1 سال میں 100 ارب روپے کی سرمایہ کاری ضرب عضب سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں گھن گرج
سال 2007 میں دبئی کے ریئل اسٹیٹ بزنس میں کراچی سے جانے والے سرمایہ کاروں نے اب دوبارہ کراچی کا رخ کر لیا ہے، ذرائع
ISLAMABAD:
سرمایہ کاری کے لحاظ سے کراچی کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ نے دبئی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری کے بعد کراچی کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ خطے کی سب سے پرکشش مارکیٹ بن چکی ہے جس میں 1سال کے عرصے میں 1کھرب (100ارب) روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جبکہ مستقبل میں مزیدکھربوں روپے مالیت کے سرمایہ کاری منصوبے شروع ہونے والے ہیں۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے باخبرذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ سال 2007 میں دبئی کے ریئل اسٹیٹ بزنس میں کراچی سے جانے والے سرمایہ کاروں نے اب دوبارہ کراچی کا رخ کر لیا ہے، منظم تعمیراتی شعبہ پاکستان میں صرف 15 ہزار رہائشی یونٹس تیار کر رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں5 لاکھ یونٹس کا ڈیڈلاک برقرار ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں سالانہ 1 لاکھ سے زائد یونٹس کی طلب موجود ہے جو شعبے میں سرمایہ کاری کی وسیع گنجائش کی عکاسی ہے، دبئی کی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں گزشتہ 3 سال سے پاکستانیوں کی سرمایہ کاری رک گئی ہے کیونکہ سال 2008 کے بحران سے متاثرہ پاکستانی سرمایہ کارنہ صرف وہاں قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہیں بلکہ تاحال تصفیوں میں مصروف ہیں۔
مقامی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کودبئی کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کی غرض سے پاکستانیوں کی دبئی میں بلحاظ سرمایہ کاری تیسرے نمبر کی تشہیر کی جاتی ہے جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ اس ضمن میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین سدرن زون آصف سم سم نے ''ایکسپریس'' کے استفسار پربتایا کہ درحقیقت دبئی کا ریئل اسٹیٹ بزنس سال2010 سے زوال پزیری کا شکار ہے تاہم پاکستان میں گزشتہ 2 سال سے قانون نافذکرنے والے اداروں کی انتھک محنت اور قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والے امن کی وجہ سے مقامی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری دبئی سے زیادہ پرکشش ہوگئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آباد کے متعلقہ شکایتی سیل کے پاس اب بھتہ خوری یا اغوابرائے تاوان کی کوئی شکایت موصول نہیں ہورہی البتہ گزشتہ 3 ماہ سے منظم طریقوں سے اراضیوں پر قبضوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے، 2سالہ وقفے کے بعد قبضوں کا یہ سلسلہ فی الوقت ابتدائی مرحلے میں ہے جس پر منظم حکمت عملی کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ اراضیوں پر قبضے کرنے والا مافیا ہی دہشت گردوں کا سہولت کار بنتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی منظم تعمیراتی شعبہ کراچی کو دبئی سے زیادہ خوبصورت اور ترقی یافتہ شہر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے لیے حکومت اور پالیسی سازوں کو دبئی کی طرز پر ہی پالیسیاں متعارف کرانی پڑیں گی اور انفرااسٹرکچر کی عدم دستیابی کا جواز پیدا کرنے سے گریز کرنا پڑے گا۔
سرمایہ کاری کے لحاظ سے کراچی کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ نے دبئی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری کے بعد کراچی کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ خطے کی سب سے پرکشش مارکیٹ بن چکی ہے جس میں 1سال کے عرصے میں 1کھرب (100ارب) روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جبکہ مستقبل میں مزیدکھربوں روپے مالیت کے سرمایہ کاری منصوبے شروع ہونے والے ہیں۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے باخبرذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ سال 2007 میں دبئی کے ریئل اسٹیٹ بزنس میں کراچی سے جانے والے سرمایہ کاروں نے اب دوبارہ کراچی کا رخ کر لیا ہے، منظم تعمیراتی شعبہ پاکستان میں صرف 15 ہزار رہائشی یونٹس تیار کر رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں5 لاکھ یونٹس کا ڈیڈلاک برقرار ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں سالانہ 1 لاکھ سے زائد یونٹس کی طلب موجود ہے جو شعبے میں سرمایہ کاری کی وسیع گنجائش کی عکاسی ہے، دبئی کی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں گزشتہ 3 سال سے پاکستانیوں کی سرمایہ کاری رک گئی ہے کیونکہ سال 2008 کے بحران سے متاثرہ پاکستانی سرمایہ کارنہ صرف وہاں قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہیں بلکہ تاحال تصفیوں میں مصروف ہیں۔
مقامی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کودبئی کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کی غرض سے پاکستانیوں کی دبئی میں بلحاظ سرمایہ کاری تیسرے نمبر کی تشہیر کی جاتی ہے جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ اس ضمن میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین سدرن زون آصف سم سم نے ''ایکسپریس'' کے استفسار پربتایا کہ درحقیقت دبئی کا ریئل اسٹیٹ بزنس سال2010 سے زوال پزیری کا شکار ہے تاہم پاکستان میں گزشتہ 2 سال سے قانون نافذکرنے والے اداروں کی انتھک محنت اور قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والے امن کی وجہ سے مقامی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری دبئی سے زیادہ پرکشش ہوگئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آباد کے متعلقہ شکایتی سیل کے پاس اب بھتہ خوری یا اغوابرائے تاوان کی کوئی شکایت موصول نہیں ہورہی البتہ گزشتہ 3 ماہ سے منظم طریقوں سے اراضیوں پر قبضوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے، 2سالہ وقفے کے بعد قبضوں کا یہ سلسلہ فی الوقت ابتدائی مرحلے میں ہے جس پر منظم حکمت عملی کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ اراضیوں پر قبضے کرنے والا مافیا ہی دہشت گردوں کا سہولت کار بنتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی منظم تعمیراتی شعبہ کراچی کو دبئی سے زیادہ خوبصورت اور ترقی یافتہ شہر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے لیے حکومت اور پالیسی سازوں کو دبئی کی طرز پر ہی پالیسیاں متعارف کرانی پڑیں گی اور انفرااسٹرکچر کی عدم دستیابی کا جواز پیدا کرنے سے گریز کرنا پڑے گا۔