کوئی ہے جو ۔۔۔۔۔

کراچی کا ہر شہری بے حد کرب میں مبتلا ہے،صبح سویرے اپنے کام پر نکلتا ہے اور سورج ڈھلنے سے قبل لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔


Naseem Anjum November 17, 2012
[email protected]

لہو لہو کراچی ہے، ہر طرف موت کا میلا لگا ہے۔

سائیں سائیں کرتی ہوئی غمزدہ ہوائیں سنسناتی ہوئی گولیاں جان وجگر میں پیوست ہو رہی ہیں، لاشیں اُٹھائی جارہی ہیں، میتوں کا گشت ہے، کاندھوں پر جنازے ہیں،شہر ویران اور قبرستان آباد ہے، نہ معلوم کسی بے روزگار گورکن کی دعا قبول ہوگئی ہے۔

اگر ایدھی فاؤنڈیشن نہ ہوتا، چھیپا کی تنظیم نہ ہوتی تو سڑکوں پر پڑی ہوئی لاشیں کون اُٹھاتا،کون غسل وکفن کا انتظام کرتا؟ شاید کوئی نہیں، پھر تو پورے شہرے کراچی کی سڑکیں لاشوں سے پٹی ہوتیں، یہ کیسا دکھ ہے، کیسا الم ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا؟ کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے کوئی اس کے خاتمے کے لیے نہیں کھڑا ہوتا،کیا بہتا ہوا لہو باعثِ تسکین بن گیا ہے، کیا مسئلے کا حل انھی حالات میں نظر آتا ہے؟

گھر گھر نوجوانوں کی لاشیں پہنچ رہی ہیں، بین ونوحے کی آوازوں نے فضا کو سوگوار کردیا ہے، لیکن جنازہ گھر کے اطراف میں باقی ہر شخص اپنے اپنے کاموں میں اُلجھا ہوا ہے، بڑے لوگ کہتے ہیں سب کچھ ٹھیک ہے، حکومت کے پانچ سال اطمینان وسکون کے ساتھ پورے ہورہے ہیں، پارلیمنٹ کے ارکان بھی تعریف کے مستحق ہیں، سب کچھ اچھا ہو رہا ہے، لیکن انھیںکون سمجھائے جن کی مائیں جوان بیٹوں کی لاشوں کو دیکھ کر غش کھا کر گِر پڑی ہیں، مزید دیکھنے کی ہمت نہیں، اسی لیے ان کی روحیں عالمِ بالا کی سمت پرواز کرگئی ہیں، جانے والے چلے جاتے ہیں اور گھروں میں اندھیرا، مایوسی چھوڑ جاتے ہیں، لواحقین کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے، یاس ونراس نے ویرانی کا سماں پیدا کردیا ہے۔

کراچی کا ہر شہری بے حد کرب میں مبتلا ہے، وہ ہر لمحہ اور ہر جگہ غیر محفوظ ہے، وہ صبح سویرے اپنے کام پر نکلتا ہے اور سورج ڈھلنے سے قبل لقمۂ اجل بن جاتا ہے، قاتل اپنا کام پابندی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں، انھیں مکمل آزادی نصیب ہے، وہ جب چاہیں اپنے ہتھیاروں کا استعمال کرسکتے ہیں، ہتھیار ہوتے ہی اسی لیے ہیں کہ موت کا رقص سرِ بازار دکھایا جائے، وہ اپنے فن میں ماہر ہوچکے ہیں کہ وہ فنکار ہیں اور فنکار ہونا جرم نہیں ہے کہ انھیں اپنے فن کی نمائش دکھانے کی اجازت ملی ہے۔

جس طرح صنعتی اشیاء کی نمائش کے موقعے پر شہر کے ٹریفک نظام پر دبائو بڑھ جاتا ہے، قرب وجوار میں رہنے والے مکین پریشانی محسوس کرتے ہیں، ٹریفک کے حوالے سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ بسوں کے روٹ بدل دیے جاتے ہیں۔ ایسا ہی وی آئی پی موومنٹ کی آمد و رخصتی کے موقعے پر بھی ہوتا ہے۔ کچھ حضرات کا فن تعمیری کاموں کو جلا بخشتا ہے تو کچھ کا اس کے برعکس امور کو پروان چڑھاتا ہے۔ تعمیر وتخریب کے تماشے بھی عجیب وغریب ہیں بالکل اسی طرح جس طرح زندگی و موت کا کھیل۔

ان دنوں اورگزشتہ مہینوں سے یہ شہر لاوارث ہے بالکل اسی طرح جس طرح جنگل میں طاقت ورکمزور پر غالب آجاتا ہے، پابندی سے لوگ مارے جا رہے ہیں اور روز 17,15,11,10 لوگوں کو قتل کردیا جاتا ہے، بڑی اور اعلیٰ شخصیات نے اپنے اپنے لبوں پر قفل لگا لیا ہے کہ کمزور اور بے بس لوگوں کا مقدر یہی ہے۔ ان حالات میں جب کہ پاکستان کا ہر محبِ وطن خون کے آنسو رو رہا ہے بلکہ دیارِ غیر میں بھی چرچے ہو رہے ہیں، لوگ نوحہ و کناں ہیں، ایسے میں ایک شاعر ناظر فاروقی یاد آگئے ہیں جوکہ لندن میں مقیم ہیں، لیکن اپنے وطن پیارے پاکستان کی فکر کھائے جا رہی ہیں، یہ ذہنی تکلیف ان کی شاعری میں ڈھل گئی ہے، لکھتے ہیں:

اے کراچی کھا گئی تجھ کو بتا کس کی نظر
روز اخباروں میں چھپتی ہے فقط تیری خبر
شاہراہوں پر جہاں بِکتے تھے کل گجروں کے پھول
کیا غضب ہے آج اُڑتی ہے وہاں قبروں کی دھول

ان کی ایک اور غزل ہے جس میں کراچی کی تباہی کی داستان نمایاں ہے۔

کراچی کا خرمن جلایا گیا
کراچی کو مقتل بنایا گیا
کراچی کے اندر کراچی کے باہر
سبق نفرتوں کا پڑھایا گیا

کتاب ''ورق ورق گلاب'' میں ایک ''تاریخی کہانی'' کے عنوان سے بھی اشعار موجود ہیں جو کراچی کے ماضی و حال کے عکاس ہیں۔

ادھر آؤ بچّو اِدھر آؤ جانی
کراچی کی تم کو سنائیں کہانی
یہی شہر تھا وہ جو سوتا نہیں تھا
اندھیرا محلّوں میں ہوتا نہیں تھا
وہ ٹھیلے پہ بِکتی تھیں مونگ پھلیاں
بڑی دیر تک جاگتی تھیں یہ گلیاں
بسوں کی صدا سونے دیتی نہیں تھی
یہ سمجھو یہاں رات ہوتی نہیں تھی
ہوئی پھر ہمارے خلاف ایک سازش
تھمی ہی نہیں تب سے لاشوں کی بارش
اُجڑتا رہا پھر ہمارا کراچی
گھروں میں یہاں موت جاجا کے ناچی
مری جان سو جا کہ ہے گھپ اندھیرا
بچیں گے تو دیکھیں گے کل پھر سویرا
قضا کیوں نہ آئی کہ مرجاتی نانی
سنانے سے پہلے ہی ایسی کہانی

روشنیوں کا جگمگاتا ہوا شہر اندھیروں کی آماج گاہ بن گیا ہے، مقتدر شخصیات خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، قاتل مختلف طبقۂ فکر کے لوگوں کو اس لیے ہی مارتے ہیں کہ یہ تاثر دے سکیں کہ آپس کی جنگ ہے مذہبی عقائد کے اختلاف کی جنگ ہے پہلے سنیّوں کو مارا جاتا ہے اس کے دوسرے روز ہی اہلِ تشیع کو، کبھی پہل اہلِ تشیع سے کرتے ہیں بعد میں دوسرے فرقے کے لوگوں کو مقتل میں دھکیل دیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں 28 سے زیادہ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں وہ فرقہ ورانہ فسادات کو روکنے میں موثر کردار ادا نہیں کر سکیں؟ ملک دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔ کیونکہ صاحبانِ اقتدار کی توجہ ملک وملت کی تعمیر وترقی کی طرف نہیں ہے بلکہ حصولِ زر اصل مقصد بن چکا ہے۔

اگر غور کریں تو ہمارے ملک میں ایسی بااختیار شخصیات بھی موجود ہیں جو اگر محبِ وطن ہوں تو اس ملک میں تبدیلی لاسکتی ہیں اور پاکستان کی تقدیر کو بدلا جاسکتا ہے۔ طالب علموں، علماء اور اساتذہ کرام اور معصوم لوگوں کے قتل کو روکا جاسکتا ہے، خزاں رسیدہ چمن میں موسمِ بہار دستک دے سکتا ہے اور خوشیوں کے پھول کھلائے جاسکتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔

مایوسی بڑھتی جارہی ہے، مائیں زندہ درگور ہوگئی ہیں، حال ہی میں جب ایک غمزدہ ماں نے اپنے بیٹے کی اس لاش کو دیکھا کہ جو صبح اس کا لختِ جگر صحیح سلامت گیا تھا اس نے ناشتہ کیا تھا، لباس تبدیل کیا تھا اور ماں کی دعائیں لے کر رخصت ہوگیا تھا، لیکن اس کی ماں کو ہرگز یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا بیٹا ہمیشہ کے لیے رخصت ہورہا ہے۔

اب وہ کبھی اس سے نہیں مل سکے گی، پھر کچھ اس طرح ہوا جب وہ دوسروں کے کاندھوں پر آیا تو ماں اس کا مردہ چہرہ دیکھ نہ سکی، کیسے اور کس دل سے دیکھ سکتی تھی کہ یہ وہی ننھا بچّہ تھا جسے اس نے سینے سے لگا کر لوریاں دی تھیں، آغوش میں سُلایا تھا اس کے ہر سکھ کا خیال رکھا تھا کہ وہ اس کے اپنے جگر کا ٹکڑا تھا، اس نے اسے زمانے کے سرد وگرم سے بچایا تھا کہ وہ اس کی سانسوں میں رہتا تھا، بھلا کسی کا حق کیسے بن سکتا ہے کہ غریب ماں کے دل سے اس کا کلیجہ نکال لے؟ اور جب وہ نہ رہا تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت غمزدہ ماں کو بھی اپنے پاس بلالیا۔ اس طرح وہ دونوں ماں بیٹے ایک ساتھ خلد کی طرف روانہ ہوگئے۔

مائیں مر رہی ہیں، بہنیں سسک رہی ہیں اور بیویاں اپنے سہاگ پر ماتم کناں ہیں، معصوم بچّے ''بابا'' کو آوازیں دے رہے ہیں، یہ کیسی کربلا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی؟ سیاہ رات کا سفر ختم نہیں ہو پارہا ، کوئی ہے جو اس شہر کو اس کا کھویا ہوا سکھ، چین لوٹا دے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں