عوامی مینڈیٹ کا احترام ضروری

جمہوری نظام میں اپوزیشن کی موجودگی اور اس کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔


[email protected]

جمہوری نظام میں اپوزیشن کی موجودگی اور اس کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اپوزیشن حکومت کے کاموں پر نظر رکھتی ہے اور جہاں گنجائش موجود ہو ان پر نکتہ چینی بھی کرتی ہے اور اصلاح کے لیے تجاویز بھی دیتی ہے۔ لیکن اپوزیشن جب تنقید برائے تنقید کرتی ہے تو اس سے جمہوریت کی خدمت نہیں ہوتی بلکہ جمہوری نظام کے خطرات سے دوچار ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں اپوزیشن نے تنقید برائے تنقید کا کردار منتخب کرلیا ہے اور پاناما لیکس کی آڑ میں حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہے حالانکہ جب پاناما لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو یہ بات بالکل عیاں تھی کہ اس میں وزیر اعظم کا نام شامل نہیں تھا اس سلسلے میں آئی سی آئی جے کو بھی وضاحت جاری کرنی پڑی۔ البتہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کے صاحبزادوں سمیت 200 سے زائد پاکستانیوں کا نام پاناما لیکس میں سامنے آیا ہے۔ ان میں پی ٹی آئی کے بعض رہنما، ان کے صاحبزادے، پیپلزپارٹی کے بعض رہنما، تاجر، صنعتکار اور بیوروکریٹس بھی شامل ہیں لیکن اپوزیشن نے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اس موقع کو غنیمت جانا اور وزیر اعظم نوازشریف کے خلاف طوفان کھڑا کردیا۔

وزیر اعظم محمد نوازشریف نے کھلے دل کے ساتھ اپنے آپ کو اور اپنے پورے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کردیا اور ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ اور اپوزیشن کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ اس معاملے میں تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔ لیکن میں نہ مانو والی سیاست کا یہ شاخسانہ تھا کہ اب پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا حاضر سروس جج سے تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔ چونکہ موجودہ حکومت کے ہاتھ صاف ہیں لہٰذا اس نے تحقیقاتی کمیشن بنانے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کمیشن کی سربراہی کرنے کی تجویز بھی تسلیم کرلی اور اس ضمن میں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو ایک خط لکھ کر کمیشن بنانے کی درخواست کی گئی۔

لیکن چونکہ اپوزیشن ہٹ دھرمی پر اتری ہوئی ہے اس لیے اس نے ضابطہ کار (ٹرمز آف ریفرنس ) پر ایک نیا تنازع پیدا کردیا۔ اپوزیشن کی مختلف پارٹیاں مختلف رائے رکھتی ہیں حکومت اور اپوزیشن کے بعض رہنماؤں کے بیانات کے بعد ملک بھر میں سیاسی گرما گرمی کا ماحول پیدا ہوگیا۔ اسی سیاسی گرما گرمی کے ماحول میں بعض اپوزیشن جماعتوں کو جمع کیا گیا۔ یوں اپوزیشن کی 9 پارلیمانی جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا لیکن جو منظر نامہ سامنے آیا اس کے مطابق پاناما لیکس کے حوالے سے ان جماعتوں میں بعض نکات پر اتفاق رائے پایا گیا تو دوسری جانب ان میں کئی امور پر اختلاف رائے بھی موجود تھا۔ اتفاق رائے ان امور پر پایا گیا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور اس کا آغاز شریف خاندان سے کیا جائے۔

تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ حکومت نے جن ٹرمز آف ریفرنس کا اعلان کیا ہے وہ اپوزیشن کو منظور نہیں۔ کمیشن کے لیے قانون سازی پر اپوزیشن سے مشاورت کی جائے۔ اجلاس میں یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آئی کہ ٹرمز آف ریفرنس کے حوالے سے اپوزیشن کی جماعتوں میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ اپوزیشن جماعتیں عوامی جلسوں اور ریلیوں میں وزیر اعظم محمد نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں مگر مشترکہ اجلاس میں اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ چھوٹی پارٹیوں کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کے خاندان پر ابھی صرف الزامات عائد کیے گئے ہیں ان الزامات کو ثابت کرنا ابھی باقی ہے لہٰذا استعفے کا مطالبہ ابھی قبل ازوقت ہے یوں بھی نوازشریف منتخب عوامی وزیر اعظم ہیں لہٰذا عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے۔ بیشتر سیاسی تجزیہ نگاروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اجلاس نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں میں ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہے۔

بعض جماعتوں کو یہ خوف ہے کہ کہیں ان کی سیاسی جدوجہد کا سارا فائدہ پی ٹی آئی کو نہ پہنچ جائے جب کہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن بھی خاصی کمزور ہے کیونکہ حکومت سندھ پر بیڈ گورنینس اور کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ لاہور میں ہونے والے عوامی جلسہ بھی اس کی واضح مثال ہے۔

جہاں تمام تر کوششوں کے باوجود 10، 15 ہزار افراد کو ہی جمع کیا جاسکا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب تو اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر اختلافات ہیں اور دوسری جانب تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے جس کا آغاز خود اپوزیشن نے کیا تھا مگر پہلے حکومت ان ہتھکنڈوں کو نظر انداز کر رہی تھی لیکن حکومت کی جانب سے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا جارہا ہے۔ کوئٹہ میں ہیلتھ کارڈ کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد نوازشریف نے کہا کہ آج تک ان پر ایک پائی کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔

اس لیے مخالفین کو 2018 کے انتخابات کے بعد بھی صبر سے کام لینا ہوگا۔ اس موقع پر وزیر اعظم بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے تندوتیز تقریر کرتے ہوئے مخالفین پر واضح کیا کہ اگر ن لیگ کو حکومت نہیں کرنے دی گئی تو ہم کسی بھی حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے۔ اسی طرح بنوں میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد نوازشریف نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ایک پائی کی کرپشن ثابت ہوئی تو ایک منٹ میں گھر چلا جاؤں گا۔ ہم گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرنے والے نہیں، عوام کا مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئے ہیں ان ہی کے کہنے پر گھر جائیں گے۔

استعفے مانگنے والے خود کو کیا سمجھتے ہیں یہ منہ اور مسور کی دال۔ ان کو ابھی نہیں پتہ ان کا پالا کس سے پڑا ہے انھوں نے کے پی کے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کہاں ہے نیا خیبر پختونخواہ ، نیا خیبر پختونخواہ ہم بنائیں گے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پرانے اسکول، ناکارہ اسپتال دیکھ کر دکھ ہوا۔ لوگ خود دیکھ لیں کون منفی اور کون ترقی کی سیاست کررہا ہے۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف پر مسلسل تنقید کی جاتی رہی ہے اب ان کا لہجہ بھی تلخ ہوگیا ہے جب کہ حکومت اپوزیشن کے بیشتر مطالبات بھی تسلیم کرتی رہی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ وطن عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ کشیدگی، تناؤ اور مزاحمت کا ماحول ہمیشہ متحارب سیاسی فریقین کے لیے نقصان کا سبب بنتا ہے۔ مسلسل متخارب اور متصادم سیاسی ماحول طاقتور ممالک کی اقتصادی توانائی کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ کشیدہ ماحول میں اقتصادی ترقی کے سفر کا رک جانا ایک فطری عمل ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ محض تنقید برائے تنقید کے حامل جارحانہ منفی بیانات کا سلسلہ پاکستان کی داخلی معیشت کے استحکام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا باعث بنے گا۔ یوں بھی موجودہ حکومت کے 3 سالہ دور میں زوال پذیر معیشت کو بمشکل سنبھالا دیا گیا ہے جس کا اعتراف ملکی و بین الاقوامی ادارے بھی کررہے ہیں۔

ان حالات میں معاشی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوسکتی ہے اور یہی بات حکومت کے حلقوں کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔ سیاست اپنی جگہ مگر ملک کی معاشی ترقی کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت اور اپوزیشن کو تدبر اور حکمت عملی سے کام لینا چاہیے اور متنازع امور پر کھلے دل سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ میں خاص طور پر اپوزیشن سے درخواست کروں گا کہ حکومت کے خلاف محاذ آرائی اور ہنگامہ خیزی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے یا تو مذاکرات شروع کیے جائیں یا پھر پارلیمنٹ کے منتخب فورم پر مباحثے کا آغاز کیا جائے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ حالات کو محاذ آرائی کی جانب بڑھنے سے روکے اور بحران کا کوئی موثر اور پر امن حل تلاش کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں