' رکھے ہوئے ہوئے ہیں،ایک اسٹار بیٹسمین نے تو اپنے ''چاہنے والوں'' کو خصوصی ٹاسک دیاکہ مخالفین کیخلاف بے بنیاد باتیں پھیلا دو، بورڈ کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کے ایک زیرعتاب آفیشل بھی اس معاملے میں مشہور تھے،ایک بار یونس خان نے کہا تھا کہ بعض کھلاڑی اپنے لوگوں کو اسٹیڈیم میں بینرز تھماکر بٹھا دیتے ہیں تاکہ مقبولیت کا تاثر جائے۔
ٹویٹر پر بھی ایسا ہی ہے اور جعلی فینزکی بھرمارنظر آتی ہے، سنا ہی پیسے دے کر سب کچھ ہو جاتا ہے،اب مقبولیت کا معیار فیس بک پر لائیک یا ٹویٹر پر فالوورز ہیں، دنیا بہت آگے جا رہی ہے، اس کے ساتھ چلنے میں کوئی حرج نہیں مگرصرف لاکھوں فالورز ضروری نہیں اپنے شعبوں میںکامیابی برقرار رکھنا اہمیت رکھتی ہے، میں بعض اوقات ٹویٹر پر اسٹارکرکٹرز کے بارے میں کمنٹس پڑھتا ہوں تو اس میں پسندیدگی کا اظہار کیے جانے کے ساتھ گالیاں تک دی جاتی ہیں، مہذبانہ انداز میں تنقید غلط نہیں لیکن مداحوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے ملک کا ہی اسٹار ہے اس کی عزت کرنی چاہیے، کھلاڑی بھی اگر سوشل میڈیا کا استعمال درست انداز سے کریں تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
کسی نیک کام میں مدد کیلیے اپنے پرستاروں سے کہنا یا اچھا پیغام پھیلانا بھی مثبت اقدام ثابت ہوگا، سیلفیز بھی شیئر کریں مگر ہر روز نہیں، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آپ اچھا کھیلے تو سب کچھ لوگ پسند کریں گے،اسی لیے اصل توجہ اپنے کھیل کو دینی چاہیے سوشل میڈیا کو نہیں، کم از کم احمد شہزاد تو یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔
چند روز قبل سوشل میڈیا کے ذریعے یہ افواہ جنگل میں آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی، کسی نے ایک بچی کی آخری رسومات کے موقع پر لی گئی تصویر بھی پوسٹ کردی ، ایک پرانی تصویر کو بھی یہ کہہ کر پوسٹ کیا گیا کہ مذکورہ کرکٹر بیٹی کے جنازے میں شریک ہے، یہ سب کچھ دیکھ کرمجھے بیحد افسوس ہوا کیونکہ میں سمجھ چکا تھا کہ یہ غلط ہے،پھر جب مختلف لوگوں کے فون آئے تو معاملے کی سنگینی کا علم ہوا،ایسے میں جب دفترکی ایک اہم شخصیت نے خبرکی تصدیق کاکہا تو میں نے مذکورہ کرکٹر کے بھائی سے بات کی جس نے بتایا کہ یہ سب کچھ غلط اور گھر میں سب خیریت ہے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی بے بنیاد باتیں جس گھرانے کے بارے میں پھیلائی گئیں اس کا کیا حال ہوا ہو گا، یہ اور اس قسم کی چند دیگر منفی باتیں سوشل میڈیا کا ''کمال '' ہیں، آپ نے لندن کے ہائیڈ پارک کا تو سنا ہی ہو گا، وہاں سب کو حکمرانوں سمیت کسی کیخلاف کچھ بھی کہنے کی اجازت ہوتی ہے، بدقسمتی سے سوشل میڈیا کو بھی ہائیڈ پارک سمجھ کر استعمال کیا جا رہا ہے، عام زندگی میں جس انسان کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ٹویٹر پر اس کو باآسانی گالیاں بھی دے سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سی معروف شخصیات سوشل میڈیا پر ہیں ہی نہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ فیس بک یا ٹویٹر پر جائیں تو اہم شخصیات کے سیکڑوں اکاؤنٹس ملیں گے، وہ بعض ایسی فیملی تصاویر بھی پوسٹ کرتے ہیں۔
جن سے اکاؤنٹ اصل ہونے کا گمان ہوتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا،پاکستانی کرکٹرز کے بھی ہزاروں اکاؤنٹس موجود ہیں، ٹویٹر پر یہ آسانی ہے کہ تصدیق شدہ اکاؤنٹ پر ایک نشان لگا دیا جاتا ہے، سوشل میڈیاکی وجہ سے کھلاڑیوں کا اپنے پرستاروں سے براہ راست رابطہ ہو گیا ہے، آپ دنیا بھر میں کسی بھی اسپورٹس ، فلم اسٹار، سیاستدان وغیرہ سے رابطہ کر سکتے ہیں، اگر اس کی میڈیا ٹیم متحرک ہوئی تو جواب بھی دے گی، معروف شخصیات کی نجی زندگی کے راز بھی اب راز نہیں رہے، انھیں خود اپنے بارے میں بتانے کا شوق ہوتا ہے، ابھی میں نے فلاں کپڑے خریدے ، اس ہوٹل میں کھانا کھایا، یہ فلم دیکھی، آج فلاں جگہ گھومنے گیا، احمد شہزاد جیسے کرکٹرز اپنے ہر لمحے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی وجہ سے ''سیلفی بوائے'' قرار پائے ہیں، میچ کی باتیں جب ٹویٹر پر آنے لگیں تو بورڈز کو معاہدوں میں شق شامل کرنا پڑی کہ کوئی اندر کی بات پوسٹ نہ کی جائے۔
