’’بس میرے بچے خوش رہیں۔۔۔‘‘

اولڈ ہوم چھوڑ جانے والے بچے اپنے نمبر بدل لیتے ہیں، صرف ماں کی میت لینے آتے ہیں

بے گھر کردینے والی اولاد سے محبت کے سہارے جیتی ماؤں سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

یہ ایک ایسے عجیب وغریب رشتے کا قصہ ہے، کہ اس کو آپ جس قدر بیان کرتے چلے جائیں۔۔۔ تشنگی باقی رہے گی، ہر بار اس کے کچھ نئے پہلو اور نئے انداز سامنے آتے چلے جائیں گے۔

یہ ہستی، اپنے وجود سے جسے گویا زندگی دے، سینچے، پالے پوسے اور پروان چڑھائے۔۔۔ جس کی خطا بھی اسے ادا لگے، یعنی اس کی اپنی اولاد۔۔۔ سوچیے تو حیرانی ہوتی ہے کہ اولاد کی بے اعتنائی پر کسی ماں کے کلیجے پر کس قدر کاری گھاؤ لگتا ہوگا۔۔۔ اس کی کم سنی میں دیکھے اس کی خوش حالی کے سپنے کس قدر بے رحمی سے چکنا چور ہو جاتے ہوں گے۔۔۔ اولاد کے نظریں پھیرنے پر وہ کس قدر گریہ کرتی ہوگی، مگر ماں کا ایک کردار یہ بھی ہے کہ وہ خود چاہے اپنی اولاد کو جو چاہے کہہ لیں، جوں ہی کوئی دوسرا تنقید کرنے لگے، تو اسے برا لگنے لگتا ہے۔

گزشتہ دنوں اولاد کی جانب سے بے گھر کر دی جانے والی کچھ ماؤں سے گفتگو ہوئی تو واضح طور پر محسوس کیا کہ اب مائیں اولاد کے ہجر کی وجوہات سے یوں استدلال کر رہی ہیں، جیسے انہیں اس دوری کا کوئی دکھ نہ ہو۔۔۔ ماں اور اولاد کے درمیان کوئی بھی وجہ فاصلے کی صورت میں حائل ہو جائے، اور ماں اس سے بے پروا رہے، یہ بات تو انسانیت کیا اس کے فطری جذبات کے ہی خلاف ہے۔

اولاد جب جوان ہو جائے، تو اس برگزیدہ ہستی کی بیماری اور خدمت اسے بوجھ لگنے لگتی ہے۔ اولاد نرینہ سے محروم مائیں، بیٹا نہ ہونے میں اس کا جواز تلاشتی ہیں، تو دوسری طرف بیٹوں کی مائیں، اپنی بہووں سے 'برداشت' نہیں ہوتیں۔ ڈنکے کی چوٹ پر جب ماں یا بیوی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے، تو بہت آسانی سے ماں کی نفی کر دی جاتی ہے۔ خدانخواستہ اگر ضعیفی کی بنا پر بول وبراز قابو میں نہ رہے، تو گویا ان کے 'صبر' کا پیمانہ چھلک جاتا ہے۔ بیٹے کہتے ہیںکہ ہم تو گھر پر نہیں ہوتے، اپنی ماں کا کس طرح خیال رکھیں، بہو کرنا نہیں چاہتی، یوں بیٹے ہوں یا بیٹی، دونوں طرح کی مائیں اولاد کے گھروں سے بے دخل کی جا رہی ہیں۔ بہت سے بچے بیرون ملک اپنی زندگیوں میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ ماؤں کے دنیا سے جانے کے بعد ان کی تجہیز وتکفین کے امور بھی دوسرے رشتے دار انجام دیتے ہیں۔

جن کے بچے ملک میں ہوں، تو ماں کی آنکھ بند ہوتی ہے، میت کی وصولی کے لیے سب سے پہلے اولڈ ہاؤس پہنچنے کا 'مقابلہ' ہوتا ہے، کیوں کہ اس موقعے پر گھر میں تمام رشتے دار جمع ہوتے ہیں، ماں کی میت جس گھر میں ہوگی، تو اسی کا 'نام' ہوگا، ورنہ عزیز واقارب میں 'بدنامی' ہو جائے گی۔ ان بے گھر کی جانے والی ماؤں کی میزبان اور بنت فاطمہ اولڈ ہوم کی سربراہ فرزانہ شعیب کہتی ہیں، سماج میں ماؤں کے لیے بے حسی بڑھی جا رہی ہے۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ یہاں اپنی ماؤں کو چھوڑ کر بالکل غائب ہو جاتے ہیں۔ اپنے نمبر بدل لیتے ہیں کہ کہیں ہم ان کی ماں کے کسی مسئلے کے لیے فون نہ کر دیں۔

ایک طرف اولاد کی بڑھتی ہوئی بے حسی ہے، تو دوسری طرف بہت سی مائیں شاید تنہائی میں اپنے آپ سے شکوہ کرتی ہوں، کسی وقت پلکیں چھلک جاتی ہوں، یا شاید اب ان کے آنسو ان کے اندر ہی گرتے ہوں، مگر لب پر اس کا اظہار نہیں کرتیں۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ شاید شکوہ کرنا بھی ان کے بلند مرتبے کے شایان شان نہیں!

بٹوارے سے قبل ہندوستانی شہر دھرہ دون (جھاڑکھنڈ) کے ایک صاحب ثروت گھرانے میں پلنے بڑھنے والی ایک ماں اولڈ ہوم میں ''ممی'' کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے برطانوی راج میں اعلیٰ انگریزی اسکول میں تعلیم پائی۔ فسادات کے زمانوں میں ان کے خاندان نے حالات کے ستائے اور مصیبت کے ماروں کی بہت مدد کی اور پھر ڈھاکا آگئے۔ ان کے مرحوم شوہر پٹ سن کی ایک مشہور مل کے مینجر تھے۔

1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پھر ہجرت درپیش ہوئی اور ان کا خاندان کراچی آگیا، تقریباً چار سال سے اولڈ ہوم کے در ودیوار ان کا مقدر ہیں۔ انہیں یہاں چھوڑ جانے والا بیٹا کچھ دن بعد ایک سڑک حادثے کی نذر ہو گیا۔

ان سے سلسلۂ کلام شروع ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی ممتا بھری حلاوت کا کوئی بہت بڑا سا در کھل گیا ہو۔۔۔ جب وہ بولتی تھیں تو ان کی چمکتی ہوئی آنکھیں بھی کلام کرتی تھیں، بولتیں تو زبان سے سے گویا ممتا کا ایسا مینہ برستا کہ مخاطب کا ان کے قدموں سے اٹھنے کا جی ہی نہ چاہے۔ سلام کیا تو ہاتھ میں تسبیح لیے بیٹھی 'ممی' نے جی کھول کر دعائیں دیں۔۔۔ خیال آیا کہ اُن کے تین بچے کس قدر بد نصیب ہیں کہ اپنے آنگن سے اس سایہ دار اور اتنے گھنے پیڑ کو پرے کر کے امریکا میں جا بسے، اور دنیا کی اس عظیم ترین ہستی کی آغوش اور ان کی قیمتی دعاؤں سے محروم ہو گئے۔۔۔ اس انتہا کے باوجود وہ اولاد کے رویے پر شاکی ہونے کے بہ جائے، اُن کے اس انتہائی قدم کی بھی صفائی دیتی ہوئی نظر آئیں!


''کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کی خواہش نہیں رکھتیں؟'' اس سوال کے جواب میں 'ممی' ناں نہ کہہ سکیں، لیکن اولاد سے دوری کی شکایت پھر بھی زبان پر نہ لائیں اور اُن کی ''مصروفیت'' کا ذکر کرتے ہوئے کہتی رہیں کہ سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں، اپنی زندگیوںاور کاموں میں مصروف ہیں۔ اب وہ مجھے لے کر تو نہیں بیٹھے رہیںگے۔ وہ مجھے امریکا بلاتے ہیں، مگر میں اس عمر میں لمبا سفر نہیں کر سکتی۔

بچوں کے نہ ملنے آنے پر عذر بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دیکھیے، اب وہ کب آتے ہیں، انہیں کب وقت ملے گا، جب چھٹی ملے گی، تو ملنے آجائیں گے، امریکا سے یہاں آنا کوئی آسان تو نہیںِ، بہت پیسے لگتے ہیں۔ بچوں سے براہ راست شکایت نہ کرنے والی ماں بغیر کسی دکھ کے ہنستے ہنستے اندر کا روگ یوں کہہ جاتی ہیں کہ ''بس اب اللہ یہیں کھانے کو دے اور یہیں مار دے!''

ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی شبنم (فرضی نام) کو ایک ماہ قبل چھوٹی بہن اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر گئی۔ انہوں نے 'ایکسپریس' کو بتایا کہ شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، ایک بیٹی ہے، جس کی شادی ہو چکی ہے۔ اُس کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ شبنم کے جوڑوں میں درد رہتا ہے، کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے۔ ان کی بیٹی کی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی شوہر کا انتقال ہوگیا، وہ بڑھئی کے پیشے سے وابستہ تھے، کرائے کے گھر میں گزر بسر ہو جاتی تھی۔ شوہر کی وفات کے بعد گھر نہ رہا، تو بیٹی کے ہاں منتقل ہوگئیں، پھر بہن اور خالہ زاد بھائی کے گھر میں رہیں۔

شبنم بھی اولاد کے رویے پر بیٹی سے کوئی شکوہ نہیں کرتیں، بلکہ داماد کو قصور وار قرار دیتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ بیٹی کا گھر تو پرایا ہوتا ہے۔ اپنا بیٹا ہوتا تو وہ مجھے گھر کی دہلیز سے بھی باہر نہیں نکلنے دیتا۔ بیٹے کی کمی بہت محسوس ہو رہی ہے۔ جیسے بھی حالات ہوتے بیٹا کبھی اپنی ماں کو بے گھر نہ کرتا۔ شبنم بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں، لیکن کسی بھائی کے گھر میں سر چھپانے کو جگہ نہ مل سکی۔ ان کی والدہ حیات ہیں، جو ایبٹ آباد میں رہتی ہیں۔

ایک ماہ قبل اولڈ ہوم آنے والی شبنم سے جب یہ پوچھا گیا کہ بیٹی ملنے نہیں آئی، تو انہوں نے کہا کہ ''اسے یہاں کا پتا معلوم نہیں۔'' جب یہ کہا کہ بیٹی اپنی خالہ سے تو پوچھ سکتی ہے؟ تب بھی وہ کہتی ہیں، نہیں خالہ کا کام ہے کہ وہ اپنی بھانجی کو بتائے کہ وہ مجھے کہاں چھوڑ کر آئی ہے۔ شبنم کا خیال ہے کہ بیٹی اُن سے ملنا چاہتی ہے، لیکن داماد کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔

شبنم کی بہن نے ایک دفعہ فون کیا اور ایک دفعہ چھوٹی بہن کے ساتھ ملنے آئی۔ اس کے بعد پلٹ کر کوئی خبر نہیں لی۔ بیٹی سے ایک بار فون پر بات ہوئی، تو اپنی بہن سے بات کرنے کی خواہش کی، لیکن اس کے باوجود کسی نے فون نہیں کیا۔ مجھے وہ سب بہت یاد آرہے ہیں، میں ان سے ملنے کے لیے بہت بے چین ہوں۔

شبنم بیٹی کے پاس رہنے کی خواہاںہیں، 28 یا 29 مارچ کو آخری بار بیٹی سے ملاقات ہوئی، اور دو اپریل بروز ہفتے کو وہ یہاں آگئیں۔ گفتگو کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ شبنم کا جھریوں زدہ چہرہ اب کسی بھی احساس کے اظہار سے عاری ہو چکا ہے۔ جب ان سے پوچھا کہ ''کیا آپ یہاں خوش ہیں؟'' تو ایسا معلوم ہوا کہ اب وہ بھول گئی ہیں کہ خوشی کیا ہوتی ہے۔ شاید ہی انہیں یاد ہو کہ وہ آخری بار کب اس جذبے سے گزری تھیں، انہوں نے اظہار تو نہیں کیا لیکن اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ اب اپنوں سے دور یہی سائبان ان کا مقدر ہے، لیکن وہ چوں کہ ایک ماں ہیں۔۔۔ اور شاید تب ہی اپنی تنہائی کی وجوہات دوسری مجبوریوں اور اولاد کے بہ جائے دیگر لوگوں میں ڈھونڈ رہی ہیں۔

دو بیٹے اور تین بیٹیوں کی ایک اور بیوہ ماں نسیمہ (فرضی نام) بھی اولڈ ہوم لا کر چھوڑ دی گئی ہے۔ نسیمہ بھی تین سال کی عمر میں ماں کے وجود سے محروم ہو گئی تھیں اور اب ماں بنیں تو جیتے جی اولاد سے دوری مقدر بن گئی۔ ایک بیٹا گاڑیوں کا کاروبار کرتا ہے، دوسرا بیٹا امریکا میں مقیم ہے۔

ایک مہینے کے دوران صرف ایک بار بیٹا ملنے آیا اور بس اسی یاد کو یہ ماں اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہے، کہتی ہیں جی کا کیا ہے، جہاں رہو وہاں لگ جاتا ہے۔ بیٹا فون پر بات کر لیتا ہے۔ بڑھاپا ہے، بس دوائیاں کھا کر گزارا کرنا ہے۔

اولڈ ہوم میں مقیم ماؤں کا المیہ یہ ہے انہوں نے تو اپنی ماؤں کی خوب خدمت کی، لیکن اب ان کی اولاد اتنی بڑی ہوگئی کہ بالکل 'آزاد' زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ جن ماؤں نے اپنے بچوں کے بھی بچے پالے، انہیں اب اپنی زندگی میں ماؤں کی 'مداخلت' اتنی ناگوار گزرتی ہے کہ وہ انہیں اپنے گھر کے کسی کونے میں بھی جگہ دینے کے روادار نہیں ہوتے۔ مگر یہ مائیں صبر شکر کے ساتھ اپنے جیون کی باقی گھڑیاں پوری کر رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ جب اپنی اولاد ہی اپنی نہ رہے، تو پھر کسی سے کیا شکوہ کرنا۔
Load Next Story