بیسویں صدی کے جھوٹ
ایک محفل، جس میں فیض احمد فیض بھی موجود تھے،
افلاطون نے کہا ہے ''جوآج مفت کی نصیحت قبول نہیں کریگا،کل اسے مہنگے داموں افسوس خریدنا پڑیگا'' اب جھوٹ بولنے والوں کی بات کیاکیجیے، جب ہم خود جھوٹ سننے کے عادی مجرم ہوچکے ہیں، ہمیں اب جھوٹ سننے میں ہی تسکین ملتی ہے۔ جھوٹ سن کر ہی ہمیں نیند آتی ہے جس روز جھوٹ نہ سنیں تو اسے سننے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، ہماری حالت ہیروئین پینے والوں جیسی ہوگئی ہے کہ جب جھوٹ سننے میں دیرہوجاتی ہے اور پہلے جھوٹ کا نشہ ٹوٹنے لگتا ہے توہم اپنے جسموں کو نوچتے ہوئے ایک ایک سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں کہ خدا کے واسطے ہمیں جھوٹ سنا دو،کوئی بھی جھوٹ کیسا بھی جھوٹ لیکن ہو وہ جھوٹ ہی تاکہ ہمیں چین مل سکے، سکون مل سکے، تسکین مل سکے۔
ایک محفل، جس میں فیض احمد فیض بھی موجود تھے، باتیں ہورہی تھیں کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا کسی نے کہا انارکی ہوجائے گی، کسی کے خیال میں بڑے پیمانے پرخون خرابہ اورکچھ کے خیال میں ملک مزید بھی ٹوٹ سکتا ہے، ایسے میں فیض صاحب کی رائے پوچھی گئی توانھوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ''بھئی میرے خیال میں اس سے بھی برا ہوگا سب نے حیران ہوکر پوچھا وہ کیسے فیض صاحب نے جواب دیا کہ ''مجھے ڈر ہے کہ یہ ملک ایسا ہی چلتا رہے گا '' فیض صاحب کا اس وقت کا ڈرآج ہمارے لیے ڈراؤنی چڑیل بن کر رہ گئی ہے، جو ہر موڑ پر آکر ہم پر اس بری طرح سے ہنستی ہے کہ دل دہل کے رہ جاتا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے آج بھی سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے، جیسا فیض صاحب کے وقت چل رہاتھا، اگر آج بھی کسی دوسرے فیض احمد فیض سے پوچھ کر دیکھ لو وہ بھی وہی کچھ کہیں گے جو فیض احمد فیض بول چکے تھے۔ سالوں بعد بھی کچھ نہیں بدلا سب کا سب ویسا کا ویسا ہی ہے جیسا سالوں پہلے تھا۔ پہلے بھی لوگ جھوٹی کہانیوں میں مست تھے ،آج بھی ان ہی کہانیوں میں مست ہیں آپ اورکچھ نہ کریں فیض صاحب کے زمانے کے حکمرانوںکے بیانات اٹھا کر پڑھ لیں اور آج کے حکمرانوں کے بیانات کوبھی دیکھ لیں اگر ذرا برابر فرق ملے توجو چورکی سزا وہ میری سزا۔
اس وقت کے عام لوگوں کی زندگیوں کی چھوٹی چھوٹی کہانیوں پر نظر ڈال لیں اورآج کے عام لوگوں کی زندگیوں کی کہانیاں پڑھ لیں آپ کو فرق صرف ناموں کا ہی ملے گا جب کہ کہانیاں جوں کی توں ہوں گی اگرآپ کسی بھی طرح سے اس وقت کی گلیوں، محلوں، چوراہوں اورگھروں میں بیٹھے لوگوں کی باتیں سن سکتے ہیں توسن کر دیکھ لیں اور ساتھ ہی آج ملک کی گلیوں، محلوں،چوراہوں میں پھر کردیکھ لیں تو آپ سکتے میں آجائیں گے کہ سب کی سب باتیں ویسی کی ویسی ہورہی ہیں ۔لوگ وعدوں، دعوؤں،کہانیوں پر خوب مست ہورہے ہیں حکمرانوںکو دل کھول کرداد پہ داد دے رہے ہیں، ہر آنے والوں کا زور زور سے تالیاں بجا بجا کر استقبال کر رہے ہیں اورجانے والوں کو جی بھر بھرکر برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
دنیا بھرکے ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے شعور میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے لیکن ہم نے جہاں ان کی دیگر اور باتیں غلط ثابت کی ہیں ان کی یہ بات بھی ہم نے غلط ثابت کردی ہے۔ ہم 68 سال پہلے بھی ایسے ہی تھے جیسے آج ہیں ہماری ہی وجہ سے دنیا کے بہت سے نامور ما ہر نفسیات اپنا پیشہ ترک کرکے آج کل چائے کے ہوٹل چلا رہے ہیں اور جب کوئی غلطی سے ان کے سامنے نفسیات کی بات کربیٹھتا ہے تو پھر وہ صیحح سلامت واپس نہیں جاتا ہے یا تو ایمبولینس میں جاتا ہے یااسے جانے کے لیے چند لوگوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔
اصل میں ہم تبدیل ہونا اور وقت کے ساتھ چلنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ بقول ہمارے تبدیل ہونے والے چھچھورے ہوتے ہیں کمزور اور عورتوں کی خصلت والے ہوتے ہیں جب کہ ڈٹے رہنا اپنی بات پر قائم رہنا مردوں کی شان ہے۔ چاہے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے، چاہے کتنی ہی بربادی کیوں نہ ہوجائے نہ ہمارے بزرگ کبھی بدلے تھے اور نہ ہم بدلیں گے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم تبدیل ہوجائیں اوروقت کے ساتھ چلیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے اگر اس نے یہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ایسی منہ کی کھائے گا کہ پھر کبھی اپنا منہ دوبارہ دکھا نے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔
ایک بات جس پر بہت دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ ایک بہت سنجیدہ مسئلہ بڑی ہی خاموشی کے ساتھ پیداہورہا ہے یہ کہ لوگ ایک ہی قسم کے جھوٹ یعنی ملک میں جمہوریت مستحکم ہورہی ہے، دو تین سال میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا، ملک نازک دور سے گذر رہا ہے، عوام قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوجائیں، پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان میںاشیائے خورو نوش کی قیمتیں اب بھی کم ہیں ملک سے کر پشن اور لو ٹ مارکو ختم کردیں گے، ملک اب مزید کرپشن اور لوٹ مار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ملک سے غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ملک میں اچھی طرز حکمرانی قائم کریں گے اور اقربا پروری کا خاتمہ کردیں گے، خاندانی سیاست کو دفن کردیں گے ۔
تعلیم کو عام کریں گے صحت کی سہولیات ہر خاص وعام کو مفت مہیا کریں گے، ہم عوام کے خادم ہیں، وغیرہ وغیرہ سے اب اکتانے لگے ہیں۔ جھوٹ بولنے والوں سے درخواست ہے کہ خدارا وہ وقت کے ساتھ ساتھ چلیں وہ اپنی نہ سہی کم ازکم وقت کی ہی عزت کرلیں چونکہ یہ بیسوی صدی ہے اس لیے جھوٹ بھی بیسوی صدی کے عین مطابق ہونے چاہیں ناکہ انیسویں صدی کے مطابق تاکہ ایک تو سننے والے اکتاہٹ اور یکسانیت کاشکار نہ ہوں اور چونکہ بیسویں صدی کے جھوٹ انتہائی دلکش اور دل لبھانے والے ہوں گے تو سننے والوں کو بھی لطف اور سرور حاصل ہوتا رہے گا اور وہ اس کی سریلی سروں میں خوب جھومتے رہیں گے یہ میں آپ کو مفت کی نصیحت دے رہاہوں لے لیجیے کہیں ایسا نہ ہو کہ کل آپ کو مہنگے دام افسوس خریدنا پڑجائے اورجاگنے والے جاگ جائیں، بندکان کھل جائیں زبانوں پر پڑے تالے ٹوٹ جائیں اور جھوٹ کی وہ مٹی پلیت ہوجائے کہ جس کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا ہے۔
یاد رہے کہ کبھی بدلنے میں بھی دیر نہیں لگتی ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ آج ہورہا ہے، ویسا کل بھی ہوتا رہے، جب جاگنے والے جاگتے ہیں تو وہ زمین پر قیامت ہوتی ہے جیسی کہ فرانس اور روس میں ہوچکی ہے اور قیامت ہمیشہ گناہگاروں اورجھوٹوں پر بڑی ہی سخت ہوتی ہے، اس روز صرف سچ ہی سچ ہوتا ہے اور وہ جھوٹ کے پیچھے ہوتا ہے... آگے آپ کی مرضی ۔