سیکولرازم کی فتح
کسی مسلمان کا مسیحی برطانیہ کے دارالحکومت، لندن، کا لارڈ مئیر منتخب ہو جانا ایک عظیم المرتبت واقعہ ہے
KARACHI:
کسی مسلمان کا مسیحی برطانیہ کے دارالحکومت، لندن، کا لارڈ مئیر منتخب ہو جانا ایک عظیم المرتبت واقعہ ہے۔ جناب صادق خان، جو پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان ہیں، اپنے یہودی حریف (زیک گولڈ اسمتھ) کو شکست دے کر فتح یاب ہوئے ہیں تو عمومی طور پر دنیا بھر کے اور خصوصی طور پر پاکستانی مسلمانوں کو دلی مسرت محسوس ہو رہی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کا ارب پتی زیک گولڈ اسمتھ ایک بس ڈرائیور کے بیٹے سے ہار گیا ہے۔ لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان نے ہمیشہ اپنے محنتی اور دیانتدار بس ڈرائیور والد صاحب پر فخر کا اظہار کیا ہے۔
صادق خان کی شکل میں چھیاسی لاکھ آبادی کے شہر، لندن، کا لارڈ مئیر منتخب ہونا برطانوی مسلمانوں کے لیے بجا طور پر بہت بڑی خوشی اور کامیابی ہے۔ یہ کامیابی فی الحقیقت سیکولرازم کی فتح ہے۔ صادق خان صاحب کی کامیابی جہاں سیکولرازم کی فتح ہے، وہیں یہ رواداری کی بھی عظیم کامرانی ہے۔ لندن کے سماجی تنوع اور معاشی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں تین سو زبانیں بولی جاتی ہیں اور اس شہر کا سالانہ بجٹ پاکستان کے کُل بجٹ سے زیادہ ہے۔
لندن کے سیکولر یعنی غیر مذہبی عوام نے ایک غیر مسلم کے بجائے ایک مسلمان اور ایک امیر زادے کے بجائے ایک غریب زادے کو اپنا لیڈر چُنا ہے۔ اور لیجیے جاتے جاتے ترک وزیرِاعظم جناب داؤد اوغلو (جو اب مستعفی ہو گئے ہیں) نے غیر مبہم الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ترکی کا آئین سیکولر ہی رہے گا۔ ہمارے ہاں جو لوگ جناب طیب اردوان اور داؤد اوغلو صاحب سے یہ توقعات وابستہ کیے بیٹھے تھے کہ مذہب سے محبت رکھنے والے یہ ترک حکمران زیادہ ووٹوں سے جیت کر اقتدار میں آتے ہی ترکی کے آئین کو سیکولرازم کی ''لعنتوں اور نجاستوں'' سے صاف کرتے ہوئے اسے مذہبی لبادہ اوڑھا دیں گے، اس تازہ اعلان سے انھیں یقینا مایوسی ہوئی ہو گی۔ داؤد اوغلو کو یہ اعلان خصوصی طور پر اس لیے کرنا پڑا کہ ان کے پارلیمانی اسپیکر، اسماعیل خرامان، نے کہیں کہہ دیا تھا کہ ترکی کے آئین میں شامل سیکولر شقوں کو ختم کر دینا چاہیے۔
پاکستان میں ''سیکولرازم'' کے لفظ کو دانستہ الحاد کے مساوی قرار دینے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور یہ کوششیں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں؛ چنانچہ مشاہدے میں آیا ہے کہ سیکولرازم کے حق میں اٹھنے والی آوازیں دب کر رہ گئی ہیں۔ میرے کئی ایسے صحافی اور دانشور دوست ہیں جو کسی اخبار یا جریدے میں شایع ہونے والی کسی ''معتدل'' تحریر کی نشاندہی کرتے ہوئے خصوص طور پر فون کرتے ہیں: ''یار دیکھو، یہ دن بھی دیکھنا تھا۔
ایسی سیکولر تحریروں نے ہی تو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کی ہیں۔'' ہم سب مگر جانتے ہیں کہ ہماری جڑیں اتنی اُتھلی ہیں نہ کمزور کہ کسی تحریر سے یہ اکھڑ جائیں یا انھیں کھوکھلا کر دیا جائے۔ اگست 2010ء کے دوسرے ہفتے سابق چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: ''پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات دینے سے ملک سیکولرازم کی طرف جا سکتا ہے۔'' یہ حیرت انگیز بیان تھا۔ کوئی چار سال قبل ہمارے عالم فاضل دوست، شاعر، محقق اور ممتاز نقاد پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے لاہور سے ادب اور نظریاتی سیاست کے موضوعات پر ایک نئے ششماہی کتابی سلسلے کا اجراء کیا اور اسے ''مباحث'' کا نام دیا۔
