سندھی تخلیقی ادب
پہلی بات، میں کوئی نقاد ہوں نہ اتنا پڑھا لکھا، جو تھوڑا بہت نظر سے گذرا ہے
پہلی بات، میں کوئی نقاد ہوں نہ اتنا پڑھا لکھا، جو تھوڑا بہت نظر سے گذرا ہے اس کی بنیاد پر چند گذارشات عرض کرنا چاہتا ہوں۔آجکل ادبی میلوں کا موسم ہے، ہرطرف دیکھیں میلے ہی میلے۔اس خطے میں پہلے جے پور، کراچی، کینڈی، لاہور، اسلام آباد اور اب حیدر آباد میں میلہ سجا ، بلکہ اور شہروں کے ادباء بھی پر تول رہے ہیں۔ یہ ایک اچھا شگون ہے کہ جس معاشرے میں بنیاد پرستی ، ڈپریشن ، غربت ، بیماری وغیرہ گھرکرکے بیٹھی ہوں، وہاں ایسے میلے صحت مند رجحان کو فروغ دینے میں مدد دینگے اور افراد کی ذہنی نشونماء میں اہم کردار ادا کرینگے۔ یہ میلے ہمارے گھٹن والے سماج میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ہیںاس لیے ایسے میلوں کو جاری رہنا چاہیے۔
اتفاق سے حالیہ منعقد ہونیوالے حیدرآباد ادبی میلے میں جانے کا موقع ملا اور سندھی ادب سے متعلق مختلف سیشنز سننے کو ملے، اسی تسلسل میں میں چند گزارشات سندھی تخلیقی ادب کے متعلق گوشہ نشین کرنا چاہتا ہوںکیونکہ میں بھی بنیادی طور افسانہ نگار ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھی میں شارٹ اسٹوری بہت زیادہ تعداد میں لکھی جارہی ہے۔ 60/70 کی دہائیوں میں جب سندھ میں قوم پرستی اور بائیں بازو کی سیاست کا نوجوانوں پر رومانس طاری تھا ، توکئی لکھاری اسی بہاؤ سے باہر نکل آئے، امر جلیل،آغا سلیم ، سراج، علی بابا، مدد علی سندھی، قمر شہباز وغیرہ ۔ اسی دور میں کچھ لوگوں نے سماجی حقیقتوں، لوک کلچر کے پش منظر میں افسانے لکھے، نسیم کھرل، عبدالقادر جونیجو، شوکت حسین شورو، قمر شہباز، نورالھدیٰ شاہ وغیرہ شامل ہیں جب کہ مانک اور مشاق شورو نے اسٹریم آف کانشسنیس کے اسلوب میں اپنے بہترین جوہر دکھائے۔
اس دور میں شارٹ اسٹوریز بہت زیادہ لکھی گئیں، لیکن ناول نہ لکھنے کے برابر تھے۔ پھر بھی مانک کے ناول 'ساہ مٹھ میں' اور طارق عالم ابڑو کاسندھ یونیورسٹی کے پس منظر میں لکھا ہوا ناول 'رہجی ویل منظر' نے تہلکہ مچایا حالانکہ آغا سلیم کے 'اونداہی دھرتی، روشن ہتھ' ہمہ اوست، سراج کا ''پڑاڈو سوئی سڈ'' بھی لکھے گئے تھے پھر اچانک سندھی کے تخلیقی ادب میں ایک خلاپیدا ہوا، جب زیادہ تر لکھاری ٹیلی ویژن اسکرین کی طرف چلے گئے کیونکہ پاپولریٹی اور روزی روٹی کی بات بھی تھی تب سے آج تک سندھی معیاری تخلیقی ادب پر ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے حالانکہ 80کی دہائی میں سندھ میں ایم آرڈی کی تحریک عروج پر تھی لیکن ایسے حالات بھی کوئی معیاری تخلیقی ادب پیدا کرنے میں مدد گار ثابت نہ ہوسکے۔
