اور قانون ہارگیا
ایبٹ آباد کی 16 سالہ عنبرین جرگہ کے حکم پر نہ صرف قتل کر دی گئی بلکہ اس کی لاش بھی جلا دی گئی
SIALKOT/GUJRANWALA/MULTAN:
ایبٹ آباد کی 16 سالہ عنبرین جرگہ کے حکم پر نہ صرف قتل کر دی گئی بلکہ اس کی لاش بھی جلا دی گئی۔ یہ قبیح عمل ان مسلمانوں نے کیا، جو مردوں کے جلانے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ لیکن نام نہاد خاندانی غیرت اور وقار کے نام پر سب کچھ گوارا ہوتا ہے۔
عنبرین کا یوں مار دیا جانا کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ اس خطے کی ثقافتی اقدار اور روایات کا حصہ ہے، جس پر پاکستان بنا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے، بلکہ اس ملک کی سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ان معزز اراکین کا دعویٰ ہے، جو اس سفاکانہ عمل کے خلاف ہونے والی قانون سازی کی راہ میں ہمیشہ آڑے آتے رہے ہیں۔ وہ علمائے دین جو تحفظ نسواں قانون کی منظوری پر تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، مگر ایسے ظالمانہ واقعات پر بولتے ہوئے ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت جنم ہی اس لیے لیتی ہے کہ ظلم سہے اور خاموش رہے۔ واقعہ ایک ہو تو بات کریں، یہ تو روز کا معمول ہے۔ کہیں کاری قرار دے کر قتل اور رات کے اندھیرے میں بے کفن الگ قبرستان میں دفن، نہ کہیں دعا، نہ کہیں فاتحہ۔ قبائل میں جھگڑا ہو تو درجنوں لوگوں کے لقمہ اجل بننے کے بعد جب مفاہمت ہوتی ہے، تب بھی عورت ہی تختہ مشق بنتی ہے اور ونی کی شکل میں پنچوں کی مرضی سے بیاہی جاتی ہے۔ گویا وطن عزیز میں صنفی امتیاز معاشرے کا طرہ امتیاز ہے۔ ہر روز ایک نیا واقعہ، ہر روز ایک نئی داستان۔
جو چند واقعات ذہن کے گوشوں میں محفوظ ہیں، ان پر نظر ڈالیں تو ریاست، آئین اور قانون سبھی بے بس نظر آتے ہیں۔ ضیا دور میں نواب پور میں ہونے والا واقعہ شاید قارئین بھول چکے ہوں، جب غیظ و غضب میں ڈوبے وڈیرے نے کمی کمداروں کی درجن بھر خواتین کو مکمل برہنہ کر کے سڑکوں پر گھمایا۔ یہ تو محروم طبقے کی مفلوک الحال عورتیں تھیں، جو وڈیرے کے ظلم و ستم کا شکار ہوئیں۔ مگر پشاور کی سمیعہ تو ایک پڑھے لکھے متمول سیاسی گھرانے کی چشم و چراغ تھی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے پسند کی شادی کی تھی، جسے اس کی ماں نے کرائے کے قاتلوں سے لاہور کی ایک وکیل کے دفتر کے سامنے قتل کروایا تھا۔
ان دنوں ہمارے دوست اقبال حیدر مرحوم سینیٹ کے رکن اور وفاقی وزیر قانون تھے۔ انھوں نے سینیٹ میں عزت کے نام پر قتل کے خلاف ایک بل پیش کیا۔ 66 اراکین پر مشتمل اس ایوان میں بل کی حمایت میں اقبال حیدر مرحوم کے علاوہ صرف جمیل الدین عالی مرحوم اور اعتزاز احسن نے دستخط کیے۔ بقیہ 63 اراکین نے بل کی مخالفت میں تقاریر کرتے ہوئے عزت کے نام پر قتل (Honour Killing) کو اپنا ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ حالانکہ اس ایوان کے بیشتر اراکین آکسفورڈ اور کیمبرج کے فارغ التحصیل تھے۔ کچھ بائیں بازو کی ترقی پسندی کے تمغے سینے پہ سجائے انسانی حقوق کے خود ساختہ چیمپئن تھے اور کچھ جید علما۔ مگر جب قلب و ذہن پر منافقتوں کی دبیز تہہ جمی ہو تو پھر ہر اس اقدام کی مخالفت کی جاتی ہے، جو مفادات کی راہ میں رکاوٹ ہو۔
مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ بھی کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ اسی طرح چند برس پہلے خیرپورمیرس میں ایک لڑکی پر کتے چھوڑنے کی کہانی بھی کافی عرصہ تک زبانِ زد عام رہی۔ 2009ء میں جعفرآباد میں چند لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا واقعہ بھی زیادہ پرانا نہیں ہے۔
شاید لوگوں کو اس علاقے سے منتخب ہونے والے سینیٹر کی سینیٹ میں کی گئی تقریر بھی یاد ہو، جس میں موصوف نے اس عمل کے حق میں زوردار تقریر کی تھی، جس کے بعد انھیں وفاقی وزیر بنا دیا گیا تھا۔ کشمور سے تعلق رکھنے والے ایک قبیلے کے سردار جو سیاسی رہنما بھی ہیں، اس قسم کے جرگے سجا کر سزائیں دینے کے لیے مشہور ہیں۔ لبرل اور سیکیولر خیالات کی دعویدار پیپلز پارٹی نے انھیں وزارت تعلیم جیسے منصب پر فائز کیا۔ مگر ایسے ہزاروں واقعات وقت کی دھول میں دب چکے ہیں۔
اب جہاں تک پولیس کے رویوں کا تعلق ہے تو پولیس اہلکار بھی اسی معاشرتی تشکیلات کا حصہ ہیں۔ اس لیے وہ غیرت کے نام پر قتل جیسے سفاکانہ واقعات کو کیا روکیں گے، جب کہ وہ انھیں درست تصور کرتے ہوں۔ جس کی ایک مثال دو برس قبل لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں ہونے والا ایک واقعہ ہے، جب ایک ماں نے اپنی جواں سال حاملہ بیٹی کو اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا تھا، کیونکہ اس نے پسند کی شادی کی تھی۔ قانون کے محافظ پولیس اہلکار یہ مناظر تماشائی بنے دیکھتے رہے، کیونکہ ان کی نظر میں ماں لڑکی کے ساتھ جو کر رہی تھی، وہ درست تھا۔
اس سلسلے میں چند اہم سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اول، پاکستان میں قانون کی عملداری کیوں نہیں ہے؟ دوئم، وہ عناصر جو عورتوں کے استحصال اور ان کی بدترین تذلیل کے ذمے دار ہیں، انھیں سزا کیوں نہیں ملتی؟ یہ سوالات اپنی جگہ، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ بالخصوص حکمران اشرافیہ دہرا نہیں بلکہ تہرا معیار رکھنے والے منافقانہ Mindset کا شکار ہے، جو 68 برس گزرنے کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کر سکی ہے کہ اس ملک کی سمت کیا ہو گی؟ یہاں کیا نظام ہو گا؟ دوراہے پر کھڑی ہے۔
وہ ایک طرف شرعی نظام کے نفاذ کی دعویدار ہے، مگر عصر حاضر کے نظم حکمرانی کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی وہ ان فرسودہ روایات اور اقدار کو جاری رکھنے کی خواہشمند ہے، جن میں موجود پدرشاہی نظام برتری اور بالادستی کا احساس دلانے کا باعث ہے۔ چنانچہ رائج الوقت اینگلو سیکسن قوانین میں اس کی دلچسپی محض واجبی سی ہے۔ اسی لیے ان قوانین میں ترمیم و اضافہ کے ذریعے انھیں مزید بہتر بنانا اس کی ترجیح نہیں ہے۔
