سرمایہ داری کا اصل روپ

اکثرلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری کی اصل خرابی کرپشن، اسلحہ سازی، منشیات فروشی، بے ایمانی اورفراڈ وغیرہ ہیں


Zuber Rehman May 08, 2016
[email protected]

اکثرلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری کی اصل خرابی کرپشن، اسلحہ سازی، منشیات فروشی، بے ایمانی اورفراڈ وغیرہ ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ سب کچھ سرمایہ داری کی برائی نہیں بلکہ یہ سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اصل برائی سرمایہ داری میں دولت کا چند ہاتھوں میں مرکوزہونا اوردوسری جانب افلاس زدہ عوام کا ہجوم ۔ جب اربوں لوگ بے روزگار، بے گھر، لاعلاج اورجاہل ہوںگے تو وہ یقیناً زندہ رہنے کے لیے چوری، ڈکیتی، چھیناجھپٹی، منشیات نوشی اورخودکشی جیسی سماجی برائیوں کی جانب رجوع ہوتے رہیںگے۔

پانامہ پیپرز سمندرکا ایک قطرہ ہے۔جنوبی امریکا کا ایک چھوٹا ساملک پانامہ میں' پانامہ پیپرز' نے ایک ' موسیک فونسیکا' نامی کمپنی کا انکشاف کیا ہے۔ایسے دنیا میں ساٹھ ممالک ہیں جہاں سیکڑوںکمپنیاں ٹیکس بچانے کی جنت کے طور پر دولت چھپاتی ہیں ۔کسی زمانے میں یہ کام بادشاہ سمیت دولت مند دیواروں اور زمین کے اندر سونا،چاندی اور سکے دفناتے تھے۔

پانامہ پیپرز میں جوکچھ انکشاف کیا ہے اس میں کلیدی کردار ''بین الاقوامی انجمن برائے تفتیشی صحافت '' نے ادا کیا ہے۔ اس نے کل ایک کروڑ نوے لاکھ ریکارڈ بے نقاب کیا ہے۔ جن حکمرانوں کے براہ راست نام آئے ہیں، ان میں ارجینٹینا کے صدر ماریسیومیکری، آئس لینڈ کے وزیراعظم ڈاولوگیلا گسن، یوکرائن کے صدرپیٹرویورو شینکواورکرغستان کے وزیراعظم سمیت بارہ سربراہان مملکت شامل ہیں ۔ پامانہ کی اس کمپنی کے ساتھ ایک سو چالیس کمپنیاں مزید منسلک ہیں ۔ جن ممالک میں یہ کمپنیاں کام کرتی ہیں، ان میں سرفہرست ویسٹ انڈیز، سوئٹزرلینڈ اورکیریبین ممالک شامل ہیں۔

ان میں ٹیکس نیٹ ورک کی رپورٹ اہم ہے جس کے مطابق دنیا بھر سے لوٹ کرآف شور بینکوں (در پردہ بینکوں ) میں چھپائی گئی دولت کا حجم بتیس ہزارارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ امریکا اورجاپان کی کل جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔اس ادارے کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیاں اورسرمایہ دار ہر سال تین اعشاریہ ایک ہزار ڈالرکا صرف ٹیکس چوری کرتے ہیں۔گلوبل فنانشل انیگزیٹی کے مطابق ایک ہزار ارب ڈالر ہر سال پسماندہ ممالک سے نچوڑ کر امیر ممالک اور آف شور بینکوں میں منتقل کیے جاتے ہیں ۔

اس لو ٹ مارکے نتیجے میں ایک فیصد افراد باقی ننانوے فیصد آبادی کی مجموعی پونجی سے زیادہ دولت کے مالک بن چکے ہیں،اس لیے 'وال اسٹریٹ قبضہ تحریک ' کا بنیادی نعرہ ہم ننانوے فیصد ہیں، جس کی انارکسٹوں نے رہنمائی کی تھی اوردنیا بھرمیں ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی تھی ۔ یہ تو رہی ایک ملک کی ایک کمپنی جو 9 مئی 2016کو مزید اہم انکشافات کرنے جارہی ہے، جس میں پاکستان کے چار سو افراد کے نام منظرعام پرآئیں گے۔

ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پا کستان میں ہر چھوٹے کام میں بھی رشوت دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ شناختی کارڈ بنوانے،گم ہو نے کی رپورٹ کروانے،گا ڑی اٹھانے، سرٹیفکٹ نکلوانے، پھرنوکری پہ بھرتی ہونے یعنی ہرکام میں رشوت دینا لازم ملزوم بن گیا ہے ۔ میرا اپنا ایک چیک بونس ہونے پر جب تھانے میں ایف آئی آرکٹوانے گیا تو وہ تاحال تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں اورمسئلہ جوں کا توں ہے۔

دنیا میں بیس برس قبل پانچ سو امیر ترین افراد تھے اوراب صرف باسٹھ افراد دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں، تین امیر ترین لوگ اڑھتالیس غریب ملکوں کو خریدسکتے ہیں۔دنیا کے دس بڑے سرمایہ داروں میں سے سات امریکا کے ہیں۔ امریکا کی صنعتی پیداوارکا سترٖفیصد اسلحے کی پیداوار ہے۔ کھربوں ڈالرکا منشیات اورکاسمیٹک کا کاروبارہوتا ہے ، جب کہ پاکستان میں اسی فیصد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ ہمارے عوام کے خدمتگار (حکمران طبقات) باہرکا پانی پیتے ہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی ارب پتی ملک میں علاج نہیں کرواتا اور نہ اس کے بچے ملک میں پڑھتے ہیں۔ بیس ہزارکے پی ٹی مزدور ملازمت سے نکالے جانے والے ہیں۔

پچیس ہزار پی ٹی سی ایل سے اور تقریبا اتنے ہی کے الیکٹرک سے نکالے جاچکے ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، واپڈاَ، اسٹیٹ لا ئف ، پی ایس اواور اسٹیل مل سے نکالے جانے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔ دوسری جانب غیرپیداواری اخراجات میں کھربوں ڈالرملک کے اندر اور ملک کے باہر محنت کشوں کا استحصال کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ جب اس دنیا میں ایک شخص صرف ایک روزمیں اپنے پر دس ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے تو دوسری طرٖٖف پاکستان میں 6 کروڑ افراد روزانہ دو ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔اس صورتحال میں جب لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرنے لگیں گے تو یقینا وہ چوری، ڈکیتی، چھینا جھپٹی، لوٹ مار، قتل وغارت گری، خودکشی، منشیات نوشی، عصمت فروشی اورگدا گری کرنے میں ملوث ہوں گے۔

یقینا یہ سماج کے ناسور ہیں لیکن انھیں کس نے پیدا کیا؟ اسی سماج نے، یہاں سرمایہ داروں،جاگیرداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں، علماء سو اور جنگ وجدل کرنے والوں نے۔ ان برائیوں کو ختم کرنے کے لیے صرف مجرموں کو قتل کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس ملک میں کارخانوں کے جال بچھانے پڑیں گے اور زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کرنی ہوگی۔ ملٹی نیشنل اور آئی ایم ایف کے قرضوں کو ضبط کرنے ہوں گے، تب جاکر ایک حد تک مسائل اور معاشرے میں خلفشار اور انتشارکا خاتمہ ہوگا، ورنہ یہ آگ بجھانے کے بجائے مزید بھڑکے گی یا پھر محنت کشوں کا انقلاب مسائل کو حل کرسکتا ہے ۔ ہرچندکہ مسائل کا واحد حل ایک امداد باہمی کا آ زاد معاشرہ ہی میں مضمر ہے ۔ جہاں کوئی طبقہ نہ ہوگا، ساری دنیا سارے لوگوں کی ہوگی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