سانپ آستین سے برآمد ہوا

معصوم حارث کی ماں اور دیگر ورثاء غم سے نڈھال زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہو گئے۔


Noor Muhammad Soomro November 17, 2012
36گھنٹوں میں اغوا کی واردات کا ڈراپ سین ہو جانا پولیس کی اعلیٰ صلاحیت کا مظہر ہے. فوٹو: فائل

آدم زاد کے خون سفید ہونے کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ آدم زاد کی اس زمین پر زندگی۔ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو ''زن'' کے معاملے پر قتل کر ڈالا، یہ قابلِ نفرت روایت آج تک انسان کے توارث میں چلی آ رہی ہے۔

یکم اکتوبر کے روز بھی خون سفید ہونے کا ایسا ہی الم ناک واقعہ رونما ہوا جب رحیم یار خان کے علاقہ جناح پارک میں تاج محمد اسلم ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر کے گھر ڈکیتی کی واردات ہوئی۔ ایک عورت نے تاج محمد اسلم کے دروازے پر دستک دی تو گھر کی خواتین نے دہلیز پر ایک عورت کو دیکھ کر بے جھجک دروازہ کھول دیا دروازے کا کھلنا تھا کہ اس کے پیچھے تین مسلح افراد بھی دندناتے ہوے گھس آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے عورتوں کو یرغمال بنا کر ایک کمرے میں جان سے مارنے کی دھمکی دے کر بند کر دیا اور گھر میں موجود 10 لاکھ روپے کے زیورات، نقدی اور پرائز بونڈ لوٹ لیے اور صرف یہی نہیں تاج محمد اسلم کے ڈیڑھ سالہ پوتے حارث کو بھی لے گئے۔

واردات کے فوراً بعد گھر ، محلہ اور پھر شہر بھر میں کہرام برپا ہو گیا۔ معصوم حارث کی ماں اور دیگر ورثاء غم سے نڈھال زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہو گئے۔ دن دیہاڑے ہونی والی واردات نے نہ صرف شہریوں بل کہ محکمۂ پولیس کو بھی مبہوت کر دیا کیوںکہ پولیس نے ایک سال قبل ہی اغوا برائے تاوان کے خلاف ایک طویل آپریشن کرکے ضلع رحیم یار خان، راجن پور اور گھوٹکی سے اغوا برائے تاوان کا خاتمہ کیا تھا اور پھر ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کی ضلع رحیم یار خان میں ایک سال کی تعیناتی کے دوران ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ قبل ازیں تو اغوا کار لوگوں کو دوران سفر ٹیلی فون کے ذریعے پھانس کر سڑکوں یا ویران علاقوں سے اغوا کرلیتے تھے لیکن گھر میں گھس کر اور وہ بھی دن دیہاڑے اس نوع کی واردات آج تک رونما نہ ہوئی تھی۔

ورثاء س اطلاع ملنے پر پولیس نے موقع دیکھا اور پھر اس کے بعد پولیس اور ورثاء دونوں مجرمان کی جانب سے کسی مطالبے کے انتظار کی سولی پر گھنٹوں جھولتے رہے ۔ آخر کار رات ایک بجے کے قریب اغوا کاروں نے حارث کی رہائی کے لیے 50 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کر دیا۔ اس دوران پولیس جدید ٹیکنالوجی کی وسطت سے مجرموں تک پہنچنے کی کوشش کرتی رہی۔ پولیس نے حارث کے ورثاء کو اعتماد میں لینے کی لاکھ کوشش کی کہ وہ اغوا کاروں سے نہ گھبرائیں اور پولیس پر اعتماد اور تعاون کریں۔ ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ ، ایس پی انوسٹی گیشن شیراز نذیر، اے ایس پی صادق آباد تنویر حسین، اے ایس پی یو ٹی عرفان علی سموں، ایس ایچ او تھانہ بی ڈویژن انسپکٹر شہنشاہ احمد خان، ایس ایچ او اے ڈویژن انسپکٹر جمشید علی شاہ، ایس ایچ او سٹی سی ڈویژن انسپکٹر میاں اظہر اقبال، ایس ایچ او بھونگ رانا محمد ارشد اور ایس ایچ او کوٹ سمابہ جام عبدالغفار کا تمام تر فوکس مجرموں کو ٹریس کرنے پر رہا اُدھر اغوا کاروں نے پولیس کو اطلاع دینے کی صورت میں حارث کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی تھی جس کی وجہ سے ورثاء حارث کو زندہ بازیاب کرانے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار تھے سو نتیجہ یہ کہ اپنے حارث کی زندگی بچانے کے لیے 2اکتوبر کو ورثاء نے پولیس سے چھپ کر اغوا کاروں کو ایک مقام پر جا کر 25 لاکھ روپے ادا کرکے بچے کو بازیاب کرا لیا مگر حارث کے ورثاء اور مجرمان کو اس بات کی کانوں کان خبر نہ تھی کہ ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کی سربراہی میں پولیس افسران کی ٹیم اغوا کاروں کی گرفتاری کے لیے سرگرم ہے۔

