صرف فوج ہی نہیں
بطور ادارہ فوج پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا، مگر بعض جنرلوں نے ذاتی مفاد کے لیے اپنے ساتھی جنرلوں کو استعمال کیا۔
اصغر خان کیس کے فیصلے کو تین ہفتے گزرچکے اور سپریم کورٹ کا اس سلسلے میں تفصیلی فیصلہ بھی آگیا۔
مگر اب تک اس سلسلے میں حکومتی اقدام نظر نہیں آیا اور اس سلسلے میں صرف بیان بازی کے ذریعے سیاست چمکائی جارہی ہے۔اس فیصلے سے جہاں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو نواز شریف پر تنقید کا موقع مل گیا ہے وہاں تین ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ، اسد درانی اور حمید گل بھی نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں ایسا ظاہرکیا جارہا ہے کہ جیسے 1990 میں پیپلزپارٹی فرشتوں کی جماعت تھی جس نے محترمہ کے پہلے دور میں پاکستان کو ترقی یافتہ اور عوام کو خوش حال بنادیا تھا کہ جسے کرپشن کے باعث برطرفی کے بعد دوبارہ عوام منتخب کرنے کے لیے بے چین تھے، مگر صدر غلام اسحٰق خان نے خفیہ ایجنسی کے ذریعے آئی جے آئی بنوا کر پیپلزپارٹی کو اقتدار میں نہیں آنے دیا تھا اور نواز شریف سمیت متعدد سیاستدانوں میں رقم تقسیم کرائی تھی اور پی پی رہنماؤں کے بقول 1990 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو جان بوجھ کر ہروایا گیا تھا۔
1990 میں نواز شریف کو 35 لاکھ روپے دینے کا بہت چرچہ ہے اور اس وقت 35 لاکھ کی کیا حیثیت تھی اس کا اندازہ راقم کی موجودگی میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو اور مولانا فضل الرحمٰن کی اس گفتگو سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں اُس وقت اس بات پر متفق تھے کہ اب الیکشن پیسوں کا کھیل ہے اور قومی اسمبلی کی نشست پر انتخابی اخراجات ایک کروڑ روپے سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس وقت فوج یا صدر مملکت صرف 35 لاکھ روپے دے کر نواز شریف کی حکومت بنوا سکتے تھے یہ صرف ایک بھونڈا مذاق ہے جس کے ذریعے فوج اور مختلف سیاستدانوں کو نشانہ بنانا ہے تاکہ انھیں دباؤ میں رکھ کر سیاسی مفادات کو تحفظ دیا جاسکے۔
آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم عتیق احمد خان نے ملتان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ خفیہ اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے والے چیلوں کو بھی بے نقاب کرے کیونکہ خفیہ ایجنسیوں کو سیاست میں ملوث کرنے کا کام ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں صرف سابق جرنیلوں کے کردار کا واضح ذکر ہے جب کہ کسی سیاستدان کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ خفیہ ایجنسی سے مبینہ طور پر رقم لینے والے سیاستدان ہی تھے، ماضی اب بہت سوں کا بے نقاب ہونا شروع ہوگیا ہے اور سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں سابق صدر غلام اسحٰق خان کو بھی رقم بانٹنے کے معاملے کا ذمے دار قرار دیا ہے، جو اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے دنیا میں موجود نہیں، جو خود سیاستدان نہیں بیوروکریٹ تھے اور انھوں نے ہی اپنی صدارت میں ایک نہیں دو سیاسی وزرائے اعظم کو برطرف کیا تھا۔
پہلے انھوں نے اپنی ناپسندیدہ بے نظیر بھٹو کو اور بعد میں اپنے ہی پسندیدہ بلکہ اپنے ہی لائے گئے نواز شریف کو برطرف کیا۔ آج اگر غلام اسحٰق خان زندہ ہوتے تو یقینی طور پر وہ اپنے اقدام کی وجوہات پیش کرتے اور دونوں سیاسی حکومتوں کی برطرفی کی حقیقت بتاتے۔ فوج کب سے ہماری سیاست میں ملوث ہوئی اور اس کو کس نے سیاست میں ملوث ہونے پر مجبور کیا اور فوج کو کن سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا گیا؟ یہ ماضی کی بات ہے۔ فوج کو سیاست میں ملوث اور استعمال کرنے والے بھٹو اور غلام اسحٰق خان سیاستدان اور بیورو کریٹ تھے جو اب موجود نہیں، مگر ثابت ہوچکا ہے کہ دونوں نے فوج کو اپنے مفاد یا ضرورت کے لیے استعمال کیا۔ 1971 کی جنگ کے باعث فوج بھٹو کی احسان مند تھی یا وزیر اعظم بھٹو کے حکم پر مجبور ہوکر وہ سیاست میں ملوث ہوئی۔
صدر اسحٰق خان سپریم کمانڈر تھے اس لیے جنرل اسلم بیگ نے ان کا کہنا مانا۔ وگرنہ جنرل بیگ 1988 میں 17؍ اگست کے بعد باآسانی سیاستدانوں ہی سے اپنی حکومت بنوا سکتے تھے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم بننے دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو حکومت ختم کرنے کے لیے فوج نے جو مارشل لاء لگایا اس کو سیاسی حمایت حاصل تھی۔ جنرل پرویز نے جب جعلی وجوہ پر نواز حکومت برطرف کی اس کی حمایت سیاست دانوں نے کھلے عام کی، فرق یہ تھا کہ ضیاء مارشل لاء کی پیپلزپارٹی اور جنرل پرویز کے جبر کی (ن) لیگ نشانہ بنی تھیں، ہر فوجی حکومت میں سیاستدان شامل ہوئے اور انھوں نے فوجی حکومتوں کو مضبوط کیا اور خود فوجی اقتدار میں بھی مزے لوٹتے رہے اور جنرلوں کے ساتھ رہے۔
اب پہلا موقعہ ہے کہ جنرل کیانی نے براہِ راست سیاست میں مداخلت سے گریز کیا ہے اور موجودہ حکومت نے اپنے دور میں اس ملک کے ساتھ جو دشمنی کی ہے اس میں حکومت کا ساتھ دینے پر بھی فوج پر الزامات لگ رہے ہیں۔ فوج کی بھی مجبوریاں ہیں، موجودہ حکومت میں فوج دہشت گردی سے نمٹنے اور قربانیاں دینے میں مصروف ہے تو بھی بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے اُسے سیاست میں مداخلت کی دعوت دی جاتی ہے۔ فوج سیاسی مداخلت کرے یا نہ کرے مگر پھر بھی نشانہ بن رہی ہے۔
بطور ادارہ فوج پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا، مگر بعض حریص جنرلوں نے اپنی مرضی یا ذاتی مفاد کے لیے اپنے ساتھی جنرلوں کو استعمال کیا اور نشانہ پوری فوج کو بنایا گیا، حالانکہ اس کی ذمے دار صرف فوج بطور ادارہ کبھی نہیں سمجھی گئی اور اب فوج کو دباؤ میں رکھنے کے لیے بعض سیاستدان بعض جنرلوں کے ماضی کے کردار کو اُچھال رہے ہیں اور بعض سیاستدان خود معصوم بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوج بطور ادارہ اپنی صفائی پیش نہیں کرسکتی جب کہ سیاستدان اس سلسلے میں مکمل آزاد ہیں حالانکہ وہ خود اس سلسلے کے اصل ذمے دار ہیں اور ان ہی کی وجہ سے ماضی میں جنرلوں کو اقتدار پر قبضے کا موقعہ ملا، مگر اس کی سزا فوج کو دی گئی جس کی صرف وہ ذمے دار نہیں تھی ابن الوقت اور عیارسیاستدان بھی تھے۔