دوسری طرف وہ اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ اسلامی قوانین کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کرنے کے لیے قانون سازی کے عمل میں اجتہاد انتہائی ضروری ہے۔ اجتہاد کے بغیر بیشتر قوانین کا نفاذ ان گنت فقہی اور مسلکی مسائل پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سماجی تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ جنرل ضیا کے ناپختہ اور غیر ذمے دارانہ سطحی اقدامات کے نتیجے میں ہوا۔ تیسری طرف وہ قبائلی اور فیوڈل معاشرت سے بھی جڑے رہنا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ نظام اشرافیائی کلچر کو مستحکم بنانے کا باعث ہے۔ اسی نظام کی وجہ سے وہ پارلیمان کے ایوانوں تک پہنچتا ہے۔ اس لیے وہ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں جمہوریت کی باتیں تو کرتا ہے، مگر گھٹی میں پڑی پدرشاہی ذہنیت اسے آمرانہ سوچ کا اسیر بنائے رکھتی ہے۔ اس لیے جمہوریت اور جمہوری نظام کی باتیں محض نمائشی ہوتی ہیں۔
پاکستان میں کئی دہائیوں سے یہ واقعات کسی حد تک اس لیے منظرعام پر آنا شروع ہوئے، کیونکہ سول سوسائٹی کی تنظیمیں کسی حد تک فعال اور ذرایع ابلاغ مستعد ہوئے ہیں۔ مگر نہ سول سوسائٹی میں اتنا دم ہے کہ وہ معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لاسکے اور نہ ذرایع ابلاغ کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کا کوئی ٹھوس اور جامع حل موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ مختصر سے حلقے ملک کے چند شہروں میں پائے جاتے ہیں، جو ہر وقت سیاسی جماعتوں بالخصوص مذہبی تنظیموں کے نشانے پر رہتے ہیں۔
جس کی وجہ سے انھیں کھل کر ان موضوعات پر اظہار خیال کرنے، ان پر کی گئی تحقیق کو منظرعام پر لانے سے گریز کرتے ہوئے زیادہ تر معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ ریاست پر مسلط اشرافیہ کسی بھی طور اس فسطائی کلچر کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، جس کی وجہ سے مختلف امتیازات نے جنم لیا ہے۔ لہٰذا اس قسم کے واقعات منظر عام پر آتو رہے ہیں، مگر ان کے سدباب کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی۔
اس مسئلے کا صرف ایک حل نظر آتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو دیے جانے والے ترقیاتی فنڈ بند کردیے جائیں۔ پورے ملک میں ایک مکمل بااختیارمقامی حکومتی نظام رائج کیا جائے، جو ریاستی انتظام کا تیسرا درجہ یعنی Third tier ہو۔ اس طرح تبدیلی کی راہ ہموار ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ جب تک پاکستان کا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوتا، جمہوریت کے نام پر دہرے معیار رکھنے والی یہی اشرافیہ ہمارے سروں پر مسلط رہے گی۔
ہر شہری کا اسی طرح ذہنی، فکری، معاشی اور سماجی استحصال ہوتا رہے گا۔ ملک میں دنیا کو دکھانے کے لیے اینگلوسیکسن قوانین ضرور نافذ رہیں گے، مگر ان پر ان کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوگا۔ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے اشرافیہ جرگوں اور جہل آمادگی پر مبنی دیگر روایات کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھنے کی کوششیں کرتی رہے گی۔ لہٰذا معاشرہ مختلف نوعیت کے امتیازات کا اسی طرح شکار رہے گا۔ غریب انصاف کے لیے یونہی دربدر ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔
معروف شاعر خلیل جبران نے قانون کے بارے میں نے کہا تھا کہ Law is like a sand house build by the childern near the sea shore with great enthusiasm and distroyed in a laughter ۔ اس لیے قانون بااثر اشرافیہ کے ہاتھوں کھلونا بنا یونہی بے بس و لاچار رہے گا۔