جب ٹیم ہارے تو کھلاڑیوں کو تنقید بھی سہنا پڑتی ہے کہ ایسی کارکردگی اور دیکھو سیلفیز کیسے پوسٹ کر رہا ہے، دنیا بھر کے کرکٹرز کو بھی سوشل میڈیا نے قریب کر دیا اور وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، کرس گیل ، کیون پیٹرسن جیسے کرکٹرز تو بہت متحرک ہیں، گذشتہ دنوں کسی نے ایک کھلاڑی کے بارے میں دلچسپ بات بتائی کہ ٹیم سے ڈراپ ہونے پر اس نے بعض غیرملکی اسٹارز کو واٹس ایپ کر کے اپنے بارے میں ٹویٹس کرائیں، پاکستانی کھلاڑیوں کے بھی ٹویٹرزپر لاکھوں فالوورز ہیں، بعض اب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انھیں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی ضرورت نہیں رہی، بس ٹویٹ کرو سب کو پتا چل جائے گا، حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے، اگر میڈیا وہاں سے خبر لے کر شائع یا نشر نہ کرے تو بہت سے لوگوں کو اس کا علم ہی نہ ہو، سوشل میڈیا کی یقیناً بہت اہمیت ہے۔
اسمارٹ موبائل فونز کی وجہ سے اب استعمال مزید آسان ہو گیا ہے، مگر اس کے ساتھ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، میں اعدادوشمار سے تو واقف نہیں لیکن میرے خیال میں جس ملک کی شرح خواندگی انتہائی کم ہے وہاں کتنے فیصد لوگ سوشل میڈیا پر ہوں گے؟البتہ یہ بات ماننا پڑے گی کہ سوشل میڈیا کا روایتی میڈیا کو بھی بیحد فائدہ ہوا اور اب چٹکی بجاتے ہی خبر مل جاتی ہے، ہمیں بھی نئے قارئین ملے، کرکٹ کارنر جب فیس بک یا ٹویٹر پر پوسٹ ہوتا ہے تو ملک اور بیرون ملک اسے ہزاروں ایسے لوگ بھی پڑھتے ہیں جنھوں نے اخبار میں نہیں پڑھا ہوتا،البتہ ہر اچھی چیز کی طرح سوشل میڈیا کا بھی غلط استعمال ہوتا ہے، اس کی ہر خبر پر یقین نہ کیا کریں۔
تصدیق لازمی ہے، وہاں غلط خبروں کی بھرمار ہے، جیسے سیاستدان مخالفین کو سبق سکھانے کیلیے کرائے کے غنڈے رکھتے ہیں ویسے ہی ہمارے بعض کرکٹرز نے ''سوشل میڈیا کے غنڈے'' رکھے ہوئے ہوئے ہیں،ایک اسٹار بیٹسمین نے تو اپنے ''چاہنے والوں'' کو خصوصی ٹاسک دیاکہ مخالفین کیخلاف بے بنیاد باتیں پھیلا دو، بورڈ کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کے ایک زیرعتاب آفیشل بھی اس معاملے میں مشہور تھے،ایک بار یونس خان نے کہا تھا کہ بعض کھلاڑی اپنے لوگوں کو اسٹیڈیم میں بینرز تھماکر بٹھا دیتے ہیں تاکہ مقبولیت کا تاثر جائے۔
ٹویٹر پر بھی ایسا ہی ہے اور جعلی فینزکی بھرمارنظر آتی ہے، سنا ہی پیسے دے کر سب کچھ ہو جاتا ہے،اب مقبولیت کا معیار فیس بک پر لائیک یا ٹویٹر پر فالوورز ہیں، دنیا بہت آگے جا رہی ہے، اس کے ساتھ چلنے میں کوئی حرج نہیں مگرصرف لاکھوں فالورز ضروری نہیں اپنے شعبوں میںکامیابی برقرار رکھنا اہمیت رکھتی ہے، میں بعض اوقات ٹویٹر پر اسٹارکرکٹرز کے بارے میں کمنٹس پڑھتا ہوں تو اس میں پسندیدگی کا اظہار کیے جانے کے ساتھ گالیاں تک دی جاتی ہیں، مہذبانہ انداز میں تنقید غلط نہیں لیکن مداحوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے ملک کا ہی اسٹار ہے اس کی عزت کرنی چاہیے، کھلاڑی بھی اگر سوشل میڈیا کا استعمال درست انداز سے کریں تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
کسی نیک کام میں مدد کیلیے اپنے پرستاروں سے کہنا یا اچھا پیغام پھیلانا بھی مثبت اقدام ثابت ہوگا، سیلفیز بھی شیئر کریں مگر ہر روز نہیں، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آپ اچھا کھیلے تو سب کچھ لوگ پسند کریں گے،اسی لیے اصل توجہ اپنے کھیل کو دینی چاہیے سوشل میڈیا کو نہیں، کم از کم احمد شہزاد تو یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