پولیس چاہے تو…

ہلاک ہونے والے ڈاکو کے قبضے سے ملنے والے موبائل کے ڈیٹا سے باقی ڈاکوؤں کا سراغ لگایا جارہا ہے۔

چکوال میں ایک ڈاکٹر کو اس وقت لوٹا گیا جب وہ اپنا کلینک بند کر کے گھر جا رہا تھا۔ فوٹو : فائل

ایک وقت تھا جب ضلع چکوال ایک پر سکون علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن چند برسوں سے یہاں جرائم کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لوگ خوف زدہ رہنے لگے ہیں، لوٹ مار عام ہو گئی ہے اور شہری قتل کیے جا رہے ہیں۔

تھانہ ڈھڈیال کے علاقہ میں گذشتہ شب ایک ڈکیتی کی ایک واردت ہوئی، جس میں ایک ڈاکٹر کو اس وقت لوٹا گیا جب وہ اپنا کلینک بند کر کے گھر جا رہا تھا۔ اس ڈکیتی میں ایک ڈاکو مارا گیا جب کہ ڈاکٹر کا ایک بھائی جان سے جاتا رہا۔
واقعات کے مطابق چار ڈاکو اس کے گھر کے سامنے ایک قبرستان میں انتظار کر رہے تھے کہ وہ کب گھر آئے اور وہ اسے زد پر لیں۔ اس سے قبل بھی اسی ڈاکٹر کے گھر دو مرتبہ ڈاکوؤں نے ڈاکا مار کر لاکھوں روپے کے طلائی زیورات اور نقدی اڑائی تھی جس کے خلاف تھانہ ڈھڈیال میں مقدمہ بھی درج ہو ا تھا لیکن پولیس کسی ڈاکو کو گرفتار نہیں کر سکی تھی۔ ان وارداتوں کے بعد ڈاکوؤں کے حوصلے بلند ہو گئے تھے اور یہ واردات بھی غالباً ان ہی ڈاکوؤں نے کی۔ پولیس کو درج کرائی گئی رپورٹ میں محمد سجاد ولد محمد افسر قوم اعوان سکنہ ڈھوک چھچھ داخلی بھیں نے بتایا کہ وہ موضع بھیں کے مین بازار میں اپنا میڈیکل سٹور اور کلینک چلاتا ہے۔

اس کا کہنا ہے ''میں نے رہائش بھی بھیں میں ہی بنا رکھی ہے، میرے بیوی بچے اپنے ذاتی مکان میں رہائش پذیر ہیں جب کہ میں نے کچھ دکانیں بھی بنا رکھی ہیں۔ میرے گھر کے مین گیٹ کو باہر سے تالا لگا رہتا ہے۔ گزشتہ شب بھی 8.30 بجے دکان بند کر کے گھر پہنچا اور حسب معمول گیٹ کا تالا کھولا اور اند داخل ہو ہی رہا تھا کہ پیچھے سے یک دم تین ڈاکو پسٹل اور ٹوکا لیے ہوئے اند داخل ہو گئے جب کہ ان کا تیسرا ساتھی ڈاکو گیٹ پر کھڑا ہو گیا، ڈاکوں نے مجھ سے 5000 ہزار روپے کی نقدی اور میرا موبائل فون نوکیا، جس میں سم نمبر 0302586315 تھی، چھین لیا، ایک ڈاکو نے، جو نوجوان تھا، میرے سر پر پستول کے بٹ کا وار کیا اور اسی طرح دوسرا وار دائیں بازو پر کیا جس سے میں شدید زخمی ہو گیا، ڈاکووں نے مجھے برآمدے کی گرِل کھولنے کو کہا، میں نے اپنی بیوی کو آواز دی، اس نے فوری طور پر کمرے کو اندر سے کنڈی لگالی اور ڈھوک چھچھ میں میرے بھائیوں کو واردات کی اطلاع کر دی، میرے بھائی فوری طور پر پہنچ گئے تاہم ملزمان نے گرل کو دھکا دے کر توڑ دیا اور کمروں میں داخل ہو گئے۔


