فیصلے قبول کرلیں

صدر زرداری نے گیلانی صاحب کو آگاہ کیا کہ سرائیکی صوبہ اس لیے نہیں بن سکتا کہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ۔


Abbas Athar November 18, 2012
[email protected]

KARACHI: یوں لگتا ہے جیسے یوسف رضا گیلانی ابھی تک یہ یقین نہ کرسکے ہوں کہ اب وہ سابق وزیراعظم ہیں اورانھیں یہ بھی سمجھ نہ آرہا ہو کہ جو خط وہ '' بوجوہ ''نہیں لکھ سکے، وہ راجہ پرویز اشرف نے ''بوجوہ'' کیسے لکھ دیا۔ خط لکھا جا چکا ، ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا ، اس نے بس سوئٹزر لینڈ پہنچنا تھا اور بس...

گیلانی صاحب نے بہر حال پارٹی کے لیے قربانی دی، گزشتہ روز صدر زرداری نے ملتان آکر ان کی قربانی کی قدر افزائی کی جو قومی اسمبلی میں عبدالقادر گیلانی کی طرف سے شکوے شکایات کا دفتر کھولنے کے بعد ضروری ہوگئی تھی۔ ویسے تو شکوے شکایات کی بات بس اخباری قیاس آرائی ہے، ایک ''سابق'' کے کیا شکوے اور کیا شکایات! غالباً اصل بات جو صدر صاحب گیلانی صاحب کو بتانے گئے تھے، وہ سرائیکی صوبے کا معاملہ تھا۔ گیلانی صاحب پچھلے کئی دنوں سے یہ بات بار بار دہرا رہے ہیں کہ مجھے سرائیکی صوبہ بنانے کی کوشش کے جرم میں برطرف کیا گیا۔ یہ بات وہ جذباتی ہو کر کہہ رہے ہیں ۔ ان کے خلاف الزام این آر او کیسے کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کا تھا اور قطع نظر اس بات کے کہ کیس صحیح تھا یا غلط، ریکارڈ درست رکھنے کے لیے یہ حقیقت یہاں بیان کرنا ضروری ہے کہ این آر او کیس کوئی تین سال پہلے چلنا شروع ہوا تھا جبکہ سرائیکی صوبے کی بات بہت بعد میں نکلی۔ گیلانی صاحب نے یقینا کچھ اور ''قصور'' کیے ہوں گے جن پر کچھ لوگ ان سے ناراض ہوئے ہوں۔ لیکن سرائیکی صوبہ ان ''قصوروں'' میں شامل نہیں۔

اس کی ایک وجہ تو تاریخ وار ترتیب ہے یعنی این آر او کیس پہلے چلا اور صوبے کی بات بعد میں آئی جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ جن حلقوں کی طرف گیلانی صاحب اشارہ کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے سزا دی، وہ حلقے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سرائیکی صوبہ بننے والی شے نہیں ہے،کم از کم مستقبل قریب میں اس کے بننے کا امکان نہیں۔ اس لیے کوئی بھی حلقہ محض سرائیکی صوبہ کا نام لینے پر گیلانی صاحب سے اتنا ناراض نہیں ہوسکتا کہ وہ انھیں وزارت عظمیٰ سے ہی ہٹا دے۔

صدر زرداری نے گیلانی صاحب کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ سرائیکی صوبہ اس لیے نہیں بن سکتا کہ پیپلز پارٹی کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے، اس بنیادی وجہ کے علاوہ سرائیکی صوبہ نہ بننے کی کچھ اور وجوہ بھی ہیں۔ اسلام آباد کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی اپنی اتحادی اے این پی بھی اس مسئلے پر اس کا ساتھ نہیں دے رہی ۔ وجہ صاف ہے۔ سرائیکی صوبے کی قرار داد پاس ہوتی ہے تو ہزارہ صوبے کی قرار داد بھی آئے گی جو اے این پی کو منظور نہیں۔ اے این پی ظاہری طور پر تو یہ اصولی بیان دے رہی ہے کہ وہ ہزارہ صوبے کی مخالف نہیں لیکن حقیقت کیا ہے، سب جانتے ہیں۔

