شب و روز ایسے جہالت پر مبنی انسانیت سوز واقعات سامنے آتے ہیں کہ معاشرے کی اس غیر شعوری روش اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ان عوامل پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ابھی چند روز ہی تو گزرے ہیں جب کراچی میں نام نہاد غیور قاتل نے اپنی بے گناہ بہن کو قتل کردیا تھا کہ اب ایبٹ آباد کی عنبرین بھی ایک غیر قانونی اور جعلی جرگہ کے جاہلانہ فیصلہ کی بدولت زندہ جلادی گئی۔ خدا کی پناہ! جہاں یہ کھلے عام جہالت پر مبنی فیصلے انسانیت اور معاشرہ کی تذلیل ہیں، وہیں یہ ریاست پاکستان کی رٹ کو چیلنج بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک جمہوری ریاست میں عدالتوں کا نظام ہوتے ہوئے ایسے نام نہاد جرگوں، پنچائیت اور ڈیروں کی منظم اور فعال موجودگی کس کی کمزوریوں کا پول سر عام کھول رہی ہے؟
پاکستان میں ایسے دو نمبر جرگوں، پنچایتوں اور ڈیروں کا یہ کوئی پہلا اور غیر انسانی فیصلہ نہیں، ذرا ایک نظر غور سے دیکھیں تو واضح ہوجائے گا کہ اس نظام نے کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ ذرا ایک مرتبہ انٹرنیٹ پر جرگے سے متعلق خبریں تلاش کریں تو سینکڑوں کی تعداد میں ایسے واقعات سامنے آجائیں گے جب پسند کی شادی، جائیداد کے تنازعات، زمین کی حدود، قتل، اغواء کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے ان جرگوں نے ناانصافی کی نئی تاریخ رقم کردی۔
اس سے پیشتر کہ میں ان چند واقعات کا تذکرہ کروں، پہلے بیان کردوں کہ یہ جرگہ نظام ہے کیا؟ جرگہ اور پنچائیت آج کی عدالت کی پرانی شکل ہے۔ ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ممالک میں عدالتی قوانین موجود ہوتے ہیں اور عدلیہ قوانین کے مطابق سزا سناتی ہے جبکہ جرگہ اور پنچایت کے معاملے میں یہ قوانین پسند یا ناپسند کی بنیاد پر تبدیل ہوسکتے ہیں۔ مختاراں مائی جیسا کیس بھی اسی جرگہ نظام کی سوغات ہے جس نے عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کو مٹی میں ملانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
سندھ سے لیکر خیبر تک یہ جرگہ نظام کس طرح بااثر افراد کی زیر نگرانی قائم و دائم ہے اور جو کچھ اس کے تحت ہوتا رہا ہے اس میں سے چند چیدہ چیدہ واقعات بطور مثال پیش کرتا ہوں۔
- یہ ذکر ہے مارچ 2014 کے ایک فیصلے کا جب سندھ کے شہر شکارپور میں پسند کی شادی پر دو لڑکیوں کو کاری قرار دے کر قتل کردیا گیا تھا۔ جبکہ دونوں لڑکوں کو قتل سے بچنے کیلئے 24 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ اہم بات ملاحظہ کیجئے کہ یہ جرگہ مسلم لیگ ف کے ایم این اے غوث بخش مہر کی سربراہی میں ہوا تھا، اب اس کے بعد کس سے سوال کیجئے؟
- اسی طرح 2012 میں ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں دو خاندانوں کے درمیان تصادم ختم کرانے کے لیے 13 خواتین ونی کردی گئیں جبکہ خبر کے مطابق اس قبائلی تنازعہ کے تصادم اور قتل کے معاملات نمٹانے کے لئے صوبائی اسمبلی کے رکن کی زیر صدارت جرگے نے 13 لڑکیاں ونی کرنے کا فیصلہ کیا جن کی عمریں 4 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔ کوئی پوچھے کہ بھائی جب آپ جیسے منتخب افراد کو عدلیہ پر یقین نہیں تو عام انسان کیا کرے؟ یہ ونی بھی ایک بلا نما رسم ہے جو جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں رائج ہے، جس کے تحت خاندانی دشمنیوں اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لیے خواتین اور کبھی بچیوں کو نکاح میں دوسرے فریق کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
- پولیس رپورٹ کے مطابق مئی 2014 میں پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں فضلاں بی بی نام کی 45 سالہ بیوہ عورت کے ساتھ اُس وقت اجتماعی زیادتی کی کوشش کی گئی جب اُن کی اپنی برادری کی پنچائیت نے اُس کے خلاف فیصلہ دیا۔ اب اس جہالت اور ظلم پر کیا کہا جائے؟ مذمت اور تاسف کے علاوہ سر پیٹنے کی ہی کسر رہ جاتی ہے۔
- اور ابھی دو ماہ پہلے کی خبر ہے جب رحیم یار خان میں پسند کی شادی کرنے پر جرگے نے جوڑے کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا حکم دیا تو میاں بیوی جان کے تحفظ کے لئے جنگلوں میں دربدر ہونے پر مجبور ہوگئے۔
تو اب آپ بتائیے کہ ایسی خبروں اور واقعات کے بعد بھی کوئی باشعور اور عاقل شہری اس قسم کے جرگہ کے نظام کے حق میں ہوسکتا ہے؟ کم از کم میں تو ہرگز نہیں اور ایبٹ آباد میں عنبرین کو جلائے جانے جیسے انسانیت سوز واقعہ سمیت ایسے تمام فرسودہ اور ظالمانہ فیصلوں کی مذمت کرتا ہوں۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکومت سے مطالبہ بھی کرتا ہوں کہ جرگے میں حکم سنانے والے تمام افراد کو عبرت کا نشان بنادے تاکہ آئندہ کسی کی زندگی سے نہ کھیلا جاسکے۔
لیکن جہاں ہم ایک طرف جرگوں پر تنقید کررہے ہیں وہیں دوسری طرف یہ سوال بھی ضرور اُٹھنا چاہیے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ لوگ جرگوں، پنچائیتوں کا رخ کرتے ہیں؟ اِس حوالے سے ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ عدلیہ کا طریقہ کار، بہت سارے پیسے اور وقت کا زیاں، قانونی پچیدگیاں اور انصاف میں تاخیر درحقیقت ان جرگوں کے پنپنے کی وجہ ہیں۔
اگر یہی حقیقت ہے تو پھر قصور جرگوں سے زیادہ ریاست کا ہے جس کی اپنی کوتاہی کے سبب معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں۔ اس لیے حکمرانوں سے التجا ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے کو جلد از جلد نمٹائیں اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے سخت سے سخت فیصلے کیجیے تاکہ مزید کوئی اور عنبرین اس ظلم کا نشانہ نہ بن سکے۔
[poll id="1100"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