ایبٹ آباد کی 16 سالہ عنبرین جرگہ کے حکم پر نہ صرف قتل کر دی گئی بلکہ اس کی لاش بھی جلا دی گئی۔ یہ قبیح عمل ان مسلمانوں نے کیا، جو مردوں کے جلانے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ لیکن نام نہاد خاندانی غیرت اور وقار کے نام پر سب کچھ گوارا ہوتا ہے۔
عنبرین کا یوں مار دیا جانا کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ اس خطے کی ثقافتی اقدار اور روایات کا حصہ ہے، جس پر پاکستان بنا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے، بلکہ اس ملک کی سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ان معزز اراکین کا دعویٰ ہے، جو اس سفاکانہ عمل کے خلاف ہونے والی قانون سازی کی راہ میں ہمیشہ آڑے آتے رہے ہیں۔ وہ علمائے دین جو تحفظ نسواں قانون کی منظوری پر تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، مگر ایسے ظالمانہ واقعات پر بولتے ہوئے ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت جنم ہی اس لیے لیتی ہے کہ ظلم سہے اور خاموش رہے۔ واقعہ ایک ہو تو بات کریں، یہ تو روز کا معمول ہے۔ کہیں کاری قرار دے کر قتل اور رات کے اندھیرے میں بے کفن الگ قبرستان میں دفن، نہ کہیں دعا، نہ کہیں فاتحہ۔ قبائل میں جھگڑا ہو تو درجنوں لوگوں کے لقمہ اجل بننے کے بعد جب مفاہمت ہوتی ہے، تب بھی عورت ہی تختہ مشق بنتی ہے اور ونی کی شکل میں پنچوں کی مرضی سے بیاہی جاتی ہے۔ گویا وطن عزیز میں صنفی امتیاز معاشرے کا طرہ امتیاز ہے۔ ہر روز ایک نیا واقعہ، ہر روز ایک نئی داستان۔
جو چند واقعات ذہن کے گوشوں میں محفوظ ہیں، ان پر نظر ڈالیں تو ریاست، آئین اور قانون سبھی بے بس نظر آتے ہیں۔ ضیا دور میں نواب پور میں ہونے والا واقعہ شاید قارئین بھول چکے ہوں، جب غیظ و غضب میں ڈوبے وڈیرے نے کمی کمداروں کی درجن بھر خواتین کو مکمل برہنہ کر کے سڑکوں پر گھمایا۔ یہ تو محروم طبقے کی مفلوک الحال عورتیں تھیں، جو وڈیرے کے ظلم و ستم کا شکار ہوئیں۔ مگر پشاور کی سمیعہ تو ایک پڑھے لکھے متمول سیاسی گھرانے کی چشم و چراغ تھی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے پسند کی شادی کی تھی، جسے اس کی ماں نے کرائے کے قاتلوں سے لاہور کی ایک وکیل کے دفتر کے سامنے قتل کروایا تھا۔
ان دنوں ہمارے دوست اقبال حیدر مرحوم سینیٹ کے رکن اور وفاقی وزیر قانون تھے۔ انھوں نے سینیٹ میں عزت کے نام پر قتل کے خلاف ایک بل پیش کیا۔ 66 اراکین پر مشتمل اس ایوان میں بل کی حمایت میں اقبال حیدر مرحوم کے علاوہ صرف جمیل الدین عالی مرحوم اور اعتزاز احسن نے دستخط کیے۔ بقیہ 63 اراکین نے بل کی مخالفت میں تقاریر کرتے ہوئے عزت کے نام پر قتل (Honour Killing) کو اپنا ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ حالانکہ اس ایوان کے بیشتر اراکین آکسفورڈ اور کیمبرج کے فارغ التحصیل تھے۔ کچھ بائیں بازو کی ترقی پسندی کے تمغے سینے پہ سجائے انسانی حقوق کے خود ساختہ چیمپئن تھے اور کچھ جید علما۔ مگر جب قلب و ذہن پر منافقتوں کی دبیز تہہ جمی ہو تو پھر ہر اس اقدام کی مخالفت کی جاتی ہے، جو مفادات کی راہ میں رکاوٹ ہو۔
مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ بھی کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ اسی طرح چند برس پہلے خیرپورمیرس میں ایک لڑکی پر کتے چھوڑنے کی کہانی بھی کافی عرصہ تک زبانِ زد عام رہی۔ 2009ء میں جعفرآباد میں چند لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا واقعہ بھی زیادہ پرانا نہیں ہے۔
شاید لوگوں کو اس علاقے سے منتخب ہونے والے سینیٹر کی سینیٹ میں کی گئی تقریر بھی یاد ہو، جس میں موصوف نے اس عمل کے حق میں زوردار تقریر کی تھی، جس کے بعد انھیں وفاقی وزیر بنا دیا گیا تھا۔ کشمور سے تعلق رکھنے والے ایک قبیلے کے سردار جو سیاسی رہنما بھی ہیں، اس قسم کے جرگے سجا کر سزائیں دینے کے لیے مشہور ہیں۔ لبرل اور سیکیولر خیالات کی دعویدار پیپلز پارٹی نے انھیں وزارت تعلیم جیسے منصب پر فائز کیا۔ مگر ایسے ہزاروں واقعات وقت کی دھول میں دب چکے ہیں۔
اب جہاں تک پولیس کے رویوں کا تعلق ہے تو پولیس اہلکار بھی اسی معاشرتی تشکیلات کا حصہ ہیں۔ اس لیے وہ غیرت کے نام پر قتل جیسے سفاکانہ واقعات کو کیا روکیں گے، جب کہ وہ انھیں درست تصور کرتے ہوں۔ جس کی ایک مثال دو برس قبل لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں ہونے والا ایک واقعہ ہے، جب ایک ماں نے اپنی جواں سال حاملہ بیٹی کو اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا تھا، کیونکہ اس نے پسند کی شادی کی تھی۔ قانون کے محافظ پولیس اہلکار یہ مناظر تماشائی بنے دیکھتے رہے، کیونکہ ان کی نظر میں ماں لڑکی کے ساتھ جو کر رہی تھی، وہ درست تھا۔
اس سلسلے میں چند اہم سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اول، پاکستان میں قانون کی عملداری کیوں نہیں ہے؟ دوئم، وہ عناصر جو عورتوں کے استحصال اور ان کی بدترین تذلیل کے ذمے دار ہیں، انھیں سزا کیوں نہیں ملتی؟ یہ سوالات اپنی جگہ، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ بالخصوص حکمران اشرافیہ دہرا نہیں بلکہ تہرا معیار رکھنے والے منافقانہ Mindset کا شکار ہے، جو 68 برس گزرنے کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کر سکی ہے کہ اس ملک کی سمت کیا ہو گی؟ یہاں کیا نظام ہو گا؟ دوراہے پر کھڑی ہے۔
وہ ایک طرف شرعی نظام کے نفاذ کی دعویدار ہے، مگر عصر حاضر کے نظم حکمرانی کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی وہ ان فرسودہ روایات اور اقدار کو جاری رکھنے کی خواہشمند ہے، جن میں موجود پدرشاہی نظام برتری اور بالادستی کا احساس دلانے کا باعث ہے۔ چنانچہ رائج الوقت اینگلو سیکسن قوانین میں اس کی دلچسپی محض واجبی سی ہے۔ اسی لیے ان قوانین میں ترمیم و اضافہ کے ذریعے انھیں مزید بہتر بنانا اس کی ترجیح نہیں ہے۔
دوسری طرف وہ اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ اسلامی قوانین کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کرنے کے لیے قانون سازی کے عمل میں اجتہاد انتہائی ضروری ہے۔ اجتہاد کے بغیر بیشتر قوانین کا نفاذ ان گنت فقہی اور مسلکی مسائل پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سماجی تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ جنرل ضیا کے ناپختہ اور غیر ذمے دارانہ سطحی اقدامات کے نتیجے میں ہوا۔ تیسری طرف وہ قبائلی اور فیوڈل معاشرت سے بھی جڑے رہنا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ نظام اشرافیائی کلچر کو مستحکم بنانے کا باعث ہے۔ اسی نظام کی وجہ سے وہ پارلیمان کے ایوانوں تک پہنچتا ہے۔ اس لیے وہ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں جمہوریت کی باتیں تو کرتا ہے، مگر گھٹی میں پڑی پدرشاہی ذہنیت اسے آمرانہ سوچ کا اسیر بنائے رکھتی ہے۔ اس لیے جمہوریت اور جمہوری نظام کی باتیں محض نمائشی ہوتی ہیں۔
پاکستان میں کئی دہائیوں سے یہ واقعات کسی حد تک اس لیے منظرعام پر آنا شروع ہوئے، کیونکہ سول سوسائٹی کی تنظیمیں کسی حد تک فعال اور ذرایع ابلاغ مستعد ہوئے ہیں۔ مگر نہ سول سوسائٹی میں اتنا دم ہے کہ وہ معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لاسکے اور نہ ذرایع ابلاغ کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کا کوئی ٹھوس اور جامع حل موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ مختصر سے حلقے ملک کے چند شہروں میں پائے جاتے ہیں، جو ہر وقت سیاسی جماعتوں بالخصوص مذہبی تنظیموں کے نشانے پر رہتے ہیں۔
جس کی وجہ سے انھیں کھل کر ان موضوعات پر اظہار خیال کرنے، ان پر کی گئی تحقیق کو منظرعام پر لانے سے گریز کرتے ہوئے زیادہ تر معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ ریاست پر مسلط اشرافیہ کسی بھی طور اس فسطائی کلچر کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، جس کی وجہ سے مختلف امتیازات نے جنم لیا ہے۔ لہٰذا اس قسم کے واقعات منظر عام پر آتو رہے ہیں، مگر ان کے سدباب کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی۔
اس مسئلے کا صرف ایک حل نظر آتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو دیے جانے والے ترقیاتی فنڈ بند کردیے جائیں۔ پورے ملک میں ایک مکمل بااختیارمقامی حکومتی نظام رائج کیا جائے، جو ریاستی انتظام کا تیسرا درجہ یعنی Third tier ہو۔ اس طرح تبدیلی کی راہ ہموار ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ جب تک پاکستان کا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوتا، جمہوریت کے نام پر دہرے معیار رکھنے والی یہی اشرافیہ ہمارے سروں پر مسلط رہے گی۔
ہر شہری کا اسی طرح ذہنی، فکری، معاشی اور سماجی استحصال ہوتا رہے گا۔ ملک میں دنیا کو دکھانے کے لیے اینگلوسیکسن قوانین ضرور نافذ رہیں گے، مگر ان پر ان کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوگا۔ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے اشرافیہ جرگوں اور جہل آمادگی پر مبنی دیگر روایات کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھنے کی کوششیں کرتی رہے گی۔ لہٰذا معاشرہ مختلف نوعیت کے امتیازات کا اسی طرح شکار رہے گا۔ غریب انصاف کے لیے یونہی دربدر ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔
معروف شاعر خلیل جبران نے قانون کے بارے میں نے کہا تھا کہ Law is like a sand house build by the childern near the sea shore with great enthusiasm and distroyed in a laughter ۔ اس لیے قانون بااثر اشرافیہ کے ہاتھوں کھلونا بنا یونہی بے بس و لاچار رہے گا۔