جمہوریت کی بقا

حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وطن عزیز جو بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا


Shakeel Farooqi May 10, 2016
[email protected]

FAISALABAD: برطانیہ کے نامور وزیراعظم سرونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ دنیا میں اب تک جتنی بھی اقسام کی حکومتیں آزمائی جاچکی ہیں ان کے ماسوائے جمہوریت سب سے بری طرز حکمرانی ہے۔ برطانیہ ہی کے معروف اہل قلم اور ممتاز ڈرامہ نویس برنارڈشا نے جمہوریت کا موازنہ گیس یا گرم ہوا سے بھرے ہوئے ایک بڑے سے غبارے سے کیا ہے جسے آپ آسمان کی طرف نظریں اٹھاکر (پانچ سال تک) ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہیں جب کہ اس دوران لوگ (حکمران) آپ کی جیبیں کاٹتے رہیں۔ جمہوریت کی وہ تعریف جو امریکی صدر ابراہم لنکن نے کبھی کی تھی کب کی فرسودہ اور بے معنی ہوچکی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کرپشن نے دنیا بھر میں جمہوریت کے امیج کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ کرپشن اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

جنوبی افریقہ کے صوبہ جیک زوما کو ان الزامات کا سامنا درپیش ہے کہ انھوں نے سیکیورٹی کے نام پر اپنے رہائشی محل پر 123 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں اور اس طرح قومی خزانے کو بڑا بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ ادھر برازیل کی صدر کے خلاف ان الزامات کی بنا پر عہدے سے برطرفی کی کارروائی کی جارہی ہے کہ انھوں نے مبینہ طور پر اسٹیٹ آئل کمپنی سے بڑی بھاری رشوت لی ہے۔

اس کے علاوہ خاتون صدرکے خلاف یہ الزام بھی عائد ہے کہ انھوں نے اس بھری رقم کو اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا ہے۔ دوسری جانب ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق کے خلاف یہ الزام تھا کہ انھوں نے سعودی عرب سے ملنے والی 700 ملین ڈالرکی خطیر رقم اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کرا کر قومی خزانے کی خیانت کی ہے۔

ادھر پاکستان میں آج کل پانامہ پیپرز کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے چرچے عام ہیں۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے درمیان اس موضوع پر زبردست رسہ کشی جاری ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پانامہ پیپرز میں ہمارے ملک کا واحد مسئلہ ہے جب کہ بے چارے مظلوم عوام بھوک، افلاس،بے روزگاری بڑھتی ہوئی مہنگائی اورگرمی کی شدت میں تیزی کے ساتھ اضافے کے ساتھ ساتھ اذیت ناک، طویل اور بار بار کی لوڈ شیڈنگ سے بری طرح نڈھال اور بے حال ہورہے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وطن عزیز جو بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا کرپٹ سیاست دانوں اور مفاد پرست حکمرانوں کے لیے محفوظ ترین جنت اور محب وطن اور محنت کش عوام کے لیے دوزخ سے بھی بد تر ہے۔

جمہوریت کے نام پر عوام کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے اور عوام بے چارے بے بس تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو ہمارے سیاسی قائدین بھولے بھالے عوام سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں اورانھیں روشن اور تابناک مستقبل کے حسین اور سہانے خواب دکھاتے ہیں۔ پھراس کے بعد جب وہ انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ''رات گئی بات گئی '' کے مصداق سب کچھ فراموش کردیتے ہیں اور عوام بے چاروں کی کیفیت اس محبوبہ کی سی ہوتی ہے جو تھک ہار کر یہ رونا رورہی ہوتی ہے کہ :

''وعدہ کرکے صنم تم نہ آئے''

وزیراعظم اور دیگر وزرا تو دورکی بات، بے چارے ووٹرزکی رسائی ایم این اے اور ایم پی اے تک بھی نہیں ہوتی عوام کے منتخب نمایندے اسمبلیوں میں جاکر اپنے ووٹرزکو بالکل بھول جاتے ہیں اور اپنی ممبری کی پوری مدت سرکاری فوائد اورمراعات حاصل کرنے میں گزار دیتے ہیں۔اسمبلی کی ممبری کے بہت سے دیگر فوائد اس کے علاوہ ہیں، عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ ممبران اسمبلی دیکھتے ہی دیکھتے مال دار اور خوش حال ہوجاتے ہیں۔ بقول شاعر:

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا

ہمارے کرپٹ سیاست دانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نہ انھیں اپنے ووٹرز سے کیے ہوئے وعدوں کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی خوف خدا ہے انھوں نے روز محشر اور روز جزاکو یکسر فراموش کیا ہوا ہے، ساحر لدھیانوی نے اس کیفیت کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے:

دھن دولت کے پیچھے کیوں ہے یہ دنیا دیوانی
یہاں کی دولت یہاں رہے گی ساتھ نہیں یہ جانی

سوچنے کی بات یہ ہے کہ سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے۔ بد قسمتی سے جمہوریت کے نام پر عوام کے ساتھ فراڈ کیا جارہا ہے اور عوام کو باری باری سے بے وقوف بنایا جا رہا ہے، جمہوریت کے نام پر رچائے جانے والے ناٹک میں سارا کھیل پیسے کے بل پرکھیلا جاتا ہے، انتخابی مہمات میں روپیہ پانی کی طرح سے بہایا جاتا ہے اور اس کے بعد الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے لوٹ مارکا بازارگرم کردیا جاتا ہے۔

اس طرح درحقیقت سیاست ایک بہت بڑی اور زبردست سرمایہ کاری ہے جس میں سود در سود سے بھی بڑھ کرکمائی کی جاتی ہے، اتنی زبردست کمائی کہ اس کے بعد آنے والی سات پشتوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ ظلم اور نا انصافی کی انتہا ہے کہ اس ملک کے حکمران بیرونی ممالک میں دولت کے انبار لگانے میں مصروف ہیں، جب کہ عوام کو دو وقت کی روٹی اور پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا سد باب کس طرح کیا جائے؟ بہ ظاہر یہ ایک چھوٹا سا سوال ہے لیکن درحقیقت یہی سب سے بڑا اور مشکل سوال ہے، دھرنے، مظاہرے اور احتجاج اس کے آسان سے جوابات ہیں اور تنگ آمد بہ جنگ آمد ان کا سیدھا سا جواز ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز اس طریقہ کارکا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ آئے دن کے مظاہروں اور احتجاج سے نہ صرف کاروبار زندگی ٹھپ ہوجاتا ہے بلکہ ملک کی معیشت کا پہیہ بھی جام ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں قرضوں کے بوجھ میں اضافے پر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
سوئزرلینڈ نے جمہوریت کی خامیوں کا حل مزید جمہوریت کی شکل میں تلاش کیا ہے جس کی ایک صورت ریفرنڈم ہے، ہمارے ملک میں اس کا علاج یہ ہے کہ اگر حکومت اپنی سرخ روئی ثابت کرے۔ بصورت دیگر تمام الزامات کی بے لاگ تحقیقات کرانے کے لیے ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جس کی ٹرمز آف ریفرنس پر حکومت اور اپوزیشن میں مکمل اتفاق رائے ہو۔ جمہوریت کی بقا اسی میں مضمر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