میرے بھائی پہنچے تو ایک نے میرے بھائی حافظ محمد اعجاز پر فائر کر دیا جو اس کی دائیں آنکھ کے اوپر لگا اور وہ زخمی ہو کر برآمدے میں ہی گر گیا اور دم توڑ بیٹھا، دوسرا بھائی محمد نواز آگے بڑھا تو اس پر بھی ایک ڈاکو نے گولی چلا دی جو اس کے پیٹ میں جا لگی، اس کے بعد ہم گتھم گتھا ہو گئے اور ایک ڈاکو کو پکڑ لیا۔ یہ دیکھ کر ٹوکے والے ڈاکو نے اپنے ساتھی کو چھڑانے کے لیے وار کر دیا جو اتفاق سے خود ان ہی کے ایک ساتھی کے سر پر لگا، اس واقعے کے باعث اُن کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ گھبراہٹ میں فائرنگ کرتے ہوئے بھاگ نکلے۔ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے میرے بھائی محمد قمیر کو بھی دائیں ہاتھ پر ایک فائر لگا جب کہ ڈاکوؤں کا ایک ساتھی، جو شدید زخمی تھا، باہر نکلا تو، لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سڑک پر گر کر ہلاک ہو گیا۔

فائرنگ کا شور سن کر گاؤں کے لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تھے جس کی وجہ سے ڈاکو اپنے ساتھی کو ساتھ نہ لے جا سکے۔ ہلاک ہونے ہونے والے ڈاکو کا نام اور پتا نعمان مسعود ولد محمد مسعود پرویز سکنہ ساہنگ خورد، تصیل گوجر خان ضلع راول پنڈی معلوم ہوا ہے۔ اطلاع ملتے ہی ڈی ایس پی صدر سرکل چوہدری عبدالسلیم پولیس کی بھاری نفری کے ہم راہ موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال چکوال پہنچا دیا گیا جب کہ دونوں نعشوں کو قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔ ڈاکو جاتے وقت نقدی کے علاوہ اہل خانہ کے زیورات بھی لے گئے، جن کی مالیت لاکھوں روپے بیان کی جارہی ہے۔ پولیس نے دوہرے قتل اقدام قتل اور ڈکیتی کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔

اس واقعہ پر ڈی پی او چکوال محمد کاشف مشتاق کانجو نے موقع پر جا کر تمام صورت حال کا جائزہ لیا، ہلاک ہونے والے ڈاکو کے قبضے سے ملنے والے موبائل کے ڈیٹا سے باقی ڈاکوؤں کا سراغ لگایا جارہا ہے جب کہ ڈی پی او نے اس ضمن میں ایک تفتیشی ٹیم، جس میں ایس ایچ او صدر چکوال چوہدری اثر علی، انچارج انویسٹی گیشن چکوال راجہ محمد انور ایس ایچ او ڈھڈیال شامل ہوں گے جب کہ اس ٹیم کے سربراہ ڈی ایس پی صدر سرکل چکوال چوہدری عبدالسلیم ہوں گے۔ قوی امید ہے کہ ڈاکو جلد ہی گرفتار کر لیے جائیں گے۔

جب کہ موضع بھیں سے بھی ڈاکوؤں کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں جب کہ مدعی کا بھی یہ کہنا ہے کہ وہ سامنے آنے پر تمام ڈاکوؤں کو پہچان سکتا ہے۔ اس سے قبل پولیس ضلع سے اغوا برائے تاوان کے دس خطرناک ملزمان کو بھی کام یابی کے ساتھ گرفتار کر کے تین مغویوں کو برآمد بھی کر چکی ہے۔ اب بھی پولیس چاہے تو اس ڈکیتی میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story