حارث کی بازیابی کے بعد پولیس کے لیے مجرموں کی تلاش مزید چیلنجنگ ہو گئی کہ یہ ان کی کارکردگی پر ایک بدنما دھبا تھا، دوسرے یہ کہ اگر مجرم بچ نکلنے میں کام یاب رہے تو عوام میں عدم تحفظ کا تاثر ایک بار پھر جنم لے گا۔ ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ اور ان کی ٹیم میں شامل مذکورہ پولیس افسران نے مجرموں کی تلاش کا چیلنج قبول کیا اور انتہائی رازداری سے گھیرا تنگ تر کرنا شروع کردیا اور بلآخر 3اکتوبر کی رات تقریباً اڑھائی بجے پولیس نے موضع علی اکبر سانگی کے قریب مجرموں کا محاصرہ کر لیا اُدگر مجرموں نے رات کے اس پہر میں شہر رحیم یار خان چھوڑنے کے ارادے سے ایک موٹر سائیکل پر نکل پڑے لیکن صادق آباد برانچ نہر پر ان کی تاک میں چوکس پولیس سے مڈبھیڑ ہو گئی، فائرنگ کا تبادلہ ہوا تو ایک اغوا کار افضال ساجد پولیس انجام کو پہنچ گیا جب کہ دوسر بچ نکلا۔

اس ساری کہانی کا ایک دل چسپ لیکن الم ناک پہلو یہ ہے کہ پولیس کو جدید نیٹ ورک کے ذریعے مجرموں سے آصف نامی ایک ایسے شخص کے رابطے کا بھی پتا چلا جو تاج محمد اسلم کا حقیقی بھانجا اور گھر داماد تھا۔ پولیس نے اسے بھی گرفتار کر لیا۔ دورانں تفتیش اس نے انکشاف کیا کہ اس کی نظراپنے سسر تاج محمد اسلم کو ریٹائر منٹ کی صورت میں ملنے والی رقم پر تھی جس پر اس نے مجرمان سے مل کر یہ مکروہ منصوبہ بنایا تھا۔ اس سلسلہ میں تاج محمد اسلم نے بیان کیا کہ ان کی بیٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور گورنمنٹ اسکول میں بطور ٹیچر فرائض سر انجام دے رہی ہے۔

اس نے اپنے بھانجے محمد آصف کو بیٹی کے بہتر مستقبل کے لیے اس کا رشتہ دیا تھا حالانکہ محمد آصف کا کوئی مستقل روزگار بھی نہیں ہے اور وہ اسکول میں ٹک شاپ لگاتا ہے۔ انہوں نے پولیس کی کارکردگی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوے کہا کہ پولیس کی شاندار کارکردگی کو کبھی بھلا پائیں گے۔ ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ اور ان کی ٹیم میں شامل تمام افسران نے کہا کہ انہیں اس واردات کو ٹریس کرکے جو اطمینان حاصل ہوا ہے وہ نا قابل بیان ہے۔ انہوں نے واردات میں شامل بقیہ 3 ملزمان کی جلد گرفتاری کا بھی عزم ظاہر کیا اور کہا کہ اس واردات کے ٹریس ہونے سے جہاں پر تاج محمد اسلم کو اس کا لوٹا گیا سونا ، رقم اور بانڈز واپس مل گئے ہیں وہاں ایک ماں کی گود بھی اجڑنے سے بچ گئی۔ 36گھنٹوں میں اس گھنائونی واردات کا ڈراپ سین ہو جانا پولیس کی اعلیٰ صلاحیت کا مظہر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |