وسیع النظری اور تعصب…

کراچی میں تشدد کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ پاکستان کی۔


Shaour Hussain November 17, 2012

بدقسمتی سے پاکستان کے حالات خواہ وہ معاشی ہوں یا انتظامی،ابتری کی جانب جا رہے ہیں۔

اس ضمن میں قلمکاروں، دانشوروں اور مہذب معاشرے کی ذمے داری ہے کہ وہ حالات کا تجزیہ کرتے وقت ذاتی وابستگیوں سے بلند ہو کر اپنی نگارشات کو ترتیب دیں اور مؤقف کا اظہار کریں۔ گزشتہ دو دنوں میں روزنامہ ایکسپریس کے صفحہ ادارت پر جاوید چوہدری صاحب کے دو مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ 15نومبر کو انھوں نے بانجھ کے عنوان سے جب کہ 16نومبر کو کینسر کے عنوان سے مضامین تحریر کرتے ہوئے پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا۔

ہمارے معاشرے میں موجود دہرے حالات کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا۔ امن وامان کی صورتحال اور بالخصوص کراچی کے حالات پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یوں تو جاوید چوہدری صاحب کی تحاریر میں دیس دیس کی کہانیاں اور واقعات رقم ہوتے ہیں ، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ توقع کر بیٹھے تھے کہ ان کے تحریروں کے ذریعے مسائل کے حل میں مدد ملے گی، لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جو عینک انہو ں نے پہن رکھی ہے وہ نظر کی نہیں، بلکہ تعصب اور نفرت کی ہے ۔

یہ قطعی جملہ اس لیے راقم لکھنے پر مجبور ہوا کہ انھوں نے اپنے مضمون بانجھ میں دہرے معیار کا ذکر کرتے ہوئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان کا موازنہ فرانس سے کیا، لیکن انھوں نے وفاقی حکومت کو ا س بات کا ذمے دار قرار دیا کہ وہ یہ سہولیات عوام تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔ اس امر پر افسوس اس لیے ہوا کہ وہ یہ کیوں نہ کہہ سکے کہ پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں کسی بھی جمہوریت نے آج تک مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں کروائے اور جن مسائل کا ذکر انھوں نے اپنے مضمون میں کیا ، ان کا حل بھی مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔مقامی حکومتوں کے عدم تسلسل کو ہدف تنقید بناتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس کا ذمے دار قرار دینے کے بجائے انھوں نے براہ راست اس کا ذمے دار وفاقی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔

16نومبر کے مضمون بعنوان کینسر میں انھوں نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے قلم آرائی کی زحمت اٹھائی اور رقمطراز ہوئے کہ 80کی دہائی سے قبل کسی کو بھی سیکیورٹی گارڈ کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ 1965 میں اُردو چوک، لیاقت آباد، لانڈھی اور نیو کراچی میں گوہر ایوب خان اور حسن موسیٰ نے کن آبادیوں پر فائرنگ کی تھی۔ روئیداد خان اس وقت کراچی کے کمشنر ہوا کرتے تھے اور وہ نجی ٹیلی ویژن پر اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ کراچی میں انھوں نے گوہر ایوب خان کے اوپر سے قتل کا مقدمہ اپنی صوابدید کی بنیاد پر ختم کیا تھا۔ کراچی میں تشدد کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ پاکستان کی۔

پورے ملک میں صورتحال اس سے مختلف نہ تھی۔ پہلے وزیر اعظم کو سر عام قتل کیا گیا۔ کراچی کے حالات کاجائزہ لیتے ہوئے انھوں نے بھتہ خوری سمیت دیگر جرائم اور کراچی کی نسلی، لسانی اور گروہی تقسیم کی نشاندہی کی۔ اس موقعے پر بھی راقم یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ انھوں نے اپنی تعصب کی عینک ہٹائے بغیر حالات کا جائزہ لیاہے۔ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں سے متحدہ قومی موومنٹ 85فیصد مینڈیٹ کی حامل ہے اور اس نے اپنی اخلاقی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے کراچی کی بد امنی کے ذمے داروں کی نشاندہی کی اور وہ فہرست حکومت کے حوالے کی۔

اس موقعے پر انھوں نے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو فری ہینڈ دینے کی بھی بات کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی بنیادی ذمے داری ہی جرائم کی بیخ کنی ہے۔ اس ضمن میں ان کے ہاتھ کس نے باندھے ہیں؟ کیا ان اداروں میں کام کرنیوالے افراد میں اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ صرف اپنے ہاتھ بندھے ہونے کا بہانہ بنا کر اپنے فرائض سے پہلوتہی کریں۔

اسی مضمون میں کالم نگار نے ایک مذہبی سیاسی جماعت اور ایک اور سیاسی گروپ کا ذکر کیا کہ وہ تیزی سے سر اٹھا رہے ہیں۔ یہاں پر بھی کالم نگار کی تنگ نظری ان کے پیش نظر رہی ۔ جن گروپس کا ذکر انھوں نے کیا، وہ کراچی کی کسی یونین کونسل سے ایک کونسلر منتخب کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، انھیں ان کا سر اٹھتا نظر آرہا ہے۔ ویسے تو منفی قوتیں ہی سر اٹھایا کرتی ہیں، اگر اس تناظر میں انھوں نے لکھا ہے تو میں ان سے اتفاق کرتا ہوں لیکن سیاسی طور پر ان کا کوئی قد موجودنہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ سیاسی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ ہر شخص کو پورے ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق ہے۔

اچھا معالج وہی ہوتا ہے جو تشخیص کے ساتھ ساتھ علاج بھی نیک نیتی سے تجویز کرے۔ جاوید چوہدری صاحب کے دونوں مضامین پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ جتنے فاصلے سے بیٹھ کر وہ کراچی کے حالات کاجائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں اپنی عینک بدلنی ہوگی ۔ راقم انتہائی ادب کے ساتھ ان کو یہ صائب مشورہ دے رہا ہے کہ وہ کراچی تشریف لائیں اور کراچی میں موجود امراض چشم کے بہترین معالج سے استفادہ فرما سکیں۔ پاکستان میں موجود دہرے معیار اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال سے ہر ذی شعور شخص پریشان ہے۔ وہ اس کا خاتمہ بھی چاہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے راست سمت میں اقدامات تجویز کرنا ہوں گے۔

کینسر کا علاج عمومی طور پر ایسے حصے کو جسم سے علیحدہ کرنے سے ہوتا ہے لہٰذا آج وہ جرائم پیشہ عناصر جو اس شہر کو اپنی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں خواہ ان کا تعلق لیاری گینگ وار سے ہو یا مذہبی انتہا پسندوں سے، ان کا تعلق انڈر ورلڈ سے ہو یا کسی اور مافیا سے، ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا اور یہ کام سب سے بہتر انداز میں پولیس ہی سرانجام دے سکتی ہے۔ مجھے خوشی ہوتی اگرکالم نگار اپنے دیس دیس کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ان سہولیات کا تقابلی جائزہ پیش کرتے جو دو کروڑ سے زائد کی آبادی کے شہر کو درکار ہوتی ہیں۔

فرانس کے شہر پیرس کی پولیس کے پاس بھی کراچی کی پولیس سے زیادہ آلات اور ہتھیار ہوں گے۔پیرس کی پولیس کی تربیت کا معیار بھی ہماری پولیس کے معیار سے کئی گنا بلند ہوگا۔ آج اس شہر میں پولیس کے پاس جو نفری ہے اس کی بنیاد پر وہ اس شہر میں امن و امان بحال کرکے اسے برقرار رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ امید ہے کہ ہم حالات اور مسائل کا تجزیہ کرتے وقت تعصب اور نفرت کی عینک پہننے کے بجائے غیر جانبدار رہ کر اپنے تجزئیے ، تبصرے تحریر کریں گے۔ ہمیں اپنے عوام کو اس بات کا شعور دینا ہے کہ مقامی حکومتوں کی کیا ذمے داریاں ہیں، صوبائی اور وفاقی حکومتیں کس دائرہ اختیار میں کام کرتی ہیں۔

اگر مسئلہ بنیادی سہولیات کی فراہمی کا ہے تو اس کی ذمے دار مقامی حکومت ہے۔ اسی طرح اگر جرم و سزا کے تصور کو قائم کرنا ہے تو اس کے لیے بہتر قانون سازی وفاقی اور صوبائی حکومتیں قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے کریں گی۔ حیلے بہانوں سے اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی آسان ہے اور ذمے داریوں کو تسلیم کرتے ہوئے مسائل کے حل کی کوششیں کرنا ایک مشکل امر ہے۔ عوامی مینڈیٹ کا تجزیہ حقیقت کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ہم عوامی مینڈیٹ ان لوگوں کو تفویض کردیں جنھیں اپنے گھر کے لوگ بھی ووٹ دینے کو تیار نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں