صادق خان جیت تو گئے لیکن لندن کی ترقی مشکل ہے

صادق خان کی مستقل مزاجی اور کبھی نہ ہار ماننے والی فطرت نے انہیں اس بڑے اعزاز کا حقدار بنا دیا۔


احتشام شاہد May 09, 2016
صادق خان پر یہ مسلسل دباو ہوگا کہ وہ پاکستانی مسلمان ہیں، اور اگر اُن کے کسی بھی فیصلے سے پاکستانیوں یا مسلمانوں کو اضافی سہولیات ملیں گی تو تنقید شروع نہ ہوجائے۔ فوٹو: رائٹرز

جدید زمانے کے اتھینز اور دنیا کے سب سے زیادہ بارسوخ شہر لندن کے سیاہ اور سفید کا مالک بننا یقیناً ایک بڑا اعزاز ہے، لیکن اگر یہ اعزاز کسی ایسے شخص کو مل جائے جس کی پیدائش تو وہیں کی ہو لیکن آج بھی سرکاری دستاویزات میں لاکھوں دوسرے تارکین وطن کی طرح اپنی آبائی شناخت کے حوالے سے پاکستانی نژاد برطانوی کہلاتا ہو تو اِس خبر کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

صادق خان یقیناً اس کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی مستقل مزاجی اور کبھی نہ ہار ماننے والی فطرت نے انہیں اس اعزاز کا حقدار بنا دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ صادق خان قسمت کے بھی دھنی ہیں اور ساتھ ساتھ چالاکی سے حالات کو استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ ان کے لئے یہ مقابلہ شروع سے ہی آسان نہیں تھا کیونکہ انہیں اپنی جماعت لیبر پارٹی کے اندر سے ہی شدید مخالفت کا سامنا تھا۔ ابتدائی طور پر یہی گمان کیا جارہا تھا کہ لندن کے مئیر کے لیے لیبر پارٹی ٹیسا جوئل کو ہی نامزد کرے گی۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ 23 سالوں سے ممبر پارلیمنٹ ہیں، پھر اِس خصوصیت کے علاوہ دوسری اہم بات یہ تھی کہ اُن کے سابق لیبر وزیراعظم ٹونی بلیئر سے تعلقات بہت قریبی اور خوشگوار ہیں۔ لیکن اِس تمام تر گمان کے باوجود صادق خان نے ہمت نہیں ہاری بلکہ انہوں نے لیبر پارٹی میں موجود جریمی کوربین کے حمایتی اور مخالفین دونوں گروپس میں اپنے لئے حمایت پیدا کی اور اِس کامیاب مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ لندن کے میئر کا انتخاب صادق خان ہی لڑیں گے۔



صادق خان کا اصل مقابلہ ہونا تھا کنزرویٹو پارٹی کے اُمیدوار زاک گولڈ سمتھ سے۔ چونکہ میں نے انتخاب کے ماحول کا خود موازنہ کیا ہے اس لیے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انتخاب سے چند ہفتے قبل تک زاک گولڈ اسمتھ ہی فاتح اُمیدوار قرار دیے جارہے تھے، لیکن اُن کی ایک غلطی کے سبب اُن کی ساری مقبولیت دم توڑ گئی، اور وہ غلطی یہ تھی کہ انہوں نے صادق خان پر شدت پسندوں کا ساتھ دینے سے متعلق جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگانے شروع کردیے۔ مقامی لوگوں نے اِس طرز کی مہم کو منفی انداز میں لیا اور سمجھ لیا کہ گولڈ اسمتھ لوگوں کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ لندن کے 38 فیصد غیر سفید فام بشمول 13 فیصد مسلمانوں نے اس پر غصے کا اظہار کیا۔ بس یہی وہ وقت تھا جب صادق خان کو سمجھ آگئی کہ ہوا نے اُن کے حق میں چلنا شروع کردیا ہے جس کا صادق خان نے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔



لندن میں پہلی مرتبہ براہ راست مئیر کا انتخاب 2000 میں ہوا، اور اِس کا سہرا 1998 میں ہونے والے ریفرنڈم کو جاتا ہے جس میں لوگوں کی اکثریت نے اپنا پلڑا براہ راست انتخابات کے حق میں ڈالا تھا۔ اِس حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ لندن کی عوام نے لگاتار دو مئیرز کو دو دو بار مواقع دیے ہیں۔ کین لیونگ اسٹون وہ خوش قسمت فرد ہیں جن کو پہلی مرتبہ مئیر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اِس بار انہوں نے آزاد انتخاب لڑا تھا لیکن 2004ء میں لیبر پارٹی نے اُن کو ٹکٹ دیا اور وہ 8 لاکھ 28 ہزار 390 ووٹ لیکر ایک بار پھر کامیاب ہوگئے۔ 2008ء میں بھی لیبر پارٹی نے لیونگ اسٹون کو ہی ٹکٹ دیا تھا لیکن اِس بار ان کو کنزرویٹو پارٹی کے بورس جانسن کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ پھر 2012ء میں بھی بورس جانسن ہی فتحیاب ہوئے تھے اور 2016ء میں ایک بار پھر لیبر پارٹی نے میدان مارا اور اُن کے لیے یہ کامیابی صادق خان نے حاصل کی۔

