کمیونزم کا وقت دوبارہ آن پہنچا

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آج دنیا بدترین سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کا شکار ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

امریکی ذرایع ابلاغ کے مطابق امریکی کمیونسٹ پارٹی نے عالمی اقتصادی بحران اور سرد بازاری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارکسسٹ لینن ازم کا دور پھر سے آ گیا ہے۔ امریکا کی کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار نے لکھا ہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی بحران کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے اور اب دنیا کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارا وقت دوبارہ آ پہنچا ہے۔

اس وقت دنیا بھر کے عوام ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ انھوں نے جو خاص بات کہی وہ یہ ہے کہ امریکی کمیونسٹ پہلی بار دفاعی پوزیشن سے باہر آ گئے ہیں ورنہ اس سے پہلے کمیونزم اور سوشلزم کا نام لینے والوں کو غدار سمجھا جاتا اور ان سے ویسا ہی سلوک کیا جاتا تھا۔ خاص طور پر سرد جنگ کے دور میں' لیکن جب سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا تو حالات میں بھی کچھ بہتری آئی۔ اب تو کیوبا سے بھی جہاں روسی میزائل نصب تھے، طویل مدت کے بعد امریکا کی دوستی ہو گئی ہے۔

بدلتے ہوئے حالات اور سرمایہ داری نظام کی انسان دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چالیس فیصد سے زائد امریکی شہریوں نے یوم مئی کے موقع پر ایک سروے میں مزدور دشمن کساد بازاری اور سرمایہ دارانہ نظام کو بدترین قرار دیا۔ سروے کے مطابق صرف ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے 32 فیصد افراد سوشلزم کے حامی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ اور خون آشامی کے نتیجے میں روس میں سوشلزم نے بیسویں صدی کے آغاز میں جنم لیا۔ کسان مزدور اس تحریک کا ہر اول دستہ تھے۔ جب مزدور انتہائی کم معاوضے پر بیس گھنٹے تک کام کرنے پر مجبور تھے۔ مزدوروں کی حیثیت حیوان سے بھی کم تھی۔ ہر طرح کی سہولت سے محروم مزدوروں کے لیے فیکٹریاں ایک جیل خانہ تھیں۔

منہ اندھیرے وہ اپنی کام جگہوں پر داخل ہوتے اور اسوقت انھیں چھٹی ملتی جب ان کے جسم نیند کی شدت سے ٹوٹ رہے ہوتے، معذور ہو جاتے۔ حال ہی میں یوم مئی گزرا ہے۔ اس حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ آج تمام مزدور کسان محنت کش جو صرف آٹھ گھنٹے کام کر رہے ہیں وہ ان لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے مزدوروں کے اوقات کار کو سہل بنانے کے لیے اذیت ناک قربانیاں دیں جس میں گولیوں کی بوچھاڑ، بم دھماکے اور پھانسی گھاٹ شامل ہیں۔ سو سال کی جدوجہد نے، جس کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا، آخر کار مزدوروں کو غلاموں کی صف سے نکال کر انسانوں کی صف میں شامل کر دیا۔ آج ہر طرح کی حاصل کردہ آزادیاں چاہے وہ معاشی ہوں یا سیاسی یا سماجی ہزاروں سال کی جدوجہد اور کروڑوں انسانوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔


سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک سوشلزم کی شکل میں نہ صرف روس میں بلکہ دنیا کے بڑے حصے میں کامیاب ہوئی یہاں تک کہ لاطینی امریکا، مشرق وسطیٰ، مشرق بعید اور برصغیر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے، جس کا تیسری دنیا کے وسائل پر قبضہ تھا، اپنی سازشوں کے ذریعے سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سوشلزم کو ناکام بنا دیا۔ اس نظام کو ناکام بنا دیا جس میں دنیا کی بہت بڑی آبادی کو رہائش، خوراک، صحت، تعلیم کی سہولت یا تو مفت نہیں تو ارزاں نرخوں پر دستیاب تھی۔ ہر شخص کو اس کی اہلیت کے مطابق روز گار دستیاب تھا۔ خطرہ اس وقت پیدا ہوا جب یہ سوال اٹھا کہ یورپ کی باقی آبادی بھی ان سہولتوں کو دیکھ کر کہیں سوشلزم کو نہ اپنا لے۔ سکینڈے نیویا، جرمنی، برطانیہ وغیرہ میں سوشل ویلفیئر نظام متعارف کرایا گیا۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آج دنیا بدترین سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کا شکار ہے جس کے نتیجے میں آج دنیا کی پانچ ارب سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے یا خط غربت سے ذرا اوپر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انسانوں کا جینا محال ہو گیا ہے، گویا صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔ پاکستان کے حالات بھی بہت خراب ہو گئے ہیں کیونکہ یہاں سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔

قلیل ترین معاوضے یعنی آٹھ سے دس ہزار روپے ماہانہ معاوضے پر بارہ سے چودہ گھنٹے کام لیا جا رہا ہے۔ آج کے مزدور غلام بن چکے ہیں۔ کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ اس میں خواتین بھی شامل ہیں۔ کئی جگہوں پر چھٹی کی سہولت نہیں۔ چھٹی کرنے کی صورت میں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے بے پناہ استحصال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کے صرف تین امیر آدمی جن کا تعلق امریکا یورپ سے ہے 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اکیلے 62 امیر لوگوں کے پاس آدھی دنیا کے برابر دولت ہو۔

امریکی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ نے انسانوں کے بدترین استحصال کے نتیجے میں کہا کہ ہمارا وقت دوبارہ آ پہنچا ہے اور دنیا بھر کے عوام ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ امریکی کمیونسٹ پہلی بار دفاعی پوزیشن سے باہر آ گئے ہیں۔ ہم اپنی دنیا تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی دنیا ہو گی جو چند افراد کے فائدے اور خوشی کے بجائے معاشرے کے تمام طبقات کے لیے آسودگی اور راحتیں لے کر آئے گی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ نوجوانوں کے اہم مسائل مثلاً امن، تعلیم، صحت اور روز گار ہیں اور ہم یہ سب فراہم کر سکتے ہیں۔

اکتوبر میں ایک بڑے فیصلے پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔
Load Next Story