سراپا محبت ’’میری ماں‘‘
ماں جس کی پیشانی پر نور، الفاظ میں محبت، آغوش میں دنیا بھر کا سکون، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت کی نوید۔
ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے، لیکن اپنے اندر پوری کائنات سموئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالی کو جب اپنی محبت بیان کرنی ہوتی ہے تو وہ مالک اقدس ماں کی محبت کو مثال بناتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ 'ماں' ہے۔ دنیا کی کسی بھی زبان میں دیکھ لیجئے، لفظ ماں ہی سب سے زیادہ جاذبیت اور پیار سے بھرا ہوتا ہے۔ ماں ایک ایسا لفظ ہے جس میں موتی کی سی چمک، گلاب کی سرخی، غنچے کی رعنائیت، سونے کی تمتماہٹ اور ستاروں کی جھلملاہٹ سمیت حسن و لطافت کی تمام تر خوشنمائی و رعنائی چھلکتی ہے۔
ماں وہ لفظ ہے جسے سن کر دلوں کو شادمانی و فرحت نصیب ہوتی ہے اور ماں وہ ہستی ہے جسکی پیشانی پر نور، الفاظ میں محبت، آغوش میں دنیا بھر کا سکون، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے چہروں کو شاداں و فرحاں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بقول شاعر،
آج بد قسمتی سے آئے روز ایسی خبریں نظر سے گزرتی ہیں کہ بوڑھی ماں کو مختلف وجوہات کی بناء پر گھر سے نکال دیا گیا۔ ابھی گھر سے نکالنے کا دکھ ہی کھائے جارہا تھا کہ خبریں آنا شروع ہوگئی کہ اولاد نے ہی اپنی ماں کو قتل کردیا۔ اس طرح کے واقعات بدبخت اولاد کی نافرمانی کی انتہا اور سنگدلی کو بیان کرتے ہیں اور ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے، کہ ماں جیسی محسن شخصیت کو انسان کیوں بھول جاتا ہے؟
ان دلخراش واقعات کے ساتھ ساتھ بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز میں بھیجنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے، اور بدقسمتی سے یہ اکثر وہ لوگ کررہے ہیں جن کو والدین نے اعلیٰ تعلیم دلائی اور چونکہ بہو بھی پڑھی لکھی تھی اس لیے وہ والدین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ ویسے جب سے ان اولڈ ہاؤسز نے ہمارے معاشرے میں پنپنا شروع کیا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ پرانے گھر واقعی پرانے لوگوں سے بھرتے چلے جارہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک اولڈ ہاؤس جانے کا اتفاق ہوا دیکھ کر دلی صدمہ ہوا کہ بہت سے خاندانی روایات کے جنازے اٹھ گئے۔ اولاد کو اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کرنا وبال لگنے لگا۔ بیگمات کی فرمائش پر اپنے والدین ہی پرائے لگنے لگے اور ان والدین کو ان پرانے گھروں میں لا کر داخل کرادیا اور ہر سال محض ماؤں کا عالمی دن منانے ان کے پاس چلے آتے ہیں۔ جیسے ایک دن خدمت کر کے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں۔
ویسے اگر سچ پوچھا جائے تو یہ دن ہے ہی ایسے لوگوں کا جو سال بھر تو اپنے ہونے کی وجہ کو فراموش کئے ہوتے ہیں اور وہ ایک دن اپنے گھر اور بچوں سے دور کسی اولڈ ہوم میں پڑی ماں کو پھولوں کا تحفہ دے کر پھر پورے سال کیلئے خود کو آزاد کرالیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک دن ماؤں کے نام مختص کر کے کوئی بھی خود کو ترقی یافتہ معاشرہ ثابت کرنا چاہتا ہے؟
کیا ایک دن کا پیار، تھوڑے سے پھول اور تحائف ایک ماں کیلئے پورے سال کیلئے کافی ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں! ہماری اقدار ہمیں اس بات کی اجازت قطعی طور پر نہیں دیتیں اور نہ ہی یہ ماں جیسی عظیم ہستی کے شایان شان ہے کہ سال میں ایک بار ماں سے مل کر اور تحفے تحائف دے کر محض رسم پوری کردی جائے۔ ہمارا معاملہ رسم سے آگےعبادت اور خدمت کے درجے کا ہے۔ ماں کے پاس بیٹھنے، ماں کی طرف پیار بھری نظر سے دیکھنے اور ماں سے وہ باتیں کرنا جو اسے پسند ہوں دراصل ہمارے دین کا حصہ ہے۔ جبکہ ماں کو دیکھ کر دن کا آغاز کرنا اور ماں کا دہلیز تک بچوں کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنا ہماری صدیوں پرانی روایات ہیں۔
اپنی بات کروں تو میں اس سلسلے میں خوش قسمت ہوں کہ الحمد اللہ میری والدہ محترمہ حیات ہیں اور جن کی بھی والدہ حیات ہیں وہ سب بھی یقیناً خوش قسمت ہیں کہ ان کے لئے دعا کرنے والی ہستی دنیا میں موجود ہے۔ صرف ایک بار ملنے والی زندگی میں ماں جیسی نعمت کی قدر کیجئے کیونکہ ہمارے سروں پر ان کا سایہ یا گھروں میں ان کا ہونا ہی باعث برکت ہے۔ جس معاشرے میں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت اور باپ کی رضا میں فلاح ہے، بدقسمتی سے وہی معاشرہ آج غیروں کی اندھی تقلید میں اس قدر گھر چکا ہے کہ اس جنت اور رضائے ربانی سے دامن بچاتا اپنی ہی روشن اقدار پامال کرتا نظر آرہا ہے۔
دنیا و آخرت میں کامیابی ماں کی دعا کی مرہون منت ہے۔ اسلئے اس عظیم ماں سے جتنی دعائیں سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیجئے۔ رب کائنات نے ایک بار حضرت موسیٰ علیہ اسلام سے کہا،
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ماں وہ لفظ ہے جسے سن کر دلوں کو شادمانی و فرحت نصیب ہوتی ہے اور ماں وہ ہستی ہے جسکی پیشانی پر نور، الفاظ میں محبت، آغوش میں دنیا بھر کا سکون، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے چہروں کو شاداں و فرحاں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بقول شاعر،
اک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
آج بد قسمتی سے آئے روز ایسی خبریں نظر سے گزرتی ہیں کہ بوڑھی ماں کو مختلف وجوہات کی بناء پر گھر سے نکال دیا گیا۔ ابھی گھر سے نکالنے کا دکھ ہی کھائے جارہا تھا کہ خبریں آنا شروع ہوگئی کہ اولاد نے ہی اپنی ماں کو قتل کردیا۔ اس طرح کے واقعات بدبخت اولاد کی نافرمانی کی انتہا اور سنگدلی کو بیان کرتے ہیں اور ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے، کہ ماں جیسی محسن شخصیت کو انسان کیوں بھول جاتا ہے؟
ان دلخراش واقعات کے ساتھ ساتھ بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز میں بھیجنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے، اور بدقسمتی سے یہ اکثر وہ لوگ کررہے ہیں جن کو والدین نے اعلیٰ تعلیم دلائی اور چونکہ بہو بھی پڑھی لکھی تھی اس لیے وہ والدین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ ویسے جب سے ان اولڈ ہاؤسز نے ہمارے معاشرے میں پنپنا شروع کیا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ پرانے گھر واقعی پرانے لوگوں سے بھرتے چلے جارہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک اولڈ ہاؤس جانے کا اتفاق ہوا دیکھ کر دلی صدمہ ہوا کہ بہت سے خاندانی روایات کے جنازے اٹھ گئے۔ اولاد کو اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کرنا وبال لگنے لگا۔ بیگمات کی فرمائش پر اپنے والدین ہی پرائے لگنے لگے اور ان والدین کو ان پرانے گھروں میں لا کر داخل کرادیا اور ہر سال محض ماؤں کا عالمی دن منانے ان کے پاس چلے آتے ہیں۔ جیسے ایک دن خدمت کر کے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں۔
ویسے اگر سچ پوچھا جائے تو یہ دن ہے ہی ایسے لوگوں کا جو سال بھر تو اپنے ہونے کی وجہ کو فراموش کئے ہوتے ہیں اور وہ ایک دن اپنے گھر اور بچوں سے دور کسی اولڈ ہوم میں پڑی ماں کو پھولوں کا تحفہ دے کر پھر پورے سال کیلئے خود کو آزاد کرالیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک دن ماؤں کے نام مختص کر کے کوئی بھی خود کو ترقی یافتہ معاشرہ ثابت کرنا چاہتا ہے؟
کیا ایک دن کا پیار، تھوڑے سے پھول اور تحائف ایک ماں کیلئے پورے سال کیلئے کافی ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں! ہماری اقدار ہمیں اس بات کی اجازت قطعی طور پر نہیں دیتیں اور نہ ہی یہ ماں جیسی عظیم ہستی کے شایان شان ہے کہ سال میں ایک بار ماں سے مل کر اور تحفے تحائف دے کر محض رسم پوری کردی جائے۔ ہمارا معاملہ رسم سے آگےعبادت اور خدمت کے درجے کا ہے۔ ماں کے پاس بیٹھنے، ماں کی طرف پیار بھری نظر سے دیکھنے اور ماں سے وہ باتیں کرنا جو اسے پسند ہوں دراصل ہمارے دین کا حصہ ہے۔ جبکہ ماں کو دیکھ کر دن کا آغاز کرنا اور ماں کا دہلیز تک بچوں کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنا ہماری صدیوں پرانی روایات ہیں۔
اپنی بات کروں تو میں اس سلسلے میں خوش قسمت ہوں کہ الحمد اللہ میری والدہ محترمہ حیات ہیں اور جن کی بھی والدہ حیات ہیں وہ سب بھی یقیناً خوش قسمت ہیں کہ ان کے لئے دعا کرنے والی ہستی دنیا میں موجود ہے۔ صرف ایک بار ملنے والی زندگی میں ماں جیسی نعمت کی قدر کیجئے کیونکہ ہمارے سروں پر ان کا سایہ یا گھروں میں ان کا ہونا ہی باعث برکت ہے۔ جس معاشرے میں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت اور باپ کی رضا میں فلاح ہے، بدقسمتی سے وہی معاشرہ آج غیروں کی اندھی تقلید میں اس قدر گھر چکا ہے کہ اس جنت اور رضائے ربانی سے دامن بچاتا اپنی ہی روشن اقدار پامال کرتا نظر آرہا ہے۔
دنیا و آخرت میں کامیابی ماں کی دعا کی مرہون منت ہے۔ اسلئے اس عظیم ماں سے جتنی دعائیں سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیجئے۔ رب کائنات نے ایک بار حضرت موسیٰ علیہ اسلام سے کہا،
''اے موسیٰ! اب ذرا سنبھل کر چلنا کیونکہ تمہارے لئے دعا کرنے والی تمہاری ماں اب اس دنیا میں نہیں ہے''۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