انگلیاں فگار اپنی

ہم سب شاید بھول گئے کہ خوشیاں کیا ہوتی ہیں، سکون کس کو کہتے ہیں

پھول مہکنا، چڑیاں چہکنا بھول گئیں شاید، جب ہی تو اتنا غبار ہے ہر سمت، سماعتیں خوبصورت آواز کے لیے اور نگاہیں نظاروں کے لیے ترس گئیں۔ ٹی وی کی چھوٹی سی اسکرین پر بڑے بڑے خونچکاں مناظر نظر آتے ہیں، ملکی حالات سے باخبر رہنے کے لیے اور چلتی پھرتی تصاویر سے جان چھڑانے کے لیے اخبار اٹھاتے ہیں تو وہاں وہی خبریں پیچھا کرتی ہیں، بلکہ کابوس بن کر اعصاب پر سوار ہوجا تی ہیں۔

ہم سب شاید بھول گئے کہ خوشیاں کیا ہوتی ہیں، سکون کس کو کہتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک خواب تھا وہ زمانہ، جب گھر کی دہلیز پر سب زندہ سلامت آجاتے تھے۔ اب گیٹ کی گھنٹی ہو یا فون کی، اندیشوں میں مبتلا کردیتی ہے، کوئی بڑی سی ہائی روف سامنے آکر رک جائے تو، کار سے اترنے والے لوگوں کو زندہ سلامت دیکھ کر سجدہ شکر ادا کرتے ہیں اور اخبار کی سرخی یہ بن جاتی ہے کہ آج شہر میں کیا، ملک بھر میں کوئی قتل نہیں ہوا، کوئی دہشت گردی نہیں ہوئی۔ پتہ نہیں یہ چینل والے ظلم و بربریت کی داستانیں، جرائم کے مناظر کیوں دکھاتے ہیں؟ شاید معاشرے کے سدھار کے لیے۔ مگر آج ہم جس سوسائٹی میں زندہ ہیں وہ اک دلدل ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ ہم بغیر بولے، بغیر چیخے، بغیر ہاتھ پاؤں مارے، اپنے رب سے مغفرت اور سلامتی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

جب سیاحت کے حوالے سے بڑے خوبصورت وطن کے دلنواز منظر نظر آتے ہیں تو آنکھ سے آنسو اتر کر ان آبشاروں میں جذب ہوجاتے ہیں جن کے وجود نے اس دھرتی کو حسین بنادیا ہے اور اعتماد سے ایستادہ پہاڑوں، کوہساروں پر جب نظر پڑتی ہے تو قوت ارادی بڑھنے لگتی ہے۔ اس پاک دھرتی کی وادیاں، گھاٹیاں، سمندر، دریا، جھیلیں، جنگل، پگڈنڈیاں اور جب ان گنت رنگوں کے دلفریب پھولوں پر نظر پڑتی ہے تو دل لمحے بھر کو سوچتا ہے، سب کچھ تو یہاں ہے، کمال فطرت بھی، جمال قدرت بھی، حفاظت کے لیے ایٹمی قوت بھی، گلیوں سڑکوں پر اپنے فرائض میں مگن قانون کے محافظ بھی، گھر کی چار دیواریاں بھی، شکایتی مراکز بھی، بڑے بڑے اسپتال بھی، ڈسپنریاں بھی (یہ علیحدہ بات کہ ان تک رسائی صرف انھی کی ہے جن کے پاس دولت کے انبار ہیں) تو پھر ان سب نعمتوں کے باوجود ہم اتنے غیر محفوظ اور بے سکون کیوں ہیں؟

مسجدیں نمازیوں سے بھری پڑی ہیں، مدرسوں میں بچے قرآن پڑھ رہے ہیں، حمدوثنا، نعتوں کا زور ہے، خاص طور پر رمضان کا تو نظارہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ تو پھر اس کا اجر کیوں نہیں ملتا اس قوم کو؟ شاید اس لیے کہ ایمان کی حرارت والے مسجد تو پل بھر میں بنارہے ہیں مگر اس ایمان اور چور بازاری کو کون سا نام دیں گے جس نے ہم پاکستانیوں کے سر ساری دنیا میں شرم سے جھکادیے ہیں، جو دن رات اپنے حکمرانوں پر انگلی اٹھاتے ہیں، ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو ہم وڈیرہ، جاگیردار کہتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کی نجی جیلیں ہیں، جہاں غریب ہاری اور کسان بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ خود اپنے گریباں میں بھی ذرا دیر کو جھانک لیں، خود اپنے عوام کا محاسبہ کرلیں تو اوسط ایمانداری کا کیا نکلے گا؟