اب تک ہونے والے پانچ انتخابات میں یہ نقطہ انتہائی قابل غور ہے کہ دونوں ہی جماعتوں کے پاس 45 فیصد ووٹر ایسے ہیں جو کبھی بھی مخالف پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے، جبکہ 10 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی ذہن سازی سے نتائج میں تبدیلی ممکن ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ لندن وہ شہر ہے جہاں سب سے زیادہ تارکین وطن رہتے ہیں اور ان تارکین وطن کی اکثریت کنزرویٹو سے اس لیے خائف ہیں کہ اُن کے دور میں تارکین وطن کے لیے ویزا پالیسی بھی سخت کردی جاتی ہے جبکہ ان کو ملنے والے فوائد میں بھی کٹوٹی کردی جاتی ہے۔ 2015ء کے انتخابات میں اگرچہ کنزرویٹو پارٹی کو ہی کامیابی ملی لیکن یہ بات نقطہ دلچسپ ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت نے لیبر پارٹی کو ہی ووٹ دیا، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان انتخابات میں کل 13 مسلمان پارلیمنٹ میں پہنچے تھے جن میں 8 خواتین شامل ہیں، اور ان 13 میں سے 9 کا تعلق لیبر پارٹی سے تھا۔

چلیں اب مسلمانوں کا ذکر آ ہی گیا ہے تو میرا صادق خان کی کامیابی کے باوجود ایک بار پھر مسلمانوں کے سیاسی شعور پر سوالیہ نشان اٹھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ ایسا کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس ووٹ کرنے کے لیے جارج گیلووے کا آپشن بھی موجود تھا۔ یقیناً کچھ لوگ پریشان ہورہے ہونگے کہ گیلووے یہاں کہاں سے آگئے؟ تو جناب معاملہ کچھ یوں ہے کہ جارحانہ بیانات اور دہشت گردی کے خلاف اپنے حق میں مبنی سوالات اٹھانے کے لئے مشہور جارج گیلووے کے بارے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی تھی کہ فلسطین، عراق اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی اور مظالم کے خلاف گیلووے کی آواز بہت نمایاں ہے۔ لیکن شاید صرف کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی کل آبادی کا 38 فیصد حصہ لندن میں مقیم ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اُن کے ووٹ سے جارج گیلووے کی فتح کا کوئی امکان نہیں تھا اور جارج خود بھی یہ بات جانتے تھے لیکن اگر مسلمان جارج کو ووٹ دیتے تو نہ صرف برطانیہ میں بلکہ دنیا بھر میں یہ پیغام ضرور جاتا کہ مسلمان ہر اُس فرد کی حمایت کریں گے جو ان کے خلاف ہونے والے مظالم پر آواز بلند کریگا۔ یوں گیلووے کو بھی اعتماد ملتا کہ اُن کی آواز پر مسلمان لبیک کہہ رہے ہیں اور مخالفین کو بھی پیغام ملتا کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کا اتحاد مثالی ہے۔

اب آتے ہیں اِس نقطے کی طرف کہ کیا صادق خان کامیاب ہوسکیں گے؟ وہ وعدے پورے کرسکیں گے جو انہوں نے انتخابی مہم میں عوام سے کیے تھے؟ کیا بطور مسلمان وہ مسلمانوں کے لیے کچھ کرسکیں گے؟ تو ان تمام سوالات کا جواب کم از کم میرے پاس تو 'نا' میں ہے۔ اِس 'نا' کی سب سے بڑی وجہ وہاں کا میڈیا ہے جو ابھی سے تعصب کی گند میں کود چکا ہے۔ ابھی صادق خان کو منتخب ہوئے دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ وہاں کی معروف ویب سائٹ 'ٹیلی گراف' نے صادق خان اور لیبر پارٹی کے تجربہ کار رہنما جیرمی کوربین کے درمیان غلط فہمی کی بنیاد ڈال دی۔ اخبار کہتا ہے کہ صادق خان نے فتح حاصل کرنے کے بعد جیرمی کوربین کو نظرانداز کردیا۔

'نا' کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ صادق خان پر یہ مسلسل دباو ہوگا کہ وہ پاکستانی مسلمان ہیں، اور اگر اُن کے کسی بھی فیصلے سے پاکستانیوں یا مسلمانوں کو اضافی سہولیات ملیں گی تو تنقید شروع نہ ہوجائے۔ بس اِس احتیاط کے چکر میں وہ اپنے ووٹرز سے دور ہوتے جائیں گے اور جتنا وہ دور ہوتے رہیں گے اُن کے لیے مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس طرح وہ عوام کی فلاح کے کام سے زیادہ انہی مسائل کو دور کرنے میں اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے۔ میرے ان خیالات کو ٹھیک حلف برداری کی تقریب بالکل ثابت کرتی ہے جو صادق خان کے کہنے پر چرچ میں منعقد ہوئی کیونکہ صادق خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ اس لیے چاہتے ہیں کہ تقریب چرچ میں ہو تاکہ مسلمانوں کے علاوہ بھی تمام مذاہب کے ماننے والوں کو محسوس ہو کہ وہ سب کے مئیر ہیں۔

[poll id="1104"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔


 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں