’’راٹھو چٹھہ‘‘ دہشت کی ایک علامت جو بالآخر مٹ گئی
مفروری کے دوران راٹھو چٹھہ ڈکیتی اور بھتا خوری جیسے جرائم میں بھی ملوث ہو گیا.
راٹھو کے مرنے سے سب نے سکھ کا سانس لیا۔ فوٹو : فائل
کچھ دن پہلے قانون نافذ کرنے والوں نے ایک اور جرم کی کہانی کو اس کے انجام سے دوچار کر دیا۔ یہ کہانی ہے اکبر عرف راٹھو چٹھہ نام کے مفرور کی، جو 2001 سے پولیس کو متعدد جرائم میں مطلوب تھا اور اُس کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر حکومت نے 10لاکھ روپے کا انعام بھی مقرر کر رکھا تھا۔
کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وڑائچ برادری کے دو گروہوں میں دشمنی کا آغاز ہوتا ہے۔ ان گروہوں میں سے ایک گروہ کو راٹھو چٹھہ اور اس کے خاندان کی ہم دردی حاصل ہے۔ مخالف گروہ ایک موقع پر راٹھو چٹھہ کے گھر کے سامنے خدا یار وڑائچ کو قتل کر دیتا ہے۔ مقتول خدا یار وڑائچ کا تعلق چوںکہ راٹھو چٹھہ کے خاندان سے تھا اس لیے یہ لوگ بھی اس لڑائی میں کود پڑتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا یار وڑائچ چوںکہ ان کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا اور اسے عین ان کے گھر کے سامنے مارا گیا اس طرح دوسروں کی نظر میں ان کے گھرانے کے وقار کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ راٹھو کی فیملی میں اس کا باپ چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔
راٹھو کے والد مقبول حسین چٹھہ پر بھی اپنے گائوں اور ارد گرد کے متعدد دیہات سے مویشی چوری کرنے کے الزامات تھے، اس کے ساتھ ساتھ راٹھو پر جتنے بھی کیس بنے، تمام میں اس کے والد مقبول حسین چٹھہ کا نام بھی شامل ہوتا تھا اور یہ شمولیت دفعہ 109کے تحت ہوتی تھی، یعنی جرم میں مشورہ دینا۔ 1996میں راٹھو پر لڑائی کے دوران ایک عورت کو قتل کرنے کا الزام بھی تھا، اس لڑائی میں دو عورتیں قتل ہوئیں تھیں، ان میں سے ایک عورت کے قتل کا الزام راٹھو پر آیا جس میںراٹھو چٹھہ گرفتا ر ہو ااور بعد میں باکری چدھڑ کے ساتھ پولیس کی حراست سے فرار ہو گیا، فرار کے وقت باکری اور راٹھو پیشی پر کچہری آئے ہوئے تھے۔
مفرور ہونے کے بعد اس نے مدعی پارٹی پر صلح کے لیے دبائو ڈالنا شروع کر دیا اور راٹھو کے ڈر سے آخر کار مدعی پارٹی نے صلح کا فیصلہ کر لیا۔ مدعی پارٹی کے ساتھ صلح کے بعد راٹھو چٹھہ نے گرفتاری دے دی اور صلح کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد وہ رہا ہو گیا۔ پولیس کے مطابق رہائی کے بعد راٹھو چٹھہ نے اپنا گینگ بنا لیا جس میں قاسم عرف قاسو چٹھہ، شہزاد چٹھہ، بابر عرف بابری سکنہ شیخو پورہ، شاہد عرف چھادا لوہار، عمران عرف لما بستہ، ظہور عرف ظہوری، نوید عرف پانڈا، شبیر عرف شبیرو جپہ اور غفور عرف رُوڑکا شامل تھے۔
اس گینگ نے ہر طرف قتل ڈکیتی اور اقدام قتل کی وارداتوں کا طوفان برپا کر دیا۔اس وقت شہزاد چٹھہ اور عمران عرف لما بستہ ضمانت پر رہا ہیں اور غفور عرف روڑ کا جیل میں ہے۔ راٹھو چٹھہ کے باقی تمام ساتھی پولیس مقابلے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ خدا یار وڑائچ کے قتل کے بعد راٹھو مسلسل مخالف گروپ کی ریکی کرتا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح سے وہ مخالف وڑائچ گروپ کا نقصان کر کے اپنی بے عزتی اور خدا یار وڑائچ کے قتل کا بدلہ لے سکے۔ اسی دوران راٹھو چٹھہ کو اطلاع ملی کے موہنی وڑائچ سوساں روڈ پر پر گاڑی میں جا رہا ہے جب کہ گاڑی میں اس وقت صرف وڑائچ برادری کا ڈرائیور تھا۔ راٹھو چٹھہ نے اندھا دھند اس گاڑی پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ڈرائیور قتل ہو گیا۔ قتل کے بعد راٹھو چٹھہ جائے واردات سے فرار ہو گیا۔
شاہد لوہا ر کے ساتھ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے قاسم عرف قاسو چٹھہ کے ساتھ راٹھو کی گہری دوستی تھی۔ قاسم چٹھہ اصل میں راٹھو چٹھہ کا رشتہ دار تو نہیں تھا لیکن جرائم کی وجہ سے ان دونوں میں ایک نامعلوم سی قرابت داری پیدا ہو گئی تھی۔ قاسم عرف قاسو ابھی کم عمر تھا مگر بہت زیادہ غصیلا اور غصے کی حالت میں خود پر قابو نہ رکھ سکنے والا، مریضانہ مزاج کا مالک تھا۔ اسی ذہنی کیفیت غصہ کی وجہ سے اس کے پاتھوں بہت سے افراد کا خون سرزد ہوا اور ان تمام قتلوں کی ایف آئی آرز میں قاسم کے ساتھ راٹھو کا نام بھی ضرور شامل ہوتا تھا، جس کی ایک مثال زلفے وڑائچ کا قتل بھی تھا، زلفے وڑائچ کو قتل تو قاسو چٹھہ نے کیا تھا لیکن ایف آئی آر میں راٹھو چٹھہ کا نام بھی شامل تھا۔ اسی دوران اکبر عرف راٹھو چٹھہ کی دشمنی وڑائچ برادری مسلسل جاری رہی، جس کی بنا پر راٹھو چٹھہ نے 2005 میں سمندری روڈ پر وڑائچ برادری کے تین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں ایک ارشد وڑائچ عرف کدو شامل بھی تھا۔
مفروری کے دوران اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے راٹھو چٹھہ ڈکیتی اور بھتا خوری، جسے پنجاب کی طرف ''جگا ٹیکس'' کہا جاتا ہے، جیسے جرائم میں بھی ملوث ہو گیا۔ اس نے ستیانہ روڈ پر واقع ایک میڈیکل سٹور والوں سے بھتا ادا کرنے کا مطالبہ کیا مگر انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوے صاف انکار کر دیا، انہیں اس کے نتائج کا علم نہ تھا، وہ راٹھو کو کوئی معمولی سا اٹھائی گیرا سمجھے، اِدھر راٹھو چٹھہ نے انہیں سبق سکھانے کے لیے ان کے سٹور پر برسٹ مارے اور ساتھ ہی ایک دستی بم بھی دے مارا تاہم اس کی پن نہیں نکالی جس سے وہ پھٹا تو نہیں لیکن انہیں راٹھو کا یہ پیغام مل گیا کہ اگر اس کو بھتا ادا نہ کیا گیا تو اس نتائج کتنے بھیانک نکل سکتے ہیں اور اس کا یہ حربہ کام یاب ہوا۔ میڈیکل سٹور کے خوف زدہ مالک یا مالکان نے راٹھو چٹھہ کو پانچ لاکھ روپے بھتے کے طور پر پیش کر دیے۔ اس دوران راٹھو نے اس میدان میں بھی اپنی تگ و تاز بڑھا لی۔ اس نے مختلف صاحب حیثیت لوگوں اور ارد گرد کے علاقوں سے بھتا لینا شروع کر دیا۔ تا زہ ترین واردات اس نے سمندری میں کی، جہاں اس پر مقدمہ نمبر139/12قتل اور ڈکیتی کا درج ہوا ہے۔
راٹھو چٹھہ جن مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھا ان میں سے سبزی منڈی گوجرانوالہ میں قتل، ڈکیتیاں شامل ہیں۔ تھانہ سول لائن فیصل آباد کی حدود میں اس نے ضلع کچہری میں پولیس کی آنکھوں میں مرچیں ڈال کر ان کی حراست سے ملزمان کو فرار کرایا۔ تھانہ صدر، پیپلز کالونی، مدینہ ٹائون، صدر سمندری، سٹی سمندری، ڈجکوٹ، ٹھیکری والا، ملت ٹائون، غلام محمد آباد، سبزی منڈی گوجرانوالہ، قلعہ دیدار سنگھ، کھیالی، سٹی گوجرہ کے تھانوں کو قتل ڈکیتی اور اقدام قتل کے بہت سے مقدمات میں مطلوب تھا۔ راٹھو چٹھہ نے دو شادیاں کیں جن میں سے ایک لو میرج تھی جو 2001 سے پہلے کی تھی اور دوسری شادی خدا یار وڑائچ کی بیٹی سے کی جس کا شوہر فوت ہو چکا تھا۔ مرنے سے پہلے راٹھو کافی عرصہ فیصل آباد میں چھپ کر رہتا رہا لیکن آخر کا ر اسی قانون کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا جس کو اس نے 2001 سے تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا۔
موت ایک عرصے سے راٹھو کی گھات میں تھی اور آخرکار وہ دن آن پہنچا۔ عیدِ قربان کا دوسرا دن تھا جب راٹھو اپنے اہلِ خانہ سے ملنے کے لیے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ وہ ایک موٹر سائیکل پر اپنے ایک نامعلوم ساتھی کو لے کر شادان و فحان روانہ تھا اور ابھی گٹ والا کے قریب، کھریانوالہ تک ہی پہنچ پایا تھا کہ ہونی کا وقت اسے آ لیا۔ پولس کو اپنے ذرائع سے اس کی آمد کا علم پہلے ہی سے ہو چکا تھا سو وہ اسی مقام پر گھات لگا کر بیٹھی ہوئی تھی، راٹھو اپنے ساتھی کے ہم راہ جوں ہی وہاں پر پہنچا تو پولیس نے اسے روکنے کی کوشش کی تاہم اس نے موقع سے فرار ہونے کی ٹھانی اور رفتار بڑھا دی لیکن اس کی پشت پر بیٹھے اس کے ساتھی نے پولیس اہل کاروں پر فائر کھول دیا۔ یوں مقابلہ شروع ہوگیا اس دوران دونوں قریبی کھیتوں میں داخل ہوگئے تاہم ایک گولی نے راٹھو کو زد پر لے ہی لیا اور دہشت کی یہ علامت پایانِ کار اپنے انجام سے دوچار ہوگیا البتہ اس کا نامعلوم ساتھی بچ نکلنے میں کام یاب رہا۔
راٹھو کے مرنے سے جہاں ان لوگوں نے جو اسے بھتا دیتے تھے یا اس کے مخالفین تھے، سب نے سکھ کا سانس لیا۔ اس کے علاوہ مقامی پولیس نے بھی اس دردِ سر شخص سے جان چھوٹنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