تین طرفہ شور
ایک طرف سے شور ہو تو انسان الجھن محسوس کرنے لگتا ہے۔ دو طرفہ شور ہو تو بیزاری ہوتی ہے
ایک طرف سے شور ہو تو انسان الجھن محسوس کرنے لگتا ہے۔ دو طرفہ شور ہو تو بیزاری ہوتی ہے اور اگر تین طرفہ شور ہو تو؟ شاید کہ انسان پاگل ہوجائے۔ پانامہ لیکس نے بین الاقوامی سیاست میں شور شرابہ پیدا کردیا۔ چین و عرب کے حکمرانوں سے لے کر ہندوستان کے امیتابھ بچن کے علاوہ روس و برطانیہ کے سربراہان اور ہمارے وزیر اعظم کی تین اولاد۔ آئس لینڈ جیسے چھوٹے ملک کے حکمران کے استعفے سے حکمرانوں نے خود کو دباؤ میں محسوس کیا۔ یہ دباؤوہاں وہاں محسوس کیا گیا جہاں جہاں جمہوریت تھی۔ آمریت اور بادشاہت والے ممالک کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ پاکستان کا انداز مختلف ہے۔ یہاں کا شور مسلم لیگ اور اپوزیشن نے ڈالا ہوا ہے اور یہی تین طرفہ شور ہمارے آج کے کالم کا موضوع ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب نے اس معاملے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اپوزیشن نے محسوس کیا کہ حکومت گھیرے میں آگئی ہے۔ اسلام آباد کے طاقتور لوگ گھیرے میں آنے سے گھبرا گئے۔ لندن یاترا اور وہاں بدن بولی سے یوں لگنے لگا دال میں کچھ کالا ہے۔ وزیراعظم پر براہ راست الزام نہ ہونے سے کچھ بچت تھی لیکن تینوں بچوں کے متضاد بیانات نے سوشل میڈیا کو موقع دے دیا۔ اس دفاعی پوزیشن سے نکلنے کے لیے حکمران پارٹی کے درجن بھر لوگ میدان میں آگئے۔ انھوں نے شوکت خانم اسپتال پر حملے کیے اور جب بلاول میدان میں آئے تو انھیں بچہ کہہ کر ان کے والد پر تنقید کی گئی۔
اپوزیشن سوالات اٹھاتی رہی کہ اربوں روپوں کی آمدنی کس طرح ہوئی؟ اس پر ٹیکس کتنا ادا کیا گیا؟ رقم باہر کس طرح گئی؟ کیا اس دولت کا تذکرہ انتخابی فارم میں ہے؟ حکمران طبقہ ان سوالات کے جوابات دینے کے بجائے اپوزیشن پر الزام تراشی کرتا رہا۔ اخبارات کے صفحات اور ٹی وی چینلز کے مباحثے حکمرانوں اور اپوزیشن کے اس شور شرابے سے پر ہیں۔ ایسے میں لطیفے سنائے گئے کہ ایک آدمی دیوار بنانے کے لیے اوپر چڑھا ہوا تھا۔ نیچے کھڑے آدمی نے کہا کہ دیوار ٹیڑھی بن رہی ہے۔ دیوار بنانے والے نے آواز لگائی کہ ''جاجا اور اپنا کام کر۔ تیرا چاچا بھی تو نشہ کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔'' یوں الزامات در الزامات کے شور میں پاکستان کے عوام اپنی جگہ قائم رہے۔ وہ بالکل ہل کر نہ دیے۔ تمام تر گھبراہٹ میں مسلم لیگ کے لیے یہ بات حوصلہ افزا رہی کہ ان کے حامیوں کی اکثریت شریف خاندان کا دفاع کرتی رہی۔
مسلم لیگ (ن) کے حامی نواز شریف کی حمایت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ کابینہ کے ارکان اور ٹی وی پر آنے والوں کا کوئی مفاد ہوسکتا ہے لیکن لیگ کے حامی عوام بے غرضی سے نواز شریف کا دفاع کرتے رہے۔ ''یہ امریکا کی سازش ہوسکتی ہے، کون چور نہیں ہے۔ یہاں سب چور ہیں۔ یہ بھارت کی کارستانی ہے جو چین کے ساتھ راہداری قائم نہیں ہونے دے رہا، اس طرح تو سرمایہ کار بھاگ جائیں گے جو بے شمار لوگوں کو روزگار دیتے ہیں۔'' اس شور شرابے میں عمران خان جلسوں سے خطاب کر رہے تھے تو دوسری طرف سے ایک انوکھی آواز گونجی۔ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ مطالبہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کیا گیا۔ اعتزاز احسن کی آواز کو توانائی ملی۔ خورشید شاہ اور قمر الزماں کائرہ نے چیئرمین کی ہاں میں ہاں ملائی۔ یوں اعتماد حاصل کرتی مسلم لیگ کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ یہ مطالبہ دو سال پہلے عمران نے کیا تھا کہ ووٹ چرائے گئے ہیں۔ دیگر پارٹیاں نواز شریف کی پشت پر تھیں اور حکومت بچ گئی۔ اب نوٹ چرائے جانے کا الزام ہے تو پیپلز پارٹی کے بعد ایم کیو ایم نے بھی استعفے کا مطالبہ کردیا ہے۔ نوٹ اور ووٹ کے حوالے سے مختلف فیصلوں پر کیا مورخ ان پارٹیوں سے کوئی سوال پوچھے گا؟
''پتھر وہ مارے جس کا اپنا دامن صاف ہو'' ایک طرف حکمرانوں کی جانب سے یہ بات کہی گئی تو دوسری طرف حضرت عمرؓ کی مثال دی گئی کہ جب ان سے بھرے مجمع میں دوسری چادر کا سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اس کی صفائی پیش کی۔ سوال پوچھنے والے سے نہیں پوچھا کہ تمہارے اپنے کپڑے کس طرح بنے ہیں۔ یوں تمام فریق ہزاروں سال قبل کی تاریخ سے اپنے اپنے حق میں دلائل لے کر آگئے ہیں۔
9 مئی کو پانامہ لیکس مزید چار سو پاکستانیوں کا نام دینے والی ہے۔ ایک بار پھر یہ پہلا شور بین الاقوامی سطح سے اٹھے گا۔ پھر پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف دو طرفہ شور ڈالیں گے۔ بظاہر محسوس ہوتا تھا کہ نواز شریف کے لیے 2018 تک کوئی مسئلہ نہیں لیکن دو سال قبل ہی حکومت بحران میں مبتلا ہوگئی ہے اور اخلاقی جواز پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پانامہ لیکس نے حکمرانوں کے قدموں میں زنجیر ڈال دی ہے۔
دوسرے تیسرے اور چوتھے نمبر پر ووٹ لینے والی تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم اس زنجیر کو استعفے کے مطالبے کے ذریعے ہلا رہی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ حکومت گر جائے اور نئے انتخابات ہوں۔ دوسری پارٹیاں زنجیر ہلانے اور حکومت گرانے میں احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔آج پانامہ لیکس کے انکشاف سے ایک نیا شور گونجے گا۔ پھر حکمران اور اپوزیشن اسی میں اپنی اپنی آوازیں شامل کریں گے۔ مورخ قلم ہاتھ میں تھامے منتظر ہے اور سوچ رہا ہے کہ نہ جانے کیا انجام ہو اس تین طرفہ شور کا؟
وزیراعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب نے اس معاملے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اپوزیشن نے محسوس کیا کہ حکومت گھیرے میں آگئی ہے۔ اسلام آباد کے طاقتور لوگ گھیرے میں آنے سے گھبرا گئے۔ لندن یاترا اور وہاں بدن بولی سے یوں لگنے لگا دال میں کچھ کالا ہے۔ وزیراعظم پر براہ راست الزام نہ ہونے سے کچھ بچت تھی لیکن تینوں بچوں کے متضاد بیانات نے سوشل میڈیا کو موقع دے دیا۔ اس دفاعی پوزیشن سے نکلنے کے لیے حکمران پارٹی کے درجن بھر لوگ میدان میں آگئے۔ انھوں نے شوکت خانم اسپتال پر حملے کیے اور جب بلاول میدان میں آئے تو انھیں بچہ کہہ کر ان کے والد پر تنقید کی گئی۔
اپوزیشن سوالات اٹھاتی رہی کہ اربوں روپوں کی آمدنی کس طرح ہوئی؟ اس پر ٹیکس کتنا ادا کیا گیا؟ رقم باہر کس طرح گئی؟ کیا اس دولت کا تذکرہ انتخابی فارم میں ہے؟ حکمران طبقہ ان سوالات کے جوابات دینے کے بجائے اپوزیشن پر الزام تراشی کرتا رہا۔ اخبارات کے صفحات اور ٹی وی چینلز کے مباحثے حکمرانوں اور اپوزیشن کے اس شور شرابے سے پر ہیں۔ ایسے میں لطیفے سنائے گئے کہ ایک آدمی دیوار بنانے کے لیے اوپر چڑھا ہوا تھا۔ نیچے کھڑے آدمی نے کہا کہ دیوار ٹیڑھی بن رہی ہے۔ دیوار بنانے والے نے آواز لگائی کہ ''جاجا اور اپنا کام کر۔ تیرا چاچا بھی تو نشہ کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔'' یوں الزامات در الزامات کے شور میں پاکستان کے عوام اپنی جگہ قائم رہے۔ وہ بالکل ہل کر نہ دیے۔ تمام تر گھبراہٹ میں مسلم لیگ کے لیے یہ بات حوصلہ افزا رہی کہ ان کے حامیوں کی اکثریت شریف خاندان کا دفاع کرتی رہی۔
مسلم لیگ (ن) کے حامی نواز شریف کی حمایت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ کابینہ کے ارکان اور ٹی وی پر آنے والوں کا کوئی مفاد ہوسکتا ہے لیکن لیگ کے حامی عوام بے غرضی سے نواز شریف کا دفاع کرتے رہے۔ ''یہ امریکا کی سازش ہوسکتی ہے، کون چور نہیں ہے۔ یہاں سب چور ہیں۔ یہ بھارت کی کارستانی ہے جو چین کے ساتھ راہداری قائم نہیں ہونے دے رہا، اس طرح تو سرمایہ کار بھاگ جائیں گے جو بے شمار لوگوں کو روزگار دیتے ہیں۔'' اس شور شرابے میں عمران خان جلسوں سے خطاب کر رہے تھے تو دوسری طرف سے ایک انوکھی آواز گونجی۔ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ مطالبہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کیا گیا۔ اعتزاز احسن کی آواز کو توانائی ملی۔ خورشید شاہ اور قمر الزماں کائرہ نے چیئرمین کی ہاں میں ہاں ملائی۔ یوں اعتماد حاصل کرتی مسلم لیگ کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ یہ مطالبہ دو سال پہلے عمران نے کیا تھا کہ ووٹ چرائے گئے ہیں۔ دیگر پارٹیاں نواز شریف کی پشت پر تھیں اور حکومت بچ گئی۔ اب نوٹ چرائے جانے کا الزام ہے تو پیپلز پارٹی کے بعد ایم کیو ایم نے بھی استعفے کا مطالبہ کردیا ہے۔ نوٹ اور ووٹ کے حوالے سے مختلف فیصلوں پر کیا مورخ ان پارٹیوں سے کوئی سوال پوچھے گا؟
''پتھر وہ مارے جس کا اپنا دامن صاف ہو'' ایک طرف حکمرانوں کی جانب سے یہ بات کہی گئی تو دوسری طرف حضرت عمرؓ کی مثال دی گئی کہ جب ان سے بھرے مجمع میں دوسری چادر کا سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اس کی صفائی پیش کی۔ سوال پوچھنے والے سے نہیں پوچھا کہ تمہارے اپنے کپڑے کس طرح بنے ہیں۔ یوں تمام فریق ہزاروں سال قبل کی تاریخ سے اپنے اپنے حق میں دلائل لے کر آگئے ہیں۔
9 مئی کو پانامہ لیکس مزید چار سو پاکستانیوں کا نام دینے والی ہے۔ ایک بار پھر یہ پہلا شور بین الاقوامی سطح سے اٹھے گا۔ پھر پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف دو طرفہ شور ڈالیں گے۔ بظاہر محسوس ہوتا تھا کہ نواز شریف کے لیے 2018 تک کوئی مسئلہ نہیں لیکن دو سال قبل ہی حکومت بحران میں مبتلا ہوگئی ہے اور اخلاقی جواز پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پانامہ لیکس نے حکمرانوں کے قدموں میں زنجیر ڈال دی ہے۔
دوسرے تیسرے اور چوتھے نمبر پر ووٹ لینے والی تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم اس زنجیر کو استعفے کے مطالبے کے ذریعے ہلا رہی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ حکومت گر جائے اور نئے انتخابات ہوں۔ دوسری پارٹیاں زنجیر ہلانے اور حکومت گرانے میں احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔آج پانامہ لیکس کے انکشاف سے ایک نیا شور گونجے گا۔ پھر حکمران اور اپوزیشن اسی میں اپنی اپنی آوازیں شامل کریں گے۔ مورخ قلم ہاتھ میں تھامے منتظر ہے اور سوچ رہا ہے کہ نہ جانے کیا انجام ہو اس تین طرفہ شور کا؟