ماں وہ لفظ جس کے بعد سب کچھ ثانوی ہے
آج اولاد کے پاس سوشل میڈیا کے لیے تو بہت وقت ہے، لیکن ماں کے لیے نہیں جو اس کے لیے فکر مند رہتی ہے
'ماں' ایک ایسا پر اثر لفظ ہے کہ کسی بھی ماں کا تذکرہ آتے ہی کبھی کوئی اس کا رنگ ونسل، عقیدہ اور مذہب کا خیال ذہن میں نہیں لاتا، اس کے لیے یہ رشتہ مقدم اور باقی سب چیزیں ثانوی سی محسوس ہوتی ہیں۔ گویا ماں انسانیت کا ایک برتر اظہار ہے، کیوں ماں تو ماں ہوتی ہے۔ کسی بھی ناگہانی کے نتیجے میں جب ماں کو اپنی اولاد سے محروم ہونا پڑے، تو دنیا کا کوئی بھی قلم اس پہاڑ جیسے دکھ کا احاطہ نہیں کر سکتا۔
اولاد کی خاطر ماں کبھی اپنا آرام و سکون تباہ کرتی ہے، تو کبھی اولاد کے لیے اپنی جان دے دیتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی گذشتہ سال جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء میں ماؤں میں موت کی شرح پہلے کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور پاکستان اس حوالے سے 147 ویں سے 149 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ افغانستان جیسے ملک میں یہ صورت حال ہم سے بہتر ہے۔ پاکستان میں ہر سال بچوں کو جنم دینے کے دوران آٹھ ہزار کے قریب مائیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، جس کا سبب ناکافی غذائی اور طبی سہولیات ہیں۔
دوسری طرف آرمی پبلک اسکول، پشاور کے بعد ملک بھر کی مائیں ایک نئے خوف کا شکار ہو چکی ہیں۔ آج بھی سانحۂ پشاور کی نذر ہونے والے بچوں کی مائیں سراپا دکھ بنی ہوئی ہیں۔ ہم کتنے ہی دہشت گرد پکڑ لیں اور سزا دے لیں، لیکن یہ ایک ماں کے لعل کو تو واپس نہیں لاسکتا۔
بچہ جب بولنا سیکھتا ہے، تو وہ پہلا لفظ ماں ہی بولتا ہے۔ لفظ اْم جامد ہے اور بچہ جب بولنا سیکھتا ہے، تو اس کی مشق لفظ ماں سے ہی شروع ہوتی ہے۔ ماں کی عظمت کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ خدا نے اپنی محبت ماپنے کے لیے بھی ماں کی محبت کی مثال دی۔ ماں اولاد سے کبھی خفا بھی نہیں ہوتی اور خفا ہو بھی جائے، تو کبھی بد دعا نہیں دیتی، لیکن افسوس جوان اولاد ماں کی بے پایاں محبت کا جواب محبت سے دینے کے بہ جائے سختی سے دیتی ہے۔
آج کی نسل ماں کو 'اولڈ فیشن' اور نہ جانے کیا کچھ کہتی نظر آتی ہے۔ ماں اگر کم پڑھی لکھی ہے تب بھی اولاد کو اْس سے شکوے ہیں اور اگر ماں زیادہ پڑھی لکھی ہے، اولاد کی سرگرمیوں پر اس خیال سے نظر رکھے کہ میرا بچہ کہیں بری صحبت کا شکار نہ ہو جائے، تب بھی اولاد کو ماں سے بہت گِلے ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ماں ہماری زندگی میں مداخلت کرتی ہے، تو ہمیں بہت برا لگتا ہے۔ ہماری اپنی زندگی ہے اور ماں اِن چیزوں کو سمجھنے کے بہ جائے ہر چیز میں مداخلت کرتی ہے۔
آج اولاد کے پاس سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) کے لیے تو بہت وقت ہے، لیکن ماں کے لیے نہیں، جو پورا دن اولاد کے اسکول، کالج، یونیورسٹی یا پھر دفتر سے آنے تک اس کے لیے فکر مند رہتی ہے، لیکن اولاد واپس آنے کے بعد موبائل یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے باوجود ماں کے منہ سے ناراضگی کا ایک جملہ تک نہیں نکلتا اور وہ اسی بات پر بھی راضی اور خوش ہوتی ہے، کہ اولاد اس کے سامنے موجود ہے۔
اولاد کی خاطر ماں کبھی اپنا آرام و سکون تباہ کرتی ہے، تو کبھی اولاد کے لیے اپنی جان دے دیتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی گذشتہ سال جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء میں ماؤں میں موت کی شرح پہلے کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور پاکستان اس حوالے سے 147 ویں سے 149 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ افغانستان جیسے ملک میں یہ صورت حال ہم سے بہتر ہے۔ پاکستان میں ہر سال بچوں کو جنم دینے کے دوران آٹھ ہزار کے قریب مائیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، جس کا سبب ناکافی غذائی اور طبی سہولیات ہیں۔
دوسری طرف آرمی پبلک اسکول، پشاور کے بعد ملک بھر کی مائیں ایک نئے خوف کا شکار ہو چکی ہیں۔ آج بھی سانحۂ پشاور کی نذر ہونے والے بچوں کی مائیں سراپا دکھ بنی ہوئی ہیں۔ ہم کتنے ہی دہشت گرد پکڑ لیں اور سزا دے لیں، لیکن یہ ایک ماں کے لعل کو تو واپس نہیں لاسکتا۔
بچہ جب بولنا سیکھتا ہے، تو وہ پہلا لفظ ماں ہی بولتا ہے۔ لفظ اْم جامد ہے اور بچہ جب بولنا سیکھتا ہے، تو اس کی مشق لفظ ماں سے ہی شروع ہوتی ہے۔ ماں کی عظمت کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ خدا نے اپنی محبت ماپنے کے لیے بھی ماں کی محبت کی مثال دی۔ ماں اولاد سے کبھی خفا بھی نہیں ہوتی اور خفا ہو بھی جائے، تو کبھی بد دعا نہیں دیتی، لیکن افسوس جوان اولاد ماں کی بے پایاں محبت کا جواب محبت سے دینے کے بہ جائے سختی سے دیتی ہے۔
آج کی نسل ماں کو 'اولڈ فیشن' اور نہ جانے کیا کچھ کہتی نظر آتی ہے۔ ماں اگر کم پڑھی لکھی ہے تب بھی اولاد کو اْس سے شکوے ہیں اور اگر ماں زیادہ پڑھی لکھی ہے، اولاد کی سرگرمیوں پر اس خیال سے نظر رکھے کہ میرا بچہ کہیں بری صحبت کا شکار نہ ہو جائے، تب بھی اولاد کو ماں سے بہت گِلے ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ماں ہماری زندگی میں مداخلت کرتی ہے، تو ہمیں بہت برا لگتا ہے۔ ہماری اپنی زندگی ہے اور ماں اِن چیزوں کو سمجھنے کے بہ جائے ہر چیز میں مداخلت کرتی ہے۔
آج اولاد کے پاس سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) کے لیے تو بہت وقت ہے، لیکن ماں کے لیے نہیں، جو پورا دن اولاد کے اسکول، کالج، یونیورسٹی یا پھر دفتر سے آنے تک اس کے لیے فکر مند رہتی ہے، لیکن اولاد واپس آنے کے بعد موبائل یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے باوجود ماں کے منہ سے ناراضگی کا ایک جملہ تک نہیں نکلتا اور وہ اسی بات پر بھی راضی اور خوش ہوتی ہے، کہ اولاد اس کے سامنے موجود ہے۔