اس جریدے کا پہلا شمارہ تقریباً ساڑھے پانچ سو صفحات کو محیط تھا۔ تحریریں وقیع اور زیادہ تر لکھنے والے معتبر۔ بھارت سے شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر حنیف فوق اور ڈاکٹر ابوالقاسمی ایسے اساتذہ اور اسکالرز کی تحریریں بھی ''مباحث'' کے اولین شمارے میں شامل تھیں۔ ہمارے ایک ادب نواز دوست جناب امجد طفیل نے ''مباحث'' میں شامل پاکستان کے تشخص پر اپنے آرٹیکل میں سیکولرازم کی خوب دھنائی بھی کی اور سیکولرازم کے حامیوں کو دل کھول کر لتاڑا بھی۔ برادرم امجد طفیل کی غیر محتاط اور جذباتی تحریر پڑھ کر ہمیں تو حیرتوں نے آ دبوچا۔
مولانا وحید الدین خان اپنی تصنیف ''مسائلِ اجتہاد'' میں لکھتے ہیں: ''حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں۔ سیکولرازم کا مطلب لامذہبیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں غیر جانب دارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے۔ یہ ایک عملی تدبیر ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کا نظام چلایا جائے۔'' اسلام، سیرتِ رسولؐ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر درجنوں کتابیں تحریر کرنے اور منفرد انداز میں تفسیرِ قرآن لکھنے والے جناب مولانا وحید الدین خان صاحب نے سیکولرازم کی جو تعریف (Defenition) کی ہے، اسے نہ تو نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے صرفِ نظر کیا جانا چاہیے۔ گزارش مگر یہ ہے کہ ہمیں ڈانگ مارنے سے پرہیز کرتے ہوئے تحمل سے دوسرے کا نقطۂ نظر بھی سننے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔
دیکھا گیا ہے کہ ہماری مذہبی جماعتیں اور مذہبی قیادت بالعموم سیکولرازم اور لبرل ازم کے بارے میں ناپسندیدگی ہی کا اظہار کرتی ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے لبرل ازم کے حق میں ایک بے ضرر سا بیان دیا تھا تو بعض مذہبی قوتیں ان کے خلاف بیان بازی کرنی لگی تھیں۔ سیکولرازم کے خلاف آئے روز مذہبی شخصیات کی شعلہ بیانیاں دیکھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ یہ بیانات ان کے چاہنے والوں کے دلوں کو گرماتے اور برماتے بھی ہیں۔ مَیں نے برطانیہ، کینیڈا اور امریکا میں خصوصی طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ ہماری ان مذہبی جماعتوں کی شاخوں اور ہمارے ان معزز و مکرم علمائے کرام کو وہاں کام کرنے، تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھنے اور تقریریں کرنے کی جو بھرپور آزادیاں ملتی ہیں اور ملی ہوئی ہیں، وہ محض مغرب کی سیکولر ازم کی مہربانی ہے۔
یہ بات مگر بڑی حیرت خیز ہے کہ وطنِ عزیز کے بعض مذہبی رہبرورہنما جو سیکولرازم کو شجرِ ممنوعہ قرار دیتے ہیں، بھارت میں انھی کے ہم نظریہ بزرگ حضرات سیکولرازم کو بھارتی مسلمانوں کے لیے انتہائی ناگزیر اور ضروری گردانتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے قبلہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہمیشہ سیکولرازم کے بارے میں نفرت و بے زاری کا اظہار فرماتے ہیں مگر بھارت میں آنجناب کے بزرگ مولانا سید ارشد مدنی صاحب سیکولرازم کو جی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
مولانا سید ارشد مدنی صاحب جمعیت علمائے ہند کے صدر اور دیوبندی مکتبِ فکر کے مرکزی رہنما ہیں۔ ان کی زیرِصدارت 12 مارچ 2016ء کو دہلی کے اندرا گاندھی اندور اسٹیڈیم میں ایک بھرپور ''قومی یکجہتی'' کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ کانفرنس کے انعقاد سے دو روز قبل حضرت مولانا مدنی صاحب نے دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خصوصی طور پر ارشاد فرمایا تھا کہ اس کانفرنس میں بھارت بھر کی ممتاز سیکولر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ ہزاروں افراد نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
میرے سامنے بھارت کے معروف اخبار ''ہندوستان ایکسپریس'' کا تیرہ اپریل 2016ء بروز اتوار کا شمارہ پڑا ہے۔ اس کے صفحہ اول پر جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی جلسے سمیت تین کالمی رنگین تصویر شایع ہوئی ہے اور اخبار کے پانچ کالموں کو محیط حضرت مولانا ارشد مدنی کا بیان ان الفاظ میں شایع ہوا نظر آ رہا ہے: ''ہم خون کے آخری قطرے تک سیکولرازم اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔'' ہم اس پر کیا تبصرہ کریں؟ لیکن دست بستہ ادب کے ساتھ استفسار کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہمارے بعض مذہبی رہنماؤں کے نزدیک سیکولرازم پاکستان میں حرام ہے تو یہ بھارت میں کیسے حلال ہو گیا؟
کسی مسلمان کا مسیحی برطانیہ کے دارالحکومت، لندن، کا لارڈ مئیر منتخب ہو جانا ایک عظیم المرتبت واقعہ ہے۔ جناب صادق خان، جو پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان ہیں، اپنے یہودی حریف (زیک گولڈ اسمتھ) کو شکست دے کر فتح یاب ہوئے ہیں تو عمومی طور پر دنیا بھر کے اور خصوصی طور پر پاکستانی مسلمانوں کو دلی مسرت محسوس ہو رہی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کا ارب پتی زیک گولڈ اسمتھ ایک بس ڈرائیور کے بیٹے سے ہار گیا ہے۔ لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان نے ہمیشہ اپنے محنتی اور دیانتدار بس ڈرائیور والد صاحب پر فخر کا اظہار کیا ہے۔
صادق خان کی شکل میں چھیاسی لاکھ آبادی کے شہر، لندن، کا لارڈ مئیر منتخب ہونا برطانوی مسلمانوں کے لیے بجا طور پر بہت بڑی خوشی اور کامیابی ہے۔ یہ کامیابی فی الحقیقت سیکولرازم کی فتح ہے۔ صادق خان صاحب کی کامیابی جہاں سیکولرازم کی فتح ہے، وہیں یہ رواداری کی بھی عظیم کامرانی ہے۔ لندن کے سماجی تنوع اور معاشی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں تین سو زبانیں بولی جاتی ہیں اور اس شہر کا سالانہ بجٹ پاکستان کے کُل بجٹ سے زیادہ ہے۔
لندن کے سیکولر یعنی غیر مذہبی عوام نے ایک غیر مسلم کے بجائے ایک مسلمان اور ایک امیر زادے کے بجائے ایک غریب زادے کو اپنا لیڈر چُنا ہے۔ اور لیجیے جاتے جاتے ترک وزیرِاعظم جناب داؤد اوغلو (جو اب مستعفی ہو گئے ہیں) نے غیر مبہم الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ترکی کا آئین سیکولر ہی رہے گا۔ ہمارے ہاں جو لوگ جناب طیب اردوان اور داؤد اوغلو صاحب سے یہ توقعات وابستہ کیے بیٹھے تھے کہ مذہب سے محبت رکھنے والے یہ ترک حکمران زیادہ ووٹوں سے جیت کر اقتدار میں آتے ہی ترکی کے آئین کو سیکولرازم کی ''لعنتوں اور نجاستوں'' سے صاف کرتے ہوئے اسے مذہبی لبادہ اوڑھا دیں گے، اس تازہ اعلان سے انھیں یقینا مایوسی ہوئی ہو گی۔ داؤد اوغلو کو یہ اعلان خصوصی طور پر اس لیے کرنا پڑا کہ ان کے پارلیمانی اسپیکر، اسماعیل خرامان، نے کہیں کہہ دیا تھا کہ ترکی کے آئین میں شامل سیکولر شقوں کو ختم کر دینا چاہیے۔
پاکستان میں ''سیکولرازم'' کے لفظ کو دانستہ الحاد کے مساوی قرار دینے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور یہ کوششیں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں؛ چنانچہ مشاہدے میں آیا ہے کہ سیکولرازم کے حق میں اٹھنے والی آوازیں دب کر رہ گئی ہیں۔ میرے کئی ایسے صحافی اور دانشور دوست ہیں جو کسی اخبار یا جریدے میں شایع ہونے والی کسی ''معتدل'' تحریر کی نشاندہی کرتے ہوئے خصوص طور پر فون کرتے ہیں: ''یار دیکھو، یہ دن بھی دیکھنا تھا۔
ایسی سیکولر تحریروں نے ہی تو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کی ہیں۔'' ہم سب مگر جانتے ہیں کہ ہماری جڑیں اتنی اُتھلی ہیں نہ کمزور کہ کسی تحریر سے یہ اکھڑ جائیں یا انھیں کھوکھلا کر دیا جائے۔ اگست 2010ء کے دوسرے ہفتے سابق چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: ''پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات دینے سے ملک سیکولرازم کی طرف جا سکتا ہے۔'' یہ حیرت انگیز بیان تھا۔ کوئی چار سال قبل ہمارے عالم فاضل دوست، شاعر، محقق اور ممتاز نقاد پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے لاہور سے ادب اور نظریاتی سیاست کے موضوعات پر ایک نئے ششماہی کتابی سلسلے کا اجراء کیا اور اسے ''مباحث'' کا نام دیا۔
اس جریدے کا پہلا شمارہ تقریباً ساڑھے پانچ سو صفحات کو محیط تھا۔ تحریریں وقیع اور زیادہ تر لکھنے والے معتبر۔ بھارت سے شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر حنیف فوق اور ڈاکٹر ابوالقاسمی ایسے اساتذہ اور اسکالرز کی تحریریں بھی ''مباحث'' کے اولین شمارے میں شامل تھیں۔ ہمارے ایک ادب نواز دوست جناب امجد طفیل نے ''مباحث'' میں شامل پاکستان کے تشخص پر اپنے آرٹیکل میں سیکولرازم کی خوب دھنائی بھی کی اور سیکولرازم کے حامیوں کو دل کھول کر لتاڑا بھی۔ برادرم امجد طفیل کی غیر محتاط اور جذباتی تحریر پڑھ کر ہمیں تو حیرتوں نے آ دبوچا۔
مولانا وحید الدین خان اپنی تصنیف ''مسائلِ اجتہاد'' میں لکھتے ہیں: ''حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں۔ سیکولرازم کا مطلب لامذہبیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں غیر جانب دارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے۔ یہ ایک عملی تدبیر ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کا نظام چلایا جائے۔'' اسلام، سیرتِ رسولؐ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر درجنوں کتابیں تحریر کرنے اور منفرد انداز میں تفسیرِ قرآن لکھنے والے جناب مولانا وحید الدین خان صاحب نے سیکولرازم کی جو تعریف (Defenition) کی ہے، اسے نہ تو نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے صرفِ نظر کیا جانا چاہیے۔ گزارش مگر یہ ہے کہ ہمیں ڈانگ مارنے سے پرہیز کرتے ہوئے تحمل سے دوسرے کا نقطۂ نظر بھی سننے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔
دیکھا گیا ہے کہ ہماری مذہبی جماعتیں اور مذہبی قیادت بالعموم سیکولرازم اور لبرل ازم کے بارے میں ناپسندیدگی ہی کا اظہار کرتی ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے لبرل ازم کے حق میں ایک بے ضرر سا بیان دیا تھا تو بعض مذہبی قوتیں ان کے خلاف بیان بازی کرنی لگی تھیں۔ سیکولرازم کے خلاف آئے روز مذہبی شخصیات کی شعلہ بیانیاں دیکھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ یہ بیانات ان کے چاہنے والوں کے دلوں کو گرماتے اور برماتے بھی ہیں۔ مَیں نے برطانیہ، کینیڈا اور امریکا میں خصوصی طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ ہماری ان مذہبی جماعتوں کی شاخوں اور ہمارے ان معزز و مکرم علمائے کرام کو وہاں کام کرنے، تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھنے اور تقریریں کرنے کی جو بھرپور آزادیاں ملتی ہیں اور ملی ہوئی ہیں، وہ محض مغرب کی سیکولر ازم کی مہربانی ہے۔
یہ بات مگر بڑی حیرت خیز ہے کہ وطنِ عزیز کے بعض مذہبی رہبرورہنما جو سیکولرازم کو شجرِ ممنوعہ قرار دیتے ہیں، بھارت میں انھی کے ہم نظریہ بزرگ حضرات سیکولرازم کو بھارتی مسلمانوں کے لیے انتہائی ناگزیر اور ضروری گردانتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے قبلہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہمیشہ سیکولرازم کے بارے میں نفرت و بے زاری کا اظہار فرماتے ہیں مگر بھارت میں آنجناب کے بزرگ مولانا سید ارشد مدنی صاحب سیکولرازم کو جی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
مولانا سید ارشد مدنی صاحب جمعیت علمائے ہند کے صدر اور دیوبندی مکتبِ فکر کے مرکزی رہنما ہیں۔ ان کی زیرِصدارت 12 مارچ 2016ء کو دہلی کے اندرا گاندھی اندور اسٹیڈیم میں ایک بھرپور ''قومی یکجہتی'' کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ کانفرنس کے انعقاد سے دو روز قبل حضرت مولانا مدنی صاحب نے دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خصوصی طور پر ارشاد فرمایا تھا کہ اس کانفرنس میں بھارت بھر کی ممتاز سیکولر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ ہزاروں افراد نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
میرے سامنے بھارت کے معروف اخبار ''ہندوستان ایکسپریس'' کا تیرہ اپریل 2016ء بروز اتوار کا شمارہ پڑا ہے۔ اس کے صفحہ اول پر جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی جلسے سمیت تین کالمی رنگین تصویر شایع ہوئی ہے اور اخبار کے پانچ کالموں کو محیط حضرت مولانا ارشد مدنی کا بیان ان الفاظ میں شایع ہوا نظر آ رہا ہے: ''ہم خون کے آخری قطرے تک سیکولرازم اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔'' ہم اس پر کیا تبصرہ کریں؟ لیکن دست بستہ ادب کے ساتھ استفسار کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہمارے بعض مذہبی رہنماؤں کے نزدیک سیکولرازم پاکستان میں حرام ہے تو یہ بھارت میں کیسے حلال ہو گیا؟