درست تشخیص
ایک مریض کی ٹانگ نیلی ہوگئی تھی، کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے گیا،
ایک مریض کی ٹانگ نیلی ہوگئی تھی، کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے گیا، ڈاکٹر نے ٹانگ دیکھ کر انتہائی تشویش کا اظہار کیا اور مریض کی ٹانگ کاٹ دی، چند روز کے بعد مریض بیساکھیوں کے سہارے چل کر دوبارہ ڈاکٹر کے پاس حاضر ہوا اور شکایت کی کہ اب اس کی دوسری ٹانگ نیلی ہوگئی ہے، ڈاکٹر نے دیکھا اور دوسری ٹانگ بھی کاٹ ڈالی، اور اس ٹانگ کی جگہ مصنوعی ٹانگ لگادی گئی۔
ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ وہ مصنوعی ٹانگ بھی نیلی پڑ گئی، مریض پھر سے ڈاکٹر کے پاس آن پہنچا، کہ دیکھیے، یہ ٹانگ بھی نیلی ہوگئی ہے، اب کی بار ٹانگ کا نیلا ہوجانا ڈاکٹرصاحب کے لیے نہایت ہی حیران کن تھا کہ مصنوعی ٹانگ بھلا کیونکر نیلی پڑ سکتی ہے، تاہم بڑے غوروخوض کے بعد ڈاکٹر کسی نتیجے پر پہنچا اور مریض سے مخاطب ہوا کہ ٹانگ کو کچھ نہیں ہوا، سارا قصور آپ کی دھوتی کا ہے جو رنگ چھوڑتی ہے اور ٹانگ نیلی پڑجاتی ہے، براہ کرم اپنی دھوتی تبدیل کرلیجیے۔
یہ بات تو سچ ہے کہ کسی بھی مرض کے علاج کے لیے اس کی درست تشخیص کا ہونا ضروری ہے، خواہ وہ مرض جسمانی ہو، روحانی، معاشرتی یا پھر کسی اور نوعیت کا۔ سب سے پہلے مرض یا مسئلے کا مطلوبہ تمام زاویوں سے جائزہ و ادراک یا تشخیص، پھر وجوہات اور اسباب کا پتہ چلانا، اس کے بعد پرکھنا یا تجزیہ کرنا اور علاج یا تدارک کے لیے دوا، پرہیز یا حل نکالنا ضروری ہوتا ہے۔
مگر ہمارے یہاں کی ریت ہی نرالی ہے، انتہائی جلد بازی میں فیصلے کیے جاتے ہیں اور مسائل کے حل نکال لیے جاتے ہیں، پھر مسائل پر بحث چھڑتی ہے اور تجزیے پیش کیے جاتے ہیں، جب کہ مسائل کی وجوہات اور اسباب کا ادراک بعد میں کیا جاتا ہے اور آخر میں جب مرض کی تشخیص ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ فیصلہ غلط تھا، دوا یہ نہیں وہ ہونی چاہیے تھی۔
آج کل دہشت گردی کے خلاف آپریشن اپنے زوروں پر ہے، ہمارے یہاں دہشت گردی کو ملک کا سب بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے، بعض حلقے کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں، اور اسی تناظر میں کرپشن کے خلاف بھی ایک نام نہاد سی مہم جاری ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ دہشتگردی، انتہاپسندی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہی ملک کی تمام خرابیوں کی جڑ ہے، اس کا ختم کیا جانا ضروری ہے۔
اس میں شک نہیں کہ دہشتگردی اور انتہاپسندی ملک کے بڑے مسائل ہیں، مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ کرپشن ہے جسے دہشتگردی کی نانی سمجھاجاتا ہے، رہا ان کا گٹھ جوڑ تو یہ ایک لایعنی سی بات ہے، ہاں البتہ ملک میں موجود تمام مسائل اور خرابیوں کی جڑ اگر کوئی ہے تو وہ اسٹبلشمنٹ، سیاست اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہے، اور اس گٹھ جوڑ کو ختم کیے بغیر کرپشن کو ختم کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر دہشتگردی، انتہاپسندی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کے بجائے اسٹبلشمنٹ، سیاست اور کرپشن کا گٹھ جوڑ توڑدیا جائے تو کرپشن کو کوئی بچا نہیں سکے گا اور نتیجے میں ملک کے سارے مسائل خودبخود ہی حل ہوجائیں گے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جب سے ملک آزاد ہوا ہے ملکی وسائل، اختیارات اور اقتدار کی اصل مالک اسٹبلشمنٹ ہی رہی ہے، سیاستدانوں کی پیداوار اور افزائش کا کام بھی درحقیقت اسی کے ذمے رہا ہے، رہی جمہوریت تو یہ ایک آڑ ہے جسے استعمال کرکے اسٹبلشمنٹ اور ملک کی کرپٹ ترین مافیا، جس میں لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، واٹر مافیا اور نہ جانے کون کون سی مافیاز، کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں اور مخصوص شعبوں تک محدود اقتدار، اختیار اور ملکی وسائل میں انھیں کرپشن کی کھلی چھوٹ جب کہ دیگر شعبوں کی جانب آنکھ اٹھا کربھی نہ دیکھنے کے لیے متنبہ کردیا جاتا ہے۔
جب سیاستدان کرپشن کررہے ہوتے ہیں، ان کا ریکارڈ بھی جمع کیا جارہا ہوتا ہے، اور جب وہ اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگتے ہیں تو انھیں دائرہ کار میں رکھنے کے لیے کرپشن کا ریکارڈ سامنے لایا جاتا ہے، اگر وہ مان جائیں تو بسم اللہ، بصورت دیگر انھیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ پاناما لیکس بھی ملکی سطح کی اس گیم کی طرح عالمی گیم ہے، جو بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں، ماضی میں وکی لیکس کے نام سے بھی یہی کام انجام دیے جاتے تھے۔ یعنی اگر فہرست میں شامل ہدف کی نشانہ شخصیات مان جائیں تو ٹھیک یعنی معاملہ رفع دفع اور اگر اپنی ضد پر اڑی رہیں تو انھیں ''گھر'' جانا پڑسکتا ہے۔
ان معاملات کو سمجھنے کے لیے اگر ہم اردگرد کے موجودہ ماحول یا ماضی قریب کے سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو ان معاملات کو بڑی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایم کیو ایم رہنماؤں کے بھارتی ایجنٹ ہونے کے ثبوت کی موجودگی کے دعوؤں پر اگر غور کیاجائے تو معاملات اس سے کچھ مختلف نظر نہیں آتے۔ ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ مقتدر حلقوں کے پاس ثبوت موجود ہیں، جناح پور کے نقشے بھی برآمد ہوچکے ہیں مگر ان چوبیس سال میں ایم کیو ایم کو بلیک میل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا گیا، ایم کیو ایم کے کسی رہنما کو اس جرم کی پاداش میں آج تک سزا ملی اور نہ ہی کسی عدالت کے سامنے جوابدہ ہونا پڑا۔
پرویز مشرف کے دور میں جب ملک بھر کی مذہبی جماعتوں کو اقتدار میں سے کچھ حصہ دیا گیا تھا، تو انھیں دسترس میں رکھنے کے لیے دینی تعلیم کی اسناد کو گریجویشن کے مساوی ہونے یانہ ہونے کی تلوار ان کے سرپر لٹکا دی گئی تھی، اور مذہبی رہنما بڑی آسانی کے ساتھ بلیک میل ہوتے رہے تھے۔
2014 میں عمران خان کا دھرنا، جس میں عام انتخابات میں دھاندلی کو بنیاد بنایا گیا تھا، دھاندلی ثابت بھی ہوگئی اور وہی لوگ دوبارہ اقتدار میں بھی آگئے، مگر دھاندلی کا معاملہ کہاں گیا کچھ پتہ نہیں چل سکا، حالانکہ اگر دھاندلی کی تحقیقات کا دائرہ کار دیگر حلقوں تک بڑھا دیا جاتا تو عین ممکن تھا کہ بیشتر حلقوں کے نتائج ایسے ہی نکلتے۔
پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا، ان پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی عائد ہے، ان پر فرد جرم بھی عائد ہوچکی ہے، اور عدالت سے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے، مگر اس کے باوجود انھیں بغیر کسی روک ٹوک کے باآسانی بیرون ملک جانے دیا گیا، ہوسکتا ہے اس عمل کے محرکات کچھ اور ہوں مگر لڑیاں ایسے ہی حقائق سے جاملتی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ اپنی پریس کانفرنسوں میں آئے روز یہی دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے پاس خورشید شاہ اور دیگر پی پی رہنماؤں سے متعلق ثبوت موجود ہیں، مگر انھوں نے کسی فورم پر پیش نہیں کیے، اس حوالے سے عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت ان ثبوتوں کے ذریعے پیپلزپارٹی کو بلیک میل کررہی ہے۔ موجودہ حکومت میں شامل بعض وزرا کا تحریک انصاف کے اہم عہدیداروں اور عمران خان کے قریبی ساتھیوں سے متعلق بھی یہی کہنا ہے مگر فقط ڈرانے دھمکانے تک محدود ہے، ورنہ حکمرانوں کا کام کیا صرف اتنا ہے کہ غیر قانونی اقدامات کی نشاندہی کرتے رہیں؟، اور سزا دلوانے سے چشم پوشی اختیار کریں؟۔
ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ لے لیجیے تحقیقات کے بعد دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کرانے کے شواہد ملے تھے، مگر اسے بھی مبینہ طور پر کسی ''ڈیل'' کے نتیجے میںقانونی چور دروازے سے ملک سے باہر بھجوادیا گیا تھا۔
سوئس بینکوں میں دو سوارب ڈالر کا کالا دھن پڑا ہوا ہے، جس میں مبینہ طور پر سابق صدرآصف زرداری کا پیسہ بھی شامل ہے، جب سے ن لیگ کی حکومت آئی ہے، اس کا شور سنتے آرہے ہیں مگر ابھی تک کوئی عملی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ باتیں زیر گردش رہیں کہ سوئس اکاؤنٹس سے متعلق یہ تحقیقات کی جائیں گی کہ آیا سوئس بینکوں میں موجود دو سو ارب ڈالر جائز طریقے سے باہر بھجوائے گئے یا ناجائز ذرایع سے یعنی وہی مال جسے کالا دھن قرار دیا جاتا رہا ہے، اب اسے لانڈرنگ کے ذریعے سفید کیا جارہا ہے۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ یا کرپشن کے خلاف شروع کی جانے والی مہمات سے کتنی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے؟ اور یہ کہ کیا جس بیماری کا ہم علاج کررہے ہیں وہی بیماری ہمیں لاحق ہے؟