ہم کو دوسروں کے بخیے ادھیڑتے زمانے گزر گئے کہ رفوگری تو ہم جانتے ہی نہیں، ہم تو ایک ایسے نبی کی امت ہیں جن کی زندگی کروڑوں چراغوں سے زیادہ روشن تھی، تو پھر آج انھی امتیوں کے درمیان میں اندھیرا کیوں؟ لفظ ختم ہوگئے، سیاہی خشک ہوگئی، صفحات بھرگئے لکھتے لکھتے، آنکھیں پتھرا گئیں خونچکاں تصاویر دیکھتے دیکھتے، انگلیاں فگار ہوگئیں، خامہ لہو بن کر بہہ گیا، مگر ہم ہیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔


انصاف کے طلبگار ہیں اور خود ناانصافی کررہے ہیں۔ تو پھر ایسے میں کس سے رہبری طلب کریں۔ تمام مملکتوں کا مالک تو ایک ہے اور ہم اس کے احکامات سے بہت دور اپنی ہی موج نہا رہے ہیں۔ بس اب بہت ہوچکا، نہ کوئی امنگ رہی، نہ کوئی ترنگ رہی، ہر سوال کا جواب صفر ہے، اور ہر جواب بے نتیجہ۔

اب آج کل کے حالات کو ہی دیکھ لیجیے، سوائے پانامہ لیکس کے کوئی موضوع نہیں، کوئی نہیں جانتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، بجز محاذآرائی کے کچھ نہیں۔ ایک مہذب اور شائستہ معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ سلیقہ اور آداب اور اخلاقی اقدار تو جیسے مٹتی جارہی ہیں، دشنام طرازی، گالم گلوچ ہمارے کلچر کی پہچان بن گئی ہے۔ پہلے تو جاہلوں کے درمیان غریب مہذب زبان سننے کو ملتی تھی یا گلیوں، بازاروں میں، مگر اب ایوانوں میں بیٹھے ہوئے معزز پارلیمنٹیرین اور وزرا کی گفتگو بھی ایسی نہیں رہی جسے فیملی کے ساتھ سنا جائے۔ وہی پارلیمنٹ جو بقول شخصے مقدس اور بالاتر ہے۔

جب یہ معزز حضرات غیر شائستگی کا مظاہرہ کریں گے تو اس کا اثر نئی نسل پر کیا پڑے گا؟ شاید اسی لیے اپنی انرجی کو ضایع نہ کیجیے اور سماجی بہبود کے کاموں میں دل لگائیے۔ اگر آپ کا وزیراعظم 52 گاڑیوں کے قافلے کو لے کر ہائی پروٹوکول کے ساتھ گزرتا ہے تو کڑھنے کے بجائے فخر کیجیے کہ ایک غریب ملک کا شہری ہونے کے باوجود مملکت کا سربراہ کس شان و شو کت سے گزرتا ہے۔ یہ سب کچھ وہ ہوتا ہے جسے امریکا جیسا ملک بھی افورڈ نہیں کرسکتا ۔

ہم ایک دوسرے کو بیوقوف بنانے کے علاوہ ایک اور کام بھی کرتے ہیں عقلمندی کا، کہ اسلام کو مضبوط قلعہ بنانے کے بجائے کمیشن بنادیتے ہیں، کمیٹیاں تو غریب ڈالتے ہیں مگر صاحب اقتدار کمیٹیاں بناتے ہیں۔ پھر صدیاں گزر جاتی ہیں، وقت پرورش کرتا ہے برسوں، پھر اچانک ایک حادثہ منہ پھاڑے سامنے آجاتا ہے ۔

دنیا کے وسیع نقشے پر دمکنے، چمکنے والا میرا پاکستان ایک سوالیہ نشان ہے اور پوچھ رہا ہے اپنے ہی بسنے والوں سے کہ میں ایسا تو نہیں تھا، تم نے مجھے ایساکون سا زہر پلادیا جسے پینے کے باوجود بھی میں پھر بھی زندہ ہوں۔ غالباً اس امید پر کہ شاید تم لوگوں کا ضمیر زندہ ہوجائے۔
Load Next Story