دینی جماعتیں اور انتخابی سیاست ایک جائزہ آخری حصہ
مذہبی جماعتیں باہمی تعاون کے بغیر عام انتخابات میں حصہ لیں گی تو اس کا نتیجہ وہی نکلے گا یعنی ووٹوں کی تقسیم۔
مذہبی جماعتوں کی سیاست کو نئی زندگی نوگیارہ حملوں کے بعد ملی۔
امریکا نے افغانستان پرحملہ کیا تو مذہبی جماعتوں نے دفاع افغان کونسل کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک شروع کردی، عوام نے ان جلسوں میں بڑی تعداد میں شرکت کی، جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد دو بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے تھے، ملک میں قیادت کا خلاء تھا، مذہبی جماعتیں ملک میں موجود امریکا مخالف جذبات کو مزید ابھار رہی تھیں۔
اس صورتحال میں جب پرویز مشرف نے 2002 میںعام انتخابات کا اعلان کیا تو دفاع افغان کونسل میں شامل جماعتیں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ایک نشان اور ایک جھنڈے کے ساتھ میدان میں اتریں اور نہ صرف ملکی تاریخ میں پہلی بار 50 سے زائد نشستیں جیتنے میں کامیاب رہیں بلکہ دو صوبوں میں حکومت بھی بنائی۔ کراچی اور حیدرآباد کے عوام جو بھتا خوری سے تنگ آچکے تھے ایک بار پھر مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو کامیاب کراتے نظر آئے۔
ایم کیو ایم کو کراچی میں تقریباً نصف نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ حیدر آباد سے بھی ایم کیو ایم اکثریتی علاقوں کی 2 میں سے ایک نشست ہار گئی۔ کراچی کی نظامت جماعت اسلامی پہلے ہی جیت چکی تھی۔ یوں پاکستان میں اکیسویں صدی کا آغاز مذہبی جماعتوں کی کامیابی کے ساتھ ہوا، اور مختلف فرقوں میں اتحاد و یکجہتی کے تاریخی مناظربھی دیکھنے میں آئے۔ جماعت اسلامی، کراچی کے ایک نومنتخب رکن صوبائی اسمبلی کا نکاح مولاناشاہ احمد نورانی نے پڑھایا۔
دیوبندی مدارس کے دروازے اب جماعت اسلامی کی قیادت کے لیے کھل چکے تھے۔ مولانا فضل الرحمان اب جماعت اسلامی کے اجتماعات میں خطاب کرتے نظر آتے، اہل تشیع علماء بھی ان مجالس میںشرکت کرتے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے، اہلحدیث حضرات کی نمایندگی پروفیسر ساجد میرکررہے تھے۔ مولانا نورانی اب مختلف فرقوں میں اتحاد کے داعی تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو جنازے میں تمام مکاتب فکر کے علماء اور عوام کی کثیر تعداد شریک تھی۔
جماعت اسلامی کے قائدین ایم ایم اے کو ایک بابرکت اتحاد اور پھولوں کے گلدستے سے تعبیر کرتے۔ تاہم جلد ہی گلدستے میں موجود پھول مرجھانے لگے اور با برکت اتحاد کی بے برکت پالیسیوں پر لوگ کھلے عام تنقیدکرنے لگے۔ مختلف معاملات پر اتحاد کی دو بڑی جماعتوں یعنی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ف کے درمیان اختلافات کی خبریں اخبارات کی زینت بنے لگیں اور پھر باقاعدہ الزامات کا تبادلہ شروع ہوا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی جماعتیں قوم کو متبادل قیادت فراہم کرتیں، اپنا دائرہ اثر بڑھاتیں، اورمستقبل کے لیے زیادہ موثر حکمت عملی کے ساتھ کام کرتے ہوئے مسائل سے نمٹتی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور یہ جماعتیں مختلف معاملات پرآپس میں ہی الجھ کر رہ گئیں۔
