’’روٹی بینک‘‘ کی ضرورت

انڈیا کے کسی شہر میں ایک شخص نے ’’روٹی بینک‘‘ کی بنیاد ڈالی۔


Raees Fatima May 08, 2016
[email protected]

انڈیا کے کسی شہر میں ایک شخص نے ''روٹی بینک'' کی بنیاد ڈالی۔ ابتدا میں لوگوں نے بہت مذاق اڑایا، جیسا کہ عموماً کسی نیک کام کی ابتدا میں ہوتا ہے، لیکن اس شخص نے ہمت نہیں ہاری اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی وقت صرف دو روٹیاں اور سالن یا سبزی اس بینک میں انسانیت کے نام پر دے جائیں۔ بہت سے مخیر لوگوں نے جن میں مڈل کلاس کے لوگ زیادہ شامل تھے۔ اس کارِخیر میں ہاتھ بٹایا۔

اس نیک کام کو دیکھ کر بہت سے لوگ ساتھ ہو گئے حتیٰ کہ وہ لوگ بھی دو دو روٹیاں اس بینک میں جمع کروانے لگے جن کے گھر میں خود بمشکل دو روٹیاں بچتی تھیں۔ اب یہ بینک مستحکم بنیادوں پر کام کر رہا ہے۔ دور دور سے لوگ اپنے گھرکا اضافی کھانا، دعوتوں کا بچا ہوا کھانا اس بینک کو دے رہے ہیں۔ اس طرح بہت سے غریبوں کا پیٹ بھر رہا ہے۔ بینک میں کھانا جمع کروانے والوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔

ہمارے ہاں بھی کچھ مخیر ادارے صبح شام صدقہ و خیرات کا کھانا بلا معاوضہ کھلاتے ہیں، لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہیرونچی اور پروفیشنل مفت خورے اس سہولت سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سفید پوش، غیرت مند گھر میں پیٹ پہ پتھر باندھ کر بیٹھا ہے کہ وہ سر راہ جا کر کھانا نہ کھا سکتا ہے نہ اپنے اہل خانہ کو سڑک پر لے جا کر پیٹ پوجا کروا سکتا ہے۔ تو پھر ایسا کیا کیا جائے جو سفید پوش طبقہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے۔ اول تو مختلف خیراتی اداروں کو چاہیے کہ کسی مخصوص جگہ پر کچھ کھانا فریج میں رکھ دیا جائے۔ مختلف سائز کی پلاسٹک کی تھیلیوں میں۔

اسی طرح بڑے چھوٹے ہوٹلوں میں بھی ان کے مالکان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہوٹلوں کے باہر کسی مخصوص جگہ پر کچھ بڑے فریج رکھ دیے جائیں۔ جہاں ڈشوں میں بچا ہوا صاف کھانا تھیلیوں میں بند کر کے رکھ دیا جائے۔ یہ مشاہدہ عام ہے کہ تمام ہوٹلوں اور پکوان سینٹروں پر یہی قطار لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ کھانا انھیں ہر جگہ مفت میں اور بہترین مل جاتا ہے نشے کی ضرورت یہ گٹر کے ڈھکن بیچ کر، چوریاں کر کے اور بھیک مانگ کر پوری کر لیتے ہیں۔ سفید پوش خالی پیٹ والوں کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔

اسی طرح شادی بیاہ کی دعوتوں، ولیموں اور بارات کے کھانوں پہ جس طرح سوٹڈ بوٹڈ مرد اور انتہائی بناؤ سنگھار کیے خواتین معہ اپنے بچوں کے ساتھ ٹوٹ پڑتی ہیں، وہ نظارے ہر جگہ عام ہیں۔ پلیٹوں میں مرغی، مچھلی کے بروسٹ کے پہاڑ بنانا، بریانی، قورمہ اور ہر قسم کے میٹھے کے چبوترے بھی عام ہیں۔ اتنا کھایا نہیں جاتا جتنا ضایع کیا جاتا ہے۔ بس صرف ہم کھا لیں، کہیں ختم نہ ہو جائے یا کوئی دوسرا نہ اڑا لے اس لیے پیٹ، اوجھڑی، معدے، جگر سب بھر لو۔

پانامہ لیکس اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ چلیے صاحب انھیں کھانے دیجیے کہ ان دعوتوں میں کھانوں پر لوگوں کی یلغار اور چھینا جھپٹی دیکھ کر یقین کر لینے کو جی چاہتا ہے کہ ان کا مذہب ''کھانا اور صرف کھانا ہے'' بعض دفعہ یوں بھی لگتا ہے کہ جیسے یہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری کھانا ہے۔ اسی لیے خواہ ٹائی سالن میں لت پت ہو رہی ہو یا زرتار ملبوسات پر آئس کریم اور فروٹ کسٹرڈ اپنے تجریدی آرٹ کے شاہ کار بنا رہا ہو۔ کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ پھر جو لفافہ دیا ہے اس کی وصولی بھی تو کرنی ہے۔

یہی ان کا حسب نسب ہے اور خاندان کی پہچان ہے، لیکن کیا میزبان جو اتنا خرچ کرتے ہیں وہ اتنی زحمت گوارا نہیں کر سکتے کہ جو کھانا صاف ستھرا پلیٹوں میں بچ گیا ہے۔ جنھیں محض معدے کی آزمائش کے لیے پلیٹوں میں ڈالا گیا تھا۔ اسے جمع کروا کر کسی غریب بستی میں تقسیم کروا دیا جائے یا خوف خدا سے مجبور ہو کر ان بھکاریوں کو دے دیا جائے جو شادی ہالوں کے باہر جمع رہتے ہیں، اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو کسی ادارے کو وہ کھانا دے دیا جائے جو دوسرے دن ضرورت مندوں میں اسے تقسیم کر دیں۔

کچھ عرصہ قبل ''دیوار مہربانی'' کے عنوان سے شہر میں مختلف جگہوں پر استعمال شدہ کپڑوں کے لٹکانے کا کام شروع کیا گیا تھا، جہاں لوگ اپنے غیر ضروری اور زائد کپڑے ہینگروں میں لٹکا جاتے تھے، تا کہ ضرورت مند وہاں سے لے لیں، لیکن افسوس کہ کپڑے رسیوں پہ لٹکانے والے شاید بھول گئے کہ یہ پاکستان ہے، یہاں نمازی جوتے ساتھ رکھتے ہیں کہ کہیں چوری نہ ہو جائیں، لہٰذا دیوار مہربانی پہ ٹنگے کپڑے ''گلاس برنی'' والوں اور بھکاریوں نے اتار کر بیچنا شروع کر دیے۔ ضرورت مند بے چارا چپکا گھر میں پڑا رہا۔

یورپ یا امریکا کا کوئی مہذب ملک ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جہاں خواتین کے پرس چھین لیے جاتے ہوں، گلے سڑے پھل مہنگے داموں خاصی کاری گری سے بیچ دیے جاتے ہوں، جہاں جرائم پیشہ عورتیں دکانوں سے کپڑوں کے تھان باآسانی چوری کر لیتی ہوں، جہاں گھروں کے باہر لٹکے کپڑے چوری کر لیے جاتے ہوں، وہاں یہ توقع رکھنا کہ شہر کی کسی دیوار پہ بندھی رسی پہ لٹکے کپڑے ضرورت مندوں تک پہنچ جائیں گے، ایک معصومانہ لیکن احمقانہ خواہش ہے۔

لوگوں میں دکھاوا حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ فلاں چیز کہاں سے خریدی، میک اپ کہاں سے کرایا، لباس کہاں سے خریدا اور کتنے کا خریدا، دلہن کا جوڑا کتنے ہزار کا ہے، دلہا کی شیروانی اور صافہ فلاں شاپنگ سینٹر کا ہے، ولیمے کے غرارے کا کام کس بوتیک کا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سب صرف ایک دن کے لیے۔ کیا لوگ یہ نہیں کر سکتے کہ دلہن اور دولہا کے عروسی ملبوسات بعد میں کسی ضرورت مند خاندان کو دے دیے جائیں۔

جہاں کپڑوں، میک اپ اور مہندی پر لاکھوں خرچ ہو رہے ہوں، وہاں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ متعلقہ گھرانہ کسی خیراتی ادارے یا کسی این جی او کے توسط سے عروسی ملبوسات کسی گھرانے کو عطیہ کر دے یا پھر کوئی این جی او ایسے تمام ملبوسات مناسب قیمت پہ خرید کر معقول معاوضے پر ان لوگوں کو دیدیں جو اتنے مہنگے ملبوسات خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ بعض کمیونٹی والے یہ کام کر رہے ہیں کہ شادی بیاہ میں پہنے جانے والے آؤٹ آف فیشن یا غیر ضروری ملبوسات کم قیمت پہ خرید کر بیچتے ہیں اور خریدنے والے خوشی خوشی خریدتے بھی ہیں، لیکن یہ سب انتہائی محدود سطح پر ہو رہا ہے۔ اسے پھیلانا چاہیے۔

افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ لوگوں میں نمائشی جذبے کی بہتات کے ساتھ ساتھ بے حسی بہت بڑھ گئی ہے۔ بیشتر گھرانے بچے کھچے کھانوں کو کسی غریب کو دینے کے بجائے سڑنے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ صبح ملازمائیں انھیں کوڑے دان میں ڈال دیتی ہیں۔ رزق کی بے حرمتی جس انداز میں اور جس بے دردی سے پاکستان میں ہوتی ہے اس کا نظارہ آپ کو دوسرے ممالک میں نہیں ملے گا۔ ساتھ ساتھ بے حسی اور سنگدلی میں بھی ہماری قوم (یعنی بھان متی کا کنبہ) سب سے آگے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں