صرف ایک قطرہ پانی

آگ کا میدان بھڑکا دیا گیا تھا۔ دہکتے سرخ شعلے پھڑپھڑاہٹ کی خوفناک آوازکے ساتھ آسمان سے باتیں کررہے تھے

naeemshah802@gmail.com

آگ کا میدان بھڑکا دیا گیا تھا۔ دہکتے سرخ شعلے پھڑپھڑاہٹ کی خوفناک آوازکے ساتھ آسمان سے باتیں کررہے تھے ۔آگ کے گرد جمع لوگوں کا ہجوم کبھی اس جوش مارتی آگ کو اورکبھی قریب ہی رسیوں سے بندھے اس نوجوان کو دیکھتا جو جلادوں کی گرفت میں تھا۔ جلادوں کی نگاہیں تخت پر براجمان ظالم بادشاہ کے ایک اشارے کی منتظر تھیں۔بادشاہ اس نوجوان سے آخری بار مخاطب ہوا ''ہمارے خداؤں کو مسمارکرنے والے اپنے گناہ کی معافی مانگ اور ان کی مخالفت چھوڑدے، ورنہ اس آگ میں راکھ ہونے کے لیے تیار ہوجا۔''

نوجوان نے دہکتی آگ کو، پھر بادشاہ کو دیکھا اور مضبوط لہجے میں بولا ''تمھارے اپنے ہاتھوں سے تراشے یہ بت خدا نہیں پتھر ہیں، تمھارا میرا سب کا رب صرف ایک 'اللہ' ہے جوکُل کائنات کا خالق ومختار ہے'' بادشاہ غصے سے تلملا اٹھا اور بولا ''تو پھر بلا لے اپنے اللہ کو، تجھے اس آگ سے بچا سکتا ہے تو بچالے'' اس نے غصے سے اشارہ کیا اور اس نوجوان کو ایک بڑے سے غلیل نما جھولے میں ڈال کر زور سے بھڑکتی ہوئی آگ کی جانب ہوا میں اچھال دیا گیا۔

ہوا میں معلق، تیزی سے آگ کی جانب بڑھتا ہوا یہ نوجوان حضرت ابراہیم ؑ تھے اور وہ بادشاہ نمرود۔ کچھ ہی فاصلے پر چڑیا کا ایک جوڑادرخت پر بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس میں سے ایک چڑیا پریشانی کے عالم میں بارباراڑکرجاتی اور قریب ہی واقع کنوئیں سے ایک قطرہ پانی اپنی چونچ میں لاکر اس آگ میں ڈالتی۔ دوسری چڑیا نے اسے یہ عمل کرتے دیکھ کر حیرت سے پوچھا وہ کیا کررہی ہے؟ اس نے جواب دیا '' اللہ کے نبی ؑکی مدد، اس آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔'' چڑیا حیرت سے بولی ''تیری حیثیت ، تیرا وجود ہی کتنا ہے، تیری ذرا سی چونچ میں سمانے والا چھوٹا سا پانی کا قطرہ کیا اس آگ کے پہاڑ کو بجھا دے گا؟''

نبی ؑ کی محبت کے جذبے سے سرشار وہ چڑیا بولی ''یہ اختیاراللہ کا ہے، میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ مجھے اللہ کے نبی کی مدد کرنی ہے۔مجھ سے جو بھی بن پڑا میں اس آگ کو بجھانے کے لیے کروں گی۔ میری طاقت صرف ایک بوند پانی لانے کی ہے،میں ممکن ناممکن کی پرواہ کیے بغیروہ ایک قطرہ اس میں ڈالتی رہوںگی جب تک کہ یہ آگ بجھ نہ جائے۔''

ادھر ہوا میں اڑتے ابراہیم ؑ تیزی سے خوفناک آگ کی جانب جارہے تھے۔ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کی مددکریں۔ فرشتے آئے اور آگ میں گرتے ابراہیم ؑ سے پوچھا انھیں کسی مدد کی ضرورت ہے؟ ابراہیم ؑ نے ان کی جانب دیکھااور جواب دیا ''ہاں ، مگر تم سے نہیں، جس نے تمھیں بھیجا ہے اس سے''، فرشتے لوٹ گئے۔اللہ کواپنے خلیل پر پیار آیا اورآگ کو حکم دیا '' اے آگ ،ابراہیم ؑ پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوجا'' لہٰذا آگ تپش برقرار رکھتے ہوئے صرف ابراہیم ؑکی ذات کے لیے ٹھنڈی ہوئی جب کہ ان کے ہاتھوں پر بندھی رسی تک اس سے جل کر خاکستر ہو گئی اور وہ صحیح سلامت چلتے آگ سے باہر نکل آئے۔ نمرود اور اس کی قوم کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔


میں اکثر سوچتا ہوں کہ شاید یہ اس چڑیا کی دیوانگی اور نبی ؑ کی ذات سے سچی عقیدت و محبت سے ڈالے اس ایک قطرے کی تاثیر تھی کہ جس کے سبب اللہ نے اس آگ کو ٹھنڈا کر دیا۔ بظاہر ایک چھوٹا سا عمل خدا کی بارگاہ میں کیا قدرومنزلت رکھتا ہے ہم نہیں جانتے۔ ہماری اوراللہ کی نگاہ میں چھوٹے بڑے عمل کی تعریف مختلف ہوتی ہے۔ حق و مظلوم کی مدد کے جذبے سے انجام دیا گیا چھوٹا سا عمل بھی خدا کے ہاں کیا فضیلت رکھتا ہے، ہمیں اس کا ادراک نہیں ۔ حق کی حمایت میں اپنے کسی عمل کو خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، حقیر جان کر انجام نہ دینا حقدار کے ساتھ ظلم اورظالم کی مدد کرنا ہے ۔ اس چڑیا سے ہمیں کم از کم اتنا سبق ضرور ملتا ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق سچ کا ساتھ دینے سے ہرگزگریز نہ کریں،کون جانے ہمارا کونسا عمل اللہ کے ہاں مقبولیت پا جائے اور ہمارا نصیب اور زندگی پلٹا کھا جائیں۔خدا ہمارے عمل کی کثرت یا جسامت نہیں، اس میں پائی جانے والی گہرائی اور روحانی شدت دیکھتا ہے۔

حضرت موسٰی ؑ فرعون سے نجات دلانے کے لیے بنی اسرائیل کو لے کر نکلے، فرعون بھی فوج کے ہمراہ ان کے تعاقب میں نکلا۔یہاں تک کہ موسٰی ؑ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس مقام تک آ پہنچے کہ جہاں آگے سمندر تھا،کوئی اور راستہ نہ تھا۔ موسٰی ؑ کے ساتھیوں نے جب یہ دیکھا کہ وہ پھنس چکے ہیں تو ان میں سے کچھ گھبرا کر بول اٹھے '' اے موسٰی ؑ ، تُو نے ہمیں مروا دیا، آگے سمندر ہے اور پیچھے ہماری موت ۔''موسٰی ؑ بولے ''گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے ، وہ ضرور ہمیں کوئی راہ دکھائے گا۔ '' مگرموت کا خوف ان پرچھاگیا، قافلے میں کھلبلی مچنے لگی۔ اللہ کا حکم ہوا کہ '' اے موسٰی ؑ اپنا عصاء سمندر پر مارو ''۔ جوں ہی انھوں نے ایسا کیا سمندر پھٹا، درمیان میں سے راستہ بنا اور موسٰی ؑ اپنے ساتھیوں سمیت اس میں سے گزرکر دوسری جانب خشکی پر جا اترے۔

جب فرعون اپنی فوج کے ساتھ اسی راستے پر اترا ،درمیان تک پہنچا تو پانی کے وہ پہاڑ دوبارہ مل گئے اوروہ اپنے جاہ و جلال سمیت اس میں غرق ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ موسٰی ؑ کے رب پر ایمان لانے والوں میں سے جنھوں نے یہ کہا تھا کہ' موسٰی ؑ نے ہمیں مروادیا 'کیا انھیں موسٰی ؑ کے نبی ہونے پر شک تھا،کیا وہ ان کے دکھائے معجزے پہلے اپنی آنکھو ں سے دیکھ نہ چکے تھے؟ یقیناً دیکھ چکے تھے ، انھیں ان کی نبوت و حقانیت کا بھی یقین تھا ، مگر انھیں اپنا مفاد اللہ کے نبی ؑ سے زیادہ عزیز تھا،ان میں لالچ اور حرص تھی ۔ وہ موسٰی ؑ کے رب پر ایمان لانے سے زیادہ فرعون کے مظالم سے نجات کی خاطر ان کے قافلے میں شامل ہوئے تھے، لیکن جوں ہی انھیں اپنی زندگی، اپنا مفاد خطرے میں پڑتا محسوس ہوا وہ اسی نبی ؑ پر انگلی اٹھانے لگے جو ان کی دنیاوآخرت سنوارنے کے لیے تکلیفیں جھیل اور قربانیاں دے رہا تھا۔

انسان حضرت موسٰی ؑ کے زمانے کا ہو یا2016 کا اس کے باطن میں ہمیشہ نیکی و بدی کی جنگ جاری رہتی ہے۔ غورکیا جائے تو آج بھی انسان ،خود ہم مسلمان بنی اسرائیل جیسے ہی ہیں، جو اللہ سے زیادہ اپنے مفاد پر ایمان رکھتے ہیں، وہی ہماری زندگی کا محور ہوتا ہے۔جہاں حق اور مفاد میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ آتا ہے ، ہم فوراً اپنے مفاد کے پلڑے میں جا گرتے ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ۔ حق کا ساتھ دینے کا ، یا باطل و جھوٹ سے معاملات طے کرکے ذاتی مفادات حاصل کرلینے کا ۔ بدقسمتی سے اکثریت آج بھی دوسرے، مفاد پرستی کے راستے کے انتخاب کو ترجیح دیتی ہے ۔یہی المیہ آج ہمارے نام نہاد دانشوروں، سیاستدانوں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔

کیا یہ نہیں جانتے کہ سچ کیا ہے،کون ملک کی ترقی اورکون تباہی اورذاتی مفاد کا کھیل کھیل رہا ہے ؟ یقیناً جانتے ہیں ۔ توکیا یہ حقدارکا، اپنی مٹی کا حق ادا کر رہے ہیں؟ اس چڑیا کی طرح اپنی طاقت کے مطابق آج کے نمرود کی بھڑکائی مایوسی، جھوٹ اورضمیر فروشی کی آگ بجھانے کے لیے اپنے حصے کا قطرہ ڈالنے کا کرشماتی عمل انجام دے رہے ہیں؟ یا پھر بنی اسرائیل کے حرص و لالچ زدہ اس ٹولے کی طرح حق کو پہچاننے کے باوجود صرف اپنے ذاتی مفاد کی ہوس میں اندھے، اپنی روح اور ضمیرکا گلا گھونٹ کر باطل کی حمایت اور حقدار پر انگلیاں اٹھانے کے عمل میں مصروف ہیں؟
Load Next Story