یوں ایم ایم اے کی شکل میں عوام کو جو متبادل قیادت نظرآئی تھی وہ جلد ہی کوتاہ اندیشی کے سبب اپنے انجام کو پہنچ گئی اورآیندہ انتخابات میں ایک بار پھر پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی کامیابی کا راستہ ہموار ہوگیا۔ اس صورتحال میں جب فروری 2008میں انتخابات کا اعلان ہوا تو جماعت اسلامی نے اس کا بائی کاٹ کردیاجسے مولانا فضل الرحما ن نے بائیکاٹ سے تعبیر کیا۔ انتخابی نتائج سامنے آئے تو 2002 میں قومی اسمبلی میں 50 سے زائد نشستیں رکھنے والے اتحاد کے حصے میں بمشکل تمام 6 نشستیں آئیں۔
مذہبی جماعتوں کی سیاست اور انتخابی نتائج کے جائزے کے نتیجے میں جو چیزیں سامنے آئی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
1۔ مذہبی جماعتوں نے 70کے عام انتخابات میں مجموعی طور مغربی پاکستان سے ڈالے گئے ووٹوں کا 12فیصد اور 18 نشستیں حاصل کی تھیں، اور 32 سال بعد 2002میں جب ان جماعتوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے 50 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کی تب بھی ان کو مجموعی طور پر13 فیصد کے قریب ہی ووٹ ملے تھے۔
فرق یہ تھا کہ 70 کے انتخابات میں ان جماعتوں کے ووٹ آپس میں ہی تقسیم ہوگئے تھے لہٰذا جیتی گئی نشستوں کی تعداد کم رہی، جب کہ 2002 میں یہ جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا تھیں لہٰذا ووٹ تقسیم نہیں ہوا اور 70کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ امیدوار کامیاب ہوئے۔ یوں یہ بات تو اب تقریباً طے ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ ملک بھر میں سب ملاکر بھی 13 فیصد یا 15 فیصد سے زائد نہیں ہیں۔ غالباً اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں لوگوں کا رجحان مسلم لیگ کی طرف ہے بہرحال اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کی کم ازکم دعویدار توبہرحال ہے۔
2۔ روایتی طور پر مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک سندھ کے شہری علاقوں یا مہاجر آبادی والے علاقوں، خیر پختونخوا، فاٹا اور بلوچستان تک محدود ہے۔ پنجاب میں دینی جماعتوں کا ووٹ بینک تو ہے لیکن ایک حلقہ بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے یقین سے کہا جاسکے کہ یہاں سے جماعت اسلامی، جے یو آئی، جے یو پی یا جماعت اہلحدیث کا امیدوار کامیاب ہوجائے گا، جب کہ پنجاب کی نشستوں کی تعداد بشمول اسلام آباد 150 ہیں، البتہ مسلم لیگ ن سے اتحاد کی صورت میں چند نشستیں ضرور مل سکتی ہیں۔ 2002 میں پنجاب سے ایم ایم اے کو 150 میں سے محض 5 سیٹیں ملی تھیں وہ بھی تب جب لاہور میں مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تھی۔
دوسری صرف بلوچستان سے ایم ایم اے کو کل 14 نشستوں میں سے 6 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ درج ذیل چارٹ کی روشنی میں 2002کے عام انتخابات کے نتائج اور دینی جماعتوں کے زیر اثر علاقوں کے بارے میں آپ جان سکتے ہیں۔
اس بار قبائلی علاقوں کی12 نشستوں پر بھی سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی، یہاں پر جماعت اسلامی اور جے یوآئی کا اچھا اثر و رسوخ ہے۔
3۔ سندھ کے وہ علاقے ہیں جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 83 بنتی ہے۔ ان نشستوں پر کامیابی کے لیے مذہبی جماعتوں کو صرف آپس میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ اگر پنجاب کے کچھ حلقوں جہاں مسلم لیگ سے اتحاد کی ضرورت ہوگی کو بھی شامل کرلیا جائے تو ایسے حلقے جہاں مذہبی جماعتوں کی پوزیشن اچھی ہے کی تعداد 100 سے زائد نہیں ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ کراچی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کم از کم 12 نشستیں ایسی ہیں جو روایتی طور پر کبھی بھی دینی جماعتوں کے حلقے نہیں رہے یوں مذہبی جماعتوں کے زیر اثر قومی اسمبلی کے حلقوں کی اصل تعداد 80 سے 90 کے درمیان ہے جب کہ قومی اسمبلی کی نشستیں جو ووٹرز براہ راست منتخب کرتے ہیں کی تعداد 242 ہے۔
4۔ اس جائزے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف ان دونوں جماعتوں کو ملکی تاریخ میں کبھی اس قدر نشستیں حاصل نہیں ہوئی تھیں جتنی 2002میں ملی تھیں۔ اور یہ دونوں جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے لیے سب سے کامیاب اتحاد ثابت ہوا تھا۔
5۔ ایم ایم اے کے تجربے سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ گو تمام ہی مذہبی جماعتیں ملک میں اسلامی نظام چاہتی ہیں لیکن ان کی ترجیحات اور حکمت عملی میں بہت فرق ہے۔ روایتی طور پر جماعت اسلامی اگر مسلم لیگ ن کے قریب رہی ہے تو جے یو آئی ف پیپلزپارٹی کے قریب رہی ہے۔
6۔جنوبی پنجاب کے گنتی کے چند حلقوں میں مذہبی جماعتیں صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور مسلم لیگ کے ساتھ تعاون سے قومی اسمبلی کی نشست بھی حاصل کرسکتی ہیں۔
اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد میں چند ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ حالیہ بین الاقوامی اتحاد امت کانفرنس میں یکجہتی کی ضرورت پر تمام علما نے زور دیا۔ تاہم مولانا فضل الرحما ن ایم ایم اے میں جماعت اسلامی کی شمولیت کی بظاہر کھل کر مخالفت کرتے آ رہے ہیں جب کہ جماعت اسلامی اور مولانا سمیع الحق دیگر مذہبی جماعتوں کے ہمراہ ایک نئے سیاسی اتحاد کے لیے کوشاں ہیں ۔
جماعت اسلامی کی قیادت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے بھی رابطے میں ہے۔جے یو پی کے ابوالخیر محمد زبیر ایم ایم اے کوفعال کرنے کے زبردست حامی تو ہیں لیکن جے یو پی میں اب ماضی والا دم خم نہیں رہا۔پروفیسر ساجد میر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مسلم لیگ ن سے بھی تعاون کی پالیسی پر گامزن ہیں۔تحریک جعفریہ کے مقابلے میں مجلس وحدت المسلمین اہل تشیع حضرات کی زیادہ موثرآواز بنتی دکھائی دے رہی ہے اور اس کے سیاسی عزائم بھی نمایاںہیں۔
اس صورتحال میں اگر مذہبی جماعتیں باہمی تعاون کے بغیر عام انتخابات میں حصہ لیں گی تواندیشہ ہے کہ اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو ماضی میں نکلتا آیا ہے ،یعنی ووٹوں کی تقسیم جس کا فائدہ دیگر جماعتوں کو ہوگا۔اس مسئلے کے حل کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اب جب کہ مولانا فضل الرحمان اور ابوالخیر محمد زبیر ایم ایم اے کو فعال کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور جماعت اسلامی اور جے یوآئی (س) ایک نیا اتحاد تشکیل دے رہی ہیں تو ضروری ہے کہ یہ دونوں اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیں اور ایک دوسرے کے خلاف اپنے امیدوار نہ کھڑے کریں ۔
اس طرح مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی تقسیم نہ ہوگا ،یہ جماعتیں حکومت سازی یا فیصلہ سازی کے وقت ایک دوسرے پر اثر انداز بھی نہ ہوں گی اور پارلیمنٹ میں دینی جماعتوں کی موثر نمایندگی ہوگی جو قومی سلامتی سے متعلق امور اور قانون سازی کے وقت متفقہ موقف اختیار کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی۔