اسی طرح ایک حقیقت سندھ میں بھی موجود ہے اور وہاں خوفناک رد عمل کی جو فضا بنتی نظر آرہی ہے، وہ محض بے بنیاد اندیشے پر نہیں حقیقت سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور رکھتی ہے اور اس خدشے کو نظر انداز نہیں کر نا چاہیے کہ انتخابات آتے آتے یا انتخابات کے فوراً بعد سندھ کی تقسیم کا جن یا تو بوتل سے باہرآجائے گا یا پھر حالات الٹی چال چل گئے تو بوتل سمیت کسی محفوظ مقام میں جا چھپے گا۔ فی الحال بات سرائیکی صوبے تک محدود رکھتے ہیں۔ اے این پی ہی نہیں، سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی سرائیکی صوبے کی مخالف ہیں بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق اس کی مزاحمت کے لیے بھی تیار ہیں۔ جب آپ کسی خاص زبان یا قومیت کے لیے صوبہ بنانے کی بات کریں گے تو یہ شرط کیسے لگائیں گے کہ اس قومیت کی حدود صرف پنجاب تک رکھی جائیں گی۔ نیا صوبہ ظاہر ہے سرائیکی زبان ا ور قومیت کی بنیاد پر بنے گا اور سرائیکی قوم کا ایک بہت بڑا حصہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خاں ڈویژن میں بھی آباد ہے، اسے بھی تو صوبہ خیبر سے الگ کرنا پڑے گا۔ اسی طرح ایک بہت بڑا تو نہیں لیکن قابل ذکر حصہ سندھ کے شمالی علاقے میں بھی آباد ہے اور وہاں ان کی اکثریت ہے۔

سندھ کے قوم پرست اس پریشانی سے دو چار ہیں کہ ان کے صوبے کے تین حصے کیے جارہے ہیں۔ کراچی سے حیدر آباد تک کا آدھا سندھ الگ کر دیا جائے گا اور بچے کھچے سندھ کا شمالی حصہ کاٹ کر سرائیکی صوبے میں شامل کر دیا جائے گا۔ بلوچ قوم پرست ہی نہیں ، دوسرے بلوچ رہنما بھی سرائیکی صوبے کے مخالف ہیں کیونکہ اس صوبے کا قیام بلوچستان کی نسلی بنیادوں پر تقسیم کا راستہ بھی ہموار کردے گا۔ شمالی بلوچستان میں پشتون اکثریت میں ہیں اور یہ رقبے کے اعتبار سے صوبے کا ایک تہائی علاقہ ہے لیکن وسائل کے اعتبار سے اس کی اہمیت ایک تہائی سے کہیں زیادہ ہے۔

بلوچ عوام اس تقسیم کے آسانی سے حامی نہیں ہوسکتے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ایک سے زائد مرتبہ نئے صوبے بنانے کی مخالفت کر چکے ہیں جس کی بنیاد یہی اندیشہ ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے یعنی گیلانی صاحب کی اپنی جماعت سے ہے۔ اس سلسلے میں راستے کی ایک بہت بڑی رکاوٹ بہاولپور کے عوام کی مخالفت ہے جو بہاولپور کو بطور صوبہ بحال کرانا چاہتے ہیں، سرائیکی صوبہ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس مطالبے کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہاولپور میں جاگیرداروں اور گدی نشینوں کا غلبہ نہیں جبکہ باقی سرائیکی علاقہ جاگیرداروں اور گدی نشینوں کے پنجے میں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بہاولپور کا علاقہ باقی سرائیکی علاقے کے مقابلے میں ''ترقی یافتہ'' ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ماضی میں عباسیوں کی حکومت تھی۔

سرائیکی صوبہ کے لیے جو بھی پیش رفت ہوسکتی ہے، وہ انتخابات کے بعد ہوسکتی ہے، انتخابات سے پہلے نہیں۔ پیپلزپارٹی میں گیلانی کے مقابلے میں زیادہ عقلیت پسند بلکہ عملیت پسند لیڈر موجود ہیں،وہ صورت حال کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ الیکشن سے پہلے اس ایشو کو اٹھانے کا کچھ اور نتیجہ تو نہیں نکلے گا، الٹا شمالی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم متاثر ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں گیلانی صاحب کو یہی ہمدردانہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ جس طرح انھوں نے اپنا ''سابق'' ہونا قبول کرلیا ہے، اسی طرح سے سرائیکی صوبے کی بات کو آئندہ انتخابات کے بعد کے زمانے کے لیے چھوڑنے کی مجبوری بھی تسلیم کرلیں۔ وہ فیصلہ قانون کی عدالت نے سنایا تھا۔ سرائیکی صوبے کے معاملے کو حالات کی عدالت کا فیصلہ سمجھ لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