عاقب بھائی نے غلط نہیں کہا تھا
انکی خاصیت یہ بھی ہے کہ انکے دوستوں نےملکی وقارکوبیچ کر فکسنگ سے اربوں روپے ناجائز انداز سے کما لیے لیکن وہ دور ہی رہے
ISLAMABAD:
''کیا میں آپ کے ساتھ ایک تصویر بنوا سکتا ہوں، میں نے اپنی آٹوگراف بک واپس لیتے ہوئے ڈرتے ڈرتے اس اسٹار کرکٹر سے پوچھا''
''ہاں آ جاؤ''
اثبات میں جواب پا کر میں خوشی سے ان کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا، کلک کی آواز آتے ہی میں وہاں سے ہٹا اور دیگر پرستار اپنے ہیرو سے ملنے لگے، یہ واقعہ بختیاری یوتھ سینٹر کا تھا، میں اس وقت میٹرک کا طالبعلم اور کرکٹ کا بے انتہا شوقین تھا، ورلڈکپ 1992 میں فتح کے بعد پاکستانی کرکٹرز مقبولیت کی بلندی پر پہنچے ہوئے تھے، یہ تصویر اب بھی دفتر میں میری ٹیبل کے سامنے لگی ہے،اسے دیکھ کر میں ہمیشہ خود سے یہ کہتا ہوں کہ '' یہ تم تھے اپنا ماضی یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ قدم زمین پر رکھو'' بعد میں جب کرکٹ میگزین اخبار وطن جوائن کیا تو عاقب جاوید سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ان کے کئی یادگار انٹرویوز کیے، اس دوران میں نے ان کے بارے میں یہ جانا کہ وہ صاف گو انسان ہیں، بعض اوقات فلسفیانہ انداز بھی اپنا لیتے ہیں مگر انھیںکرکٹ کی گہری سمجھ ہے۔
ان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ان کے ''دوستوں'' نے ملکی وقار کو بیچ کر فکسنگ سے اربوں روپے ناجائز انداز سے کما لیے لیکن وہ ان سے دور ہی رہے بلکہ ساتھیوں کو بھی ایسی چیزوں سے بچانے کی کوشش کرتے رہے، جیسے جسٹس قیوم رپورٹ میں بھی درج ہے کہ وقار یونس نے ایک بکی سے جیپ لی مگر عاقب کے کہنے پر واپس کر دی، وہی عاقب اب پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کے امیدوار تھے، وہ چند برس قبل کوچنگ کیلیے یو اے ای منتقل ہو گئے تھے، وہاں انھوں نے اپنی ذمہ داری سے خوب انصاف بھی کیا اورٹیم نے کئی کامیابیاں سمیٹیں، اب عاقب کی خواہش تھی کہ ملک میں خدمات انجام دیں، مگر بورڈ ان دنوں ''مخصوص ماضی'' کے حامل کرکٹرز پر مہربان ہے۔
اس نے انضمام الحق کو چیف سلیکٹر بنا دیا اور کوچ ہنٹ کمیٹی میں وسیم اکرم کو شامل کر لیا، گوکہ رمیز راجہ سے کوئی منفی بات نہیں جڑی لیکن بیرون ملک کمنٹری کرتے کرتے وہ اب آدھے غیرملکی ہو گئے ہیں، وسیم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، یہ دونوں اپنے ہم وطنوں کو کچھ نہیں سمجھتے اور باہر والے ہی ان کی نظر میں بہترین ہیں، اگر چیف سلیکٹر بھی انھیں منتخب کرنا ہوتا تو بھی ڈین جونز یا کسی اور کو بنا دیتے، غیرملکی کوچ کی جانب رجحان کا انھوں نے میڈیا پر بیان بھی دیا۔
یہیں سے عاقب کو سمجھ میں آ گیا کہ درخواست دینے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر ان کا تعلق آسٹریلیا یا جنوبی افریقہ سے ہوتا یہ دونوں تب ہی غور کرتے، اسی لیے انھوں نے اپلائی کرنے سے گریز کیا، ماضی میں ثقلین مشتاق، جلال الدین اور دیگر بعض پاکستانی بھی کوچ کیلیے درخواست دے چکے ہیں اس بار انھوںنے بھی ایسا نہ کیا، وجہ یہی بنی کہ پہلے وقار یونس کو ذمہ داری سونپنے کا ذہن بنا لیا گیا تھا اب غیرملکی کوچ لانے کا فیصلہ ہو چکا تھا،محسن خان بھی جانتے تھے کہ ایسا ہی ہو گا لہٰذا چیئرمین کو خط لکھا مگر باقاعدہ درخواست نہ کی، اب یہ بات واضح ہو چکی کہ عاقب بھائی غلط نہ تھے، ثقلین نے بھی اپلائی نہ کر کے درست کیا،وسیم اکرم اگر کہہ رہے ہیں کہ ''انھیں ملکی کوچز پر غصہ ہے کہ درخواست کیوں نہ دی'' تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں، اگر مجھے بھی پتا ہو کہ فلاں جاب کیلیے کسی اور کا انتخاب کر لیا گیا ہے تو کیوں اپلائی کروںگا؟ یہ تو کامن سینس کی بات ہے، دراصل یہ بات کرکٹ بورڈ کیلیے آئینہ ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں کھیل کے معاملات کیسے چلائے جا رہے ہیں۔
اشتہار دے کر محض رسمی کارروائی پوری کی جاتی ہے، فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے، میں اگر غلط ہوں تو آپ اخبارات کی فائلز چیک کر لیں کہ پچھلی بار کوچ کا اشتہار آنے سے کتنے عرصے قبل بورڈ حکام خود کہہ چکے تھے کہ وقار یونس یہ عہدہ سنبھالیںگے، اب بھی غیرملکی کے تقرر کا پہلے ہی کہہ دیا گیا تھا،اسی لیے اچھے ملکی کوچزکا اس سسٹم سے دل اچاٹ ہو گیا ہے، یہی معاملہ ڈائریکٹر اکیڈمی کا ہے، اس کیلیے مدثر نذر کو لانے کی کوشش ہو رہی ہے، یو اے ای میں رہ کر لاکھوں درہم کمانے کے بعد اب انھیں بھی دوبارہ قائد اعظم کی تصاویر جمع کرنے کا شوق ہونے لگا، رسمی کارروائی کیلیے اشتہار جاری ہوا اور گریجویٹ امیدواروں سے درخواستیں مانگی گئیں، ایسے میں شور مچا کہ مدثر تو گریجویٹ ہے ہی نہیں، اس پر اطلاعات کے مطابق یہ شرط ختم کر دی گئی، بھلا اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
بورڈ حکام سے درخواست ہے کہ خدارا کم از کم کوچز وغیرہ کی تقرری میں تو شفافیت لائیں ، آرتھر کتنے بڑے کوچ ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن سسٹم پر لوگوں کا اعتماد ختم نہ کریں، سب کو درخواست دینے کا موقع تو دیں، پہلے سے کہہ دیں گے کہ غیرملکی یا آدھے غیرملکی مدثر آئیں گے تو پھر اشتہار دے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکیں، وقار یونس ٹیم کا تیا پانچہ کر کے اپنے نئے ملک آسٹریلیا چلے گئے، ون ڈے رینکنگ میں ہمارا نمبر 9ہو چکا اور ورلڈکپ کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے کا خطرہ لاحق ہے۔
اب تو سوچ سمجھ کر فیصلے کریں ورنہ ٹیم کا اور برا حال ہو جائے گا، اسی طرح سفارشی کلچر بھی عروج پر ہے، پاکستان کپ میں بعض کپتانوں نے اپنے من پسند کوچز کو ذمہ داری دلائی اب جونیئر ٹیموں کے ساتھ بھی ایسا ہونے والا ہے، سنا ہے کہ ڈسپلن کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے مشہور ایک ''امپورٹیڈ کرکٹر'' اے ٹیم کا کوچ بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اگر ایسا ہوا تو جونیئر کرکٹ کا اﷲ ہی حافظ ہے، انتخاب عالم اور ذاکرخان کوڈائریکٹر جبکہ آغا اکبر کو جی ایم کے عہدوں سے ہٹا کر اپنے راستے کی رکاوٹیں تو دور کر لی گئیں مگر ان کے ''بڑوں'' کو ناراض نہ کرنے کیلیے حیران کن طور پر انھیں گھر بیٹھے سابقہ تنخواہیں دی جا رہی ہیں، دیگر مراعات بھی برقرار ہیں، انتخاب اور آغا کی تنخواہوں کا جواز برقرار رکھنے کیلیے انھیں بطور ٹیم منیجر اور میڈیا منیجر سینئر ٹیم پر مسلط کر دیا گیا، ذاکر جونیئر ٹیم سے چمٹ گئے۔
ایسے میں بیچارے اہل افراد کہاں جائیں گے؟ عہدوں کی بندربانٹ تو انہی گنے چنے لوگوں میں ہو رہی ہے، اسی طرح صرف نیٹ سیشنز کرانے کی قابلیت یا کسی اعلیٰ شخصیت کی نظرکرم شاہد اسلم کو ہر ٹور پر ٹیم کے ساتھ لے جاتی ہے، اگر آپ ایک فہرست بنائیں تو چند لوگ ہی نوازے جاتے نظر آئیں گے، باصلاحیت مگر سفارش یا جوڑ توڑ کی صلاحیت سے محروم سابق کرکٹرز بیچارے سائیڈ لائن ہیں، شاید اسی وجہ سے ہماری کرکٹ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
''کیا میں آپ کے ساتھ ایک تصویر بنوا سکتا ہوں، میں نے اپنی آٹوگراف بک واپس لیتے ہوئے ڈرتے ڈرتے اس اسٹار کرکٹر سے پوچھا''
''ہاں آ جاؤ''
اثبات میں جواب پا کر میں خوشی سے ان کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا، کلک کی آواز آتے ہی میں وہاں سے ہٹا اور دیگر پرستار اپنے ہیرو سے ملنے لگے، یہ واقعہ بختیاری یوتھ سینٹر کا تھا، میں اس وقت میٹرک کا طالبعلم اور کرکٹ کا بے انتہا شوقین تھا، ورلڈکپ 1992 میں فتح کے بعد پاکستانی کرکٹرز مقبولیت کی بلندی پر پہنچے ہوئے تھے، یہ تصویر اب بھی دفتر میں میری ٹیبل کے سامنے لگی ہے،اسے دیکھ کر میں ہمیشہ خود سے یہ کہتا ہوں کہ '' یہ تم تھے اپنا ماضی یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ قدم زمین پر رکھو'' بعد میں جب کرکٹ میگزین اخبار وطن جوائن کیا تو عاقب جاوید سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ان کے کئی یادگار انٹرویوز کیے، اس دوران میں نے ان کے بارے میں یہ جانا کہ وہ صاف گو انسان ہیں، بعض اوقات فلسفیانہ انداز بھی اپنا لیتے ہیں مگر انھیںکرکٹ کی گہری سمجھ ہے۔
ان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ان کے ''دوستوں'' نے ملکی وقار کو بیچ کر فکسنگ سے اربوں روپے ناجائز انداز سے کما لیے لیکن وہ ان سے دور ہی رہے بلکہ ساتھیوں کو بھی ایسی چیزوں سے بچانے کی کوشش کرتے رہے، جیسے جسٹس قیوم رپورٹ میں بھی درج ہے کہ وقار یونس نے ایک بکی سے جیپ لی مگر عاقب کے کہنے پر واپس کر دی، وہی عاقب اب پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کے امیدوار تھے، وہ چند برس قبل کوچنگ کیلیے یو اے ای منتقل ہو گئے تھے، وہاں انھوں نے اپنی ذمہ داری سے خوب انصاف بھی کیا اورٹیم نے کئی کامیابیاں سمیٹیں، اب عاقب کی خواہش تھی کہ ملک میں خدمات انجام دیں، مگر بورڈ ان دنوں ''مخصوص ماضی'' کے حامل کرکٹرز پر مہربان ہے۔
اس نے انضمام الحق کو چیف سلیکٹر بنا دیا اور کوچ ہنٹ کمیٹی میں وسیم اکرم کو شامل کر لیا، گوکہ رمیز راجہ سے کوئی منفی بات نہیں جڑی لیکن بیرون ملک کمنٹری کرتے کرتے وہ اب آدھے غیرملکی ہو گئے ہیں، وسیم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، یہ دونوں اپنے ہم وطنوں کو کچھ نہیں سمجھتے اور باہر والے ہی ان کی نظر میں بہترین ہیں، اگر چیف سلیکٹر بھی انھیں منتخب کرنا ہوتا تو بھی ڈین جونز یا کسی اور کو بنا دیتے، غیرملکی کوچ کی جانب رجحان کا انھوں نے میڈیا پر بیان بھی دیا۔
یہیں سے عاقب کو سمجھ میں آ گیا کہ درخواست دینے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر ان کا تعلق آسٹریلیا یا جنوبی افریقہ سے ہوتا یہ دونوں تب ہی غور کرتے، اسی لیے انھوں نے اپلائی کرنے سے گریز کیا، ماضی میں ثقلین مشتاق، جلال الدین اور دیگر بعض پاکستانی بھی کوچ کیلیے درخواست دے چکے ہیں اس بار انھوںنے بھی ایسا نہ کیا، وجہ یہی بنی کہ پہلے وقار یونس کو ذمہ داری سونپنے کا ذہن بنا لیا گیا تھا اب غیرملکی کوچ لانے کا فیصلہ ہو چکا تھا،محسن خان بھی جانتے تھے کہ ایسا ہی ہو گا لہٰذا چیئرمین کو خط لکھا مگر باقاعدہ درخواست نہ کی، اب یہ بات واضح ہو چکی کہ عاقب بھائی غلط نہ تھے، ثقلین نے بھی اپلائی نہ کر کے درست کیا،وسیم اکرم اگر کہہ رہے ہیں کہ ''انھیں ملکی کوچز پر غصہ ہے کہ درخواست کیوں نہ دی'' تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں، اگر مجھے بھی پتا ہو کہ فلاں جاب کیلیے کسی اور کا انتخاب کر لیا گیا ہے تو کیوں اپلائی کروںگا؟ یہ تو کامن سینس کی بات ہے، دراصل یہ بات کرکٹ بورڈ کیلیے آئینہ ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں کھیل کے معاملات کیسے چلائے جا رہے ہیں۔
اشتہار دے کر محض رسمی کارروائی پوری کی جاتی ہے، فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے، میں اگر غلط ہوں تو آپ اخبارات کی فائلز چیک کر لیں کہ پچھلی بار کوچ کا اشتہار آنے سے کتنے عرصے قبل بورڈ حکام خود کہہ چکے تھے کہ وقار یونس یہ عہدہ سنبھالیںگے، اب بھی غیرملکی کے تقرر کا پہلے ہی کہہ دیا گیا تھا،اسی لیے اچھے ملکی کوچزکا اس سسٹم سے دل اچاٹ ہو گیا ہے، یہی معاملہ ڈائریکٹر اکیڈمی کا ہے، اس کیلیے مدثر نذر کو لانے کی کوشش ہو رہی ہے، یو اے ای میں رہ کر لاکھوں درہم کمانے کے بعد اب انھیں بھی دوبارہ قائد اعظم کی تصاویر جمع کرنے کا شوق ہونے لگا، رسمی کارروائی کیلیے اشتہار جاری ہوا اور گریجویٹ امیدواروں سے درخواستیں مانگی گئیں، ایسے میں شور مچا کہ مدثر تو گریجویٹ ہے ہی نہیں، اس پر اطلاعات کے مطابق یہ شرط ختم کر دی گئی، بھلا اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
بورڈ حکام سے درخواست ہے کہ خدارا کم از کم کوچز وغیرہ کی تقرری میں تو شفافیت لائیں ، آرتھر کتنے بڑے کوچ ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن سسٹم پر لوگوں کا اعتماد ختم نہ کریں، سب کو درخواست دینے کا موقع تو دیں، پہلے سے کہہ دیں گے کہ غیرملکی یا آدھے غیرملکی مدثر آئیں گے تو پھر اشتہار دے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکیں، وقار یونس ٹیم کا تیا پانچہ کر کے اپنے نئے ملک آسٹریلیا چلے گئے، ون ڈے رینکنگ میں ہمارا نمبر 9ہو چکا اور ورلڈکپ کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے کا خطرہ لاحق ہے۔
اب تو سوچ سمجھ کر فیصلے کریں ورنہ ٹیم کا اور برا حال ہو جائے گا، اسی طرح سفارشی کلچر بھی عروج پر ہے، پاکستان کپ میں بعض کپتانوں نے اپنے من پسند کوچز کو ذمہ داری دلائی اب جونیئر ٹیموں کے ساتھ بھی ایسا ہونے والا ہے، سنا ہے کہ ڈسپلن کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے مشہور ایک ''امپورٹیڈ کرکٹر'' اے ٹیم کا کوچ بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اگر ایسا ہوا تو جونیئر کرکٹ کا اﷲ ہی حافظ ہے، انتخاب عالم اور ذاکرخان کوڈائریکٹر جبکہ آغا اکبر کو جی ایم کے عہدوں سے ہٹا کر اپنے راستے کی رکاوٹیں تو دور کر لی گئیں مگر ان کے ''بڑوں'' کو ناراض نہ کرنے کیلیے حیران کن طور پر انھیں گھر بیٹھے سابقہ تنخواہیں دی جا رہی ہیں، دیگر مراعات بھی برقرار ہیں، انتخاب اور آغا کی تنخواہوں کا جواز برقرار رکھنے کیلیے انھیں بطور ٹیم منیجر اور میڈیا منیجر سینئر ٹیم پر مسلط کر دیا گیا، ذاکر جونیئر ٹیم سے چمٹ گئے۔
ایسے میں بیچارے اہل افراد کہاں جائیں گے؟ عہدوں کی بندربانٹ تو انہی گنے چنے لوگوں میں ہو رہی