اس دہائی کے آخر اور 90کی شروع میں ایک اور نسل اس میدان میں آئی جنھیں ہم آج بھی سندھ کے ''نوجوان ادیب''کہتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لکھاریوں نے جوادب تخلیق کیا،اس پر معیارکی سوئی اٹکی ہوئی ہے البتہ پھر بھی کچھ لوگوں نے اچھا نبھایا۔ان میں ممتاز بخاری،امرلغاری، رحمت اللہ مانجوٹھی، حفیظ کنبھر، صدیق منگیو شامل ہیں جنہوں نے سندھی تخلیقی ادب میں اچھا اضافہ کیا۔کلاس فور جی محبوبا، موکھی، کھریل گھڑیال، نادوارو، پکھین جو وطن جیسی تصانیف شامل ہیں، حفیظ کنبھرکی شارٹ اسٹوریزکتابی شکل میں نہیں آئیں، پھر بھی ان کا افسانہ ''کاکی متی'' شاندار ہے ، لیکن ان کے زیادہ تر ہم عصر لکھاریوں نے کچھ نیا کرنے کی کوشش میں سندھی تخلیقی ادب کو چاروں شانے چت کردیا ۔ہوا یوں کہ ان ہی دہائیوں میں سندھ میں گارشیا مارکیز اورمیلان کنڈیرا کی دھوم مچی ہوئی تھی۔
(اب ترکی کے اور ہان پاموک اورالبانیہ کے اسماعیل قادری کی بلے بلے ہے) جادوئی حقیقت نگاری اور سرریلزم کا جادو بھی سرچڑھ کر بول رہا تھا ۔ اس جادو میںزیادہ تر لکھاری جکڑگئے اور اپنا کچھ لکھنے یا ان کا گہرا مطالعہ کرنے کی بجائے فارمولا ادب تخلیق کرنے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی تصانیف سرریلزم اور نہ جادوئی حقیقت نگاری کے زمرے میں آتی ہیں بلکہ چوں چوں کا مربہ بن گئیں حالانکہ مختلف ادبی تقریبوں میں ان کو''سرریئلسٹ رائٹر'' وغیرہ کے القابات ملنے لگے جس سے وہ بیحد خوش ہوئے ہمارے یہ نوجوان لکھاری اب بھی وہ تھوک سے حساب سے لکھ رہے ہیں اور اپنی سمجھ میں سندھی تخلیقی ادب کے بہت بڑے رائٹرز بنے ہوئے ہیں لیکن اگر ان سے ان اسلوبوں پر تخلیقی بات کی جائے تو ان کا جیت سوائے چکھ پھکے خیالوں کے خالی نظر آتا ہے ۔
صرف چند کتابوں یارائٹرز کے حوالے دینے سے کام نہیں بنتا، ویسے بھی سندھی ادب میں تنقید نگاری کا علم اب بھی نہ ہونے کے برابر ہے، صرف چند نام اکبر لغاری، اسحاق سمیجو، حفیظ کنبھر جیسے نقاد انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں۔ اب ماڈرنزم اور پوسٹ ماڈرنزم کے بعد فلیش اسٹوری کی باری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ فلیش اسٹوری پہلے سے دنیا میں لکھی جارہی ہے ، دور نہ جائیں بھارت کے کرشن چند کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے معتبر ادبی رسالے'' پیرس ریویو'' نے دنیا کے بڑے بڑے تخلیق کاروں سے انٹرویو کیے ہیں، یہ انٹرویو ''رائٹرز نیٹ ورک'' کے نام سے کتابی صورت میں چھاپے جاچکے ہیں۔
پوری کتاب تو میں نے نہیں پڑھی، البتیٰ چند رائٹرزکے انٹرویوز زیر نظر آئے ، جن سے میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ تخلیقی ادب ، انسان کے اندر موجود جبلتوں کا شاخسانہ ہوتا ہے ۔ ایک تخلیقی ادیب کے ذہن میں جب کوئی خیال ، مسئلہ ، بات یاکردار کلک کرتا ہے ، تووہ کا غذ قلم لے کر لکھتا جا تا ہے ، یہاں تک کہ اس کا قلم نہ رک جائے، چاہے وہ آرٹ ہو یا فکشن۔ بعد میں جب وہ تصنیف پروفیشنل نقادوں کے نظر سے گذریں توپتا چلتا ہے کہ تصنیف معیاری ہے یا نہیں ، کسی ادبی اسلوب یا رجحان کے زمر ے میں آتی ہے، ڈکشن اورکردار کس طرح کے ہیں حقائق کوکس ٹیکنیک کے ذریعے بیان کیا گیا ہے؟
ایسی چیرپھاڑ ہی اسی تصنیف کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کو طے کرتی ہے۔ ہم کولمبیا کے نوبل لاریٹ گازشیا مارکیز کی مثال لے سکتے ہیں، کہ بقول مارکیز، انھوں نے کولمبیا یا لاطینی امریکا کی ترقی پذیری، بدحالی، کالونیلزم ، لوک حقیقتوں اور روایات کو ملاکر اپنی تصانیف لکھیں، اس لیے وہ اپنی تصانیف کو جادوئی حقیقت نگاری ماننے سے انکار کرتا رہا،لیکن نقادوں نے ان کی تصانیف کی اسلوب کی بنیاد پراسے جادوئی حقیقت نگاری کا نام دیا، جس نے ہمارے سندھی ادیبوں میں شہرت پائی حالانکہ جرمنی کے گنترگراس کسی کو یاد نہیں، جن کے ناول ''دی ٹن ڈرم'' میں بھی ایسا اسلوب پایا جاتا ہے ۔ موجودہ دور میں جدید شارٹ اسٹوری لکھنے والی نوبل لاریٹ کینیڈین افسانہ نگار ایلس منروکو دیکھ لیں،اس نے ڈکشن کی بنیاد پر میدان مارلیا،کیونکہ انھوں نے افسانوں میں اپنے علاقے کے انسانی مسائل اورکڑوی حقیقتوں کو آسان زبان میں بیان کیا ہے۔
البتہ ان کی کہانیاں ریئل ازم کے زمرے میں آتی ہیں، جاپان کے ہاروکی مرا کامی کو دیکھ لیں، جن کی تصانیف میں جاپانی زندگی کے عکس پائے جاتے ہیں، چینی لکھاری گاؤ زنگ جیان کی شارٹ اسٹوریزکی کتاب '' بائنگ اے فشنگ راڈ فارمائی گرانڈ فادر'' میں نے پڑھی ہے، جس میں مختلف اسلوب اور ٹیکنیکس کا استعمال کیا گیا ہے،لیکن چینی لوگ زندگی اورکمیونسٹ دور کی کڑوی حقیقتوں کو اجا گرکیا گیا ہے حالانکہ ان کا افسانہ ''ان دی پارک'' صرف ڈائیلاگس کی شکل میں لکھی گئی ہے جب کہ، دوسرا افسانہ '' ان این انسٹنٹ '' اسٹریم آف کانشسنیس کے اسلوب میں لکھا گیا ہے۔ لٰہذا سندھی تخلیقی ادب کو معیاری بنانے کے لیے کسی فارمولے کی بجائے جدید عالمی تخلیقی ادب کا گہرا مطالعہ کرنا ہوگا اور تخلیقی ادب لکھنے کے اصولوں پر عمل پیرا رہنا پڑے گا، تب جاکر سندھی تخلیقی ادب عالمی ادب یا خطے کے ادب میں اپنی جگہ بناسکے گا، صرف منہ سے پلاؤ پکائے نہیں جاسکتے۔
اتفاق سے حالیہ منعقد ہونیوالے حیدرآباد ادبی میلے میں جانے کا موقع ملا اور سندھی ادب سے متعلق مختلف سیشنز سننے کو ملے، اسی تسلسل میں میں چند گزارشات سندھی تخلیقی ادب کے متعلق گوشہ نشین کرنا چاہتا ہوںکیونکہ میں بھی بنیادی طور افسانہ نگار ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھی میں شارٹ اسٹوری بہت زیادہ تعداد میں لکھی جارہی ہے۔ 60/70 کی دہائیوں میں جب سندھ میں قوم پرستی اور بائیں بازو کی سیاست کا نوجوانوں پر رومانس طاری تھا ، توکئی لکھاری اسی بہاؤ سے باہر نکل آئے، امر جلیل،آغا سلیم ، سراج، علی بابا، مدد علی سندھی، قمر شہباز وغیرہ ۔ اسی دور میں کچھ لوگوں نے سماجی حقیقتوں، لوک کلچر کے پش منظر میں افسانے لکھے، نسیم کھرل، عبدالقادر جونیجو، شوکت حسین شورو، قمر شہباز، نورالھدیٰ شاہ وغیرہ شامل ہیں جب کہ مانک اور مشاق شورو نے اسٹریم آف کانشسنیس کے اسلوب میں اپنے بہترین جوہر دکھائے۔
اس دور میں شارٹ اسٹوریز بہت زیادہ لکھی گئیں، لیکن ناول نہ لکھنے کے برابر تھے۔ پھر بھی مانک کے ناول 'ساہ مٹھ میں' اور طارق عالم ابڑو کاسندھ یونیورسٹی کے پس منظر میں لکھا ہوا ناول 'رہجی ویل منظر' نے تہلکہ مچایا حالانکہ آغا سلیم کے 'اونداہی دھرتی، روشن ہتھ' ہمہ اوست، سراج کا ''پڑاڈو سوئی سڈ'' بھی لکھے گئے تھے پھر اچانک سندھی کے تخلیقی ادب میں ایک خلاپیدا ہوا، جب زیادہ تر لکھاری ٹیلی ویژن اسکرین کی طرف چلے گئے کیونکہ پاپولریٹی اور روزی روٹی کی بات بھی تھی تب سے آج تک سندھی معیاری تخلیقی ادب پر ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے حالانکہ 80کی دہائی میں سندھ میں ایم آرڈی کی تحریک عروج پر تھی لیکن ایسے حالات بھی کوئی معیاری تخلیقی ادب پیدا کرنے میں مدد گار ثابت نہ ہوسکے۔
اس دہائی کے آخر اور 90کی شروع میں ایک اور نسل اس میدان میں آئی جنھیں ہم آج بھی سندھ کے ''نوجوان ادیب''کہتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لکھاریوں نے جوادب تخلیق کیا،اس پر معیارکی سوئی اٹکی ہوئی ہے البتہ پھر بھی کچھ لوگوں نے اچھا نبھایا۔ان میں ممتاز بخاری،امرلغاری، رحمت اللہ مانجوٹھی، حفیظ کنبھر، صدیق منگیو شامل ہیں جنہوں نے سندھی تخلیقی ادب میں اچھا اضافہ کیا۔کلاس فور جی محبوبا، موکھی، کھریل گھڑیال، نادوارو، پکھین جو وطن جیسی تصانیف شامل ہیں، حفیظ کنبھرکی شارٹ اسٹوریزکتابی شکل میں نہیں آئیں، پھر بھی ان کا افسانہ ''کاکی متی'' شاندار ہے ، لیکن ان کے زیادہ تر ہم عصر لکھاریوں نے کچھ نیا کرنے کی کوشش میں سندھی تخلیقی ادب کو چاروں شانے چت کردیا ۔ہوا یوں کہ ان ہی دہائیوں میں سندھ میں گارشیا مارکیز اورمیلان کنڈیرا کی دھوم مچی ہوئی تھی۔
(اب ترکی کے اور ہان پاموک اورالبانیہ کے اسماعیل قادری کی بلے بلے ہے) جادوئی حقیقت نگاری اور سرریلزم کا جادو بھی سرچڑھ کر بول رہا تھا ۔ اس جادو میںزیادہ تر لکھاری جکڑگئے اور اپنا کچھ لکھنے یا ان کا گہرا مطالعہ کرنے کی بجائے فارمولا ادب تخلیق کرنے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی تصانیف سرریلزم اور نہ جادوئی حقیقت نگاری کے زمرے میں آتی ہیں بلکہ چوں چوں کا مربہ بن گئیں حالانکہ مختلف ادبی تقریبوں میں ان کو''سرریئلسٹ رائٹر'' وغیرہ کے القابات ملنے لگے جس سے وہ بیحد خوش ہوئے ہمارے یہ نوجوان لکھاری اب بھی وہ تھوک سے حساب سے لکھ رہے ہیں اور اپنی سمجھ میں سندھی تخلیقی ادب کے بہت بڑے رائٹرز بنے ہوئے ہیں لیکن اگر ان سے ان اسلوبوں پر تخلیقی بات کی جائے تو ان کا جیت سوائے چکھ پھکے خیالوں کے خالی نظر آتا ہے ۔
صرف چند کتابوں یارائٹرز کے حوالے دینے سے کام نہیں بنتا، ویسے بھی سندھی ادب میں تنقید نگاری کا علم اب بھی نہ ہونے کے برابر ہے، صرف چند نام اکبر لغاری، اسحاق سمیجو، حفیظ کنبھر جیسے نقاد انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں۔ اب ماڈرنزم اور پوسٹ ماڈرنزم کے بعد فلیش اسٹوری کی باری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ فلیش اسٹوری پہلے سے دنیا میں لکھی جارہی ہے ، دور نہ جائیں بھارت کے کرشن چند کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے معتبر ادبی رسالے'' پیرس ریویو'' نے دنیا کے بڑے بڑے تخلیق کاروں سے انٹرویو کیے ہیں، یہ انٹرویو ''رائٹرز نیٹ ورک'' کے نام سے کتابی صورت میں چھاپے جاچکے ہیں۔
پوری کتاب تو میں نے نہیں پڑھی، البتیٰ چند رائٹرزکے انٹرویوز زیر نظر آئے ، جن سے میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ تخلیقی ادب ، انسان کے اندر موجود جبلتوں کا شاخسانہ ہوتا ہے ۔ ایک تخلیقی ادیب کے ذہن میں جب کوئی خیال ، مسئلہ ، بات یاکردار کلک کرتا ہے ، تووہ کا غذ قلم لے کر لکھتا جا تا ہے ، یہاں تک کہ اس کا قلم نہ رک جائے، چاہے وہ آرٹ ہو یا فکشن۔ بعد میں جب وہ تصنیف پروفیشنل نقادوں کے نظر سے گذریں توپتا چلتا ہے کہ تصنیف معیاری ہے یا نہیں ، کسی ادبی اسلوب یا رجحان کے زمر ے میں آتی ہے، ڈکشن اورکردار کس طرح کے ہیں حقائق کوکس ٹیکنیک کے ذریعے بیان کیا گیا ہے؟
ایسی چیرپھاڑ ہی اسی تصنیف کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کو طے کرتی ہے۔ ہم کولمبیا کے نوبل لاریٹ گازشیا مارکیز کی مثال لے سکتے ہیں، کہ بقول مارکیز، انھوں نے کولمبیا یا لاطینی امریکا کی ترقی پذیری، بدحالی، کالونیلزم ، لوک حقیقتوں اور روایات کو ملاکر اپنی تصانیف لکھیں، اس لیے وہ اپنی تصانیف کو جادوئی حقیقت نگاری ماننے سے انکار کرتا رہا،لیکن نقادوں نے ان کی تصانیف کی اسلوب کی بنیاد پراسے جادوئی حقیقت نگاری کا نام دیا، جس نے ہمارے سندھی ادیبوں میں شہرت پائی حالانکہ جرمنی کے گنترگراس کسی کو یاد نہیں، جن کے ناول ''دی ٹن ڈرم'' میں بھی ایسا اسلوب پایا جاتا ہے ۔ موجودہ دور میں جدید شارٹ اسٹوری لکھنے والی نوبل لاریٹ کینیڈین افسانہ نگار ایلس منروکو دیکھ لیں،اس نے ڈکشن کی بنیاد پر میدان مارلیا،کیونکہ انھوں نے افسانوں میں اپنے علاقے کے انسانی مسائل اورکڑوی حقیقتوں کو آسان زبان میں بیان کیا ہے۔
البتہ ان کی کہانیاں ریئل ازم کے زمرے میں آتی ہیں، جاپان کے ہاروکی مرا کامی کو دیکھ لیں، جن کی تصانیف میں جاپانی زندگی کے عکس پائے جاتے ہیں، چینی لکھاری گاؤ زنگ جیان کی شارٹ اسٹوریزکی کتاب '' بائنگ اے فشنگ راڈ فارمائی گرانڈ فادر'' میں نے پڑھی ہے، جس میں مختلف اسلوب اور ٹیکنیکس کا استعمال کیا گیا ہے،لیکن چینی لوگ زندگی اورکمیونسٹ دور کی کڑوی حقیقتوں کو اجا گرکیا گیا ہے حالانکہ ان کا افسانہ ''ان دی پارک'' صرف ڈائیلاگس کی شکل میں لکھی گئی ہے جب کہ، دوسرا افسانہ '' ان این انسٹنٹ '' اسٹریم آف کانشسنیس کے اسلوب میں لکھا گیا ہے۔ لٰہذا سندھی تخلیقی ادب کو معیاری بنانے کے لیے کسی فارمولے کی بجائے جدید عالمی تخلیقی ادب کا گہرا مطالعہ کرنا ہوگا اور تخلیقی ادب لکھنے کے اصولوں پر عمل پیرا رہنا پڑے گا، تب جاکر سندھی تخلیقی ادب عالمی ادب یا خطے کے ادب میں اپنی جگہ بناسکے گا، صرف منہ سے پلاؤ پکائے نہیں جاسکتے۔