ثمرات سے محروم عوام
پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں جتنی کمی گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران دیکھنے میں آئی ہے،
WASHINGTON:
پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں جتنی کمی گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران دیکھنے میں آئی ہے، گزشتہ بارہ سالوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور امکان غالب ہے کہ مستقبل قریب میں بھی ان کی قیمتوں میں کوئی بڑا اضافہ نہیں ہوگا،کیونکہ امریکا تو پٹرول کے معاملے میں نہ صرف مکمل طور پر خود کفیل ہوچکا ہے بلکہ اس کا شیل گیس پر انحصار بھی مسلسل بڑھتا جارہا ہے جس سے وہاں پٹرول کے استعمال میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
اسی طرح دوسرے مغربی ممالک بھی توانائی کے متبادل ذرایع کو فروغ دینے کے لیے سر توڑکوشش کر رہے ہیں۔ ایران کی جانب سے 5 لاکھ بیرل پٹرول عالمی منڈی میں بھجوانے سے بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی واقع ہوئی اور اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس تناظر میں ایران کی جانب سے تیل کی پیداوار کوکم کرنے کے مطالبات کو جس طرح رد کیا گیا ہے اس سے یہ توقع بالکل بجا معلوم ہوتی ہے کہ آنے والے دنوں میں تیل کے نرخوں میں کسی بڑے اضافے کا کوئی امکان نہیں۔ مگر یہ بات بڑی تعجب خیز رہی کہ تیل کی قیمتوں میں خاص طور پر پچھلے بارہ سے اٹھارہ ماہ کے دوران جو غیر معمولی کمی آئی حکومت نے اس کا پورا فائدہ عوام تک پہنچانے میں بہت ہی کفایت اور جزرسی کا مظاہرہ کیا اور یوں محسوس ہوا کہ ہمارے حکمران عوام کی جیبوں کی قیمت پر نقد رقم حاصل کرنے کا یہ ذریعہ کھونا نہیں چاہتے۔ حیرت اس بات پر بھی اپنی جگہ موجود رہی کہ جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا تو حکومت فوری طور پر یہ اضافہ عوام کی طرف منتقل کرتی رہی۔
بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ، کے مصداق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں غیر معمولی کمی اور اس کے فوائد نچلی سطح پر عام آدمی تک پہنچانے کا اقدام یا اعلان ایسا مستحسن کام ہے جس کا معاشرے کے ہر طبقے میں خیر مقدم کیا گیا ہے اور یہ واقعی پہلا موقع ہے کہ حکومت نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرہ) کی سفارشات من و عن منظور کرتے ہوئے قیمتوں میں اتنی کمی کی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کی۔اس مرتبہ پٹرول کی قیمت میں ساڑھے آٹھ روپے کی کمی کے علاوہ ہائی اسپیڈ ڈیزل، لائٹ ڈیزل اور ہائی آکٹین بھی سستا کردیا گیا ہے تاہم اوگرا نے مٹی کے تیل جو عام آدمی کے استعمال کی چیز ہے اس کی قیمت میں ایک روپے66 پیسے کے اضافے کی جو تجویز تھی وزیر اعظم نے اسے مسترد کردیا۔
وزیر اعظم نے سی این جی کے نرخوں میں بھی 6 سے 7 روپے فی کلو تک کمی کردی جس سے سی این جی پٹرول سے 30 فی صد سستی ہوجائے گی۔ وزیر اعظم نے صوبائی حکومتوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کرانے کی بھی ہدایت کردی ہے (دیکھیں ہماری ٹرانسپورٹ مافیا اس پر عمل بھی کرتی ہے یا ہمیشہ کی طرح پھر اپنے آپ کو بااثر ثابت کرتی ہے)۔کس قدر ڈھٹائی کی بات ہے کہ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی حد درجہ کمی کے باوجود اوگرا نے یکم مئی سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 4 روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کی سمری روانہ کی لیکن وزیر اعظم نے اسے مسترد کردیا۔
اس وقت عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی اوسط قیمت 0.99 ڈالر فی لیٹر ہے لیکن ہر ملک کو عالمی منڈی سے پٹرولیم مصنوعات کی خرید کے بعد اس پر مختلف قسم کے ٹیکس لگانے کی آزادی ہے اس لیے یہ مختلف ممالک میں 1.16 ڈالر فی لیٹر تک فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات پر مختلف قسم کے ٹیکس عائد کیے جانے کے باوجود اس کی فی لیٹر قیمت جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ہے لیکن یہاں چونکہ ٹیکس کا ایک ایسا امتیازی نظام نافذ ہے جس میں بڑے بڑے تاجروں اور صنعتکاروں سے لے کر چھوٹے دکانداروں تک کوئی بھی شخص اپنی جیب سے ٹیکس ادا نہیں کرتا اس لیے جونہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ طبقہ ٹیکس کا سارا بوجھ عوام کی طرف منتقل کردیتا ہے جس سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آجاتا ہے۔
گزشتہ تقریباً ڈیڑھ برس کے عرصے میں عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑی حد تک متوازن رہے ہیں اگر اس دوران سستا تیل خرید کر ذخیرہ کرلیا جاتا تو اس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کا راستہ نکالا جاسکتا تھا لیکن ہماری حکومتیں عمومی طور پر وسیع تر قومی اور عوامی مفاد کے لیے دوررس پلاننگ نہیں کرتیں جس کی وجہ سے انھیں سارا کام ایڈہاک بنیادوں پر کرنا پڑتا ہے۔ اگر ملک میں تیل اور گیس کے دریافت ہونے والے 70 نئے کنوؤں کو آپریشنل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی جائے تو اس سے حکومت مختلف اداروں اور عوام سب کو اپنا سالانہ بجٹ معقول بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ طویل عرصے بعد حکومت نے پہلی بار حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے گیس اور بجلی کے نرخوں میں کمی کی ہے اور پٹرول کے عالمی سطح پر سستے ہونے کے ثمرات عوام تک پہنچانے کی ٹھانی ہے لیکن یہ زبانی دعوؤں کی بجائے عملی اقدامات کی صورت میں سب کے سامنے آنے ضروری ہیں کیونکہ آج وطن عزیز میں مہنگائی، غربت اور افلاس کا جو ہوش ربا بلند سے بلند تر ہوتا گراف ہے وہ انتہائی تکلیف دہ بھی ہے اور غور طلب وفکر انگیز بھی ہے۔ اس لیے ہماری سپریم کورٹ نے ارباب اختیار سے یہ استفسارکیا ہے کہ جو شخص دو وقت کی روٹی کما کر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا وہ مہنگی ادویات کیسے خرید سکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے مزید یہ بھی پوچھا ہے کہ جو ریاست اپنے عوام کو تعلیم اور صحت جیسی سہولتیں فراہم نہ کرسکے کیا اس کے باقی رہنے کا کوئی جواز موجود رہتا ہے؟
کسے نہیں معلوم کون نہیں جانتا کہ دنیا کے ہر مہذب ملک میں عوام کو تعلیم، صحت، پینے کا پانی اور دیگر بنیادی انسانی سہولتیں پورے اہتمام و انتظام کے ساتھ فراہم کی جاتی ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کے تساہل یا غفلت اور کوتاہی کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ ''آئین پاکستان'' میں بھی ریاست کی یہ ذمے داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لیے ان ضروریات کی فراہمی کا بندوبست کرے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس حوالے سے موجودہ حکومت سمیت ہماری کسی بھی حکومت کا کردار قابل رشک نہیں اور ان کی ترجیحات میں عوام کو تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولتیں ان کی دہلیز پر فراہم کرنے کا نمبر بہت دیر سے آتا ہے۔
تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان میں طویل عرصے تک روزمرہ استعمال کے نرخوں کو اعتدال میں رکھا گیا لیکن پھر روز مرہ استعمال میں آنے والی اشیا کے نرخوں کے تعین کا پیمانہ بدل گیا اور پہلے جو حیثیت گندم کو حاصل تھی وہ اب کافی حد تک پٹرول نے لے لی ہے اب جب کہ پٹرولیم مصنوعات اور سی این جی گیس کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی آگئی ہے تو پھر بھی عوام کے روزانہ استعمال میں آنے والی اشیا خاص طور پر ''غذائی اجناس'' کے نرخوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ گھی اور کھانے کے تیل پر حکومت نے 3 سے 6 روپے تک کا اضافہ کردیا ہے۔ ہر بڑا چھوٹا دکاندار اپنی مرضی سے چیزوں کے دام بڑھاتا چلا جا رہا ہے اور اس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس اور کنٹرول کا کوئی قاعدہ موجود نہیں ہے۔ یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں ''فوڈ باسکٹ'' کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور روز مرہ استعمال میں آنے والی چیزوں کے نرخوں کو بڑھنے نہیں دیا جاتا۔
افلاطون نے کہا تھا کہ طبیب کی غلطی تو ایک یا دو انسان مارتی ہے، مگر حکمران کی غلطی پوری قوم کو مار دیتی ہے۔ ہمارا یقین واثق ہے کہ ہمارے حکمران پوری قوم کو رعایا ہی رہنے دیں گے انھیں مرحوم و مغفور ہرگز نہیں کریں گے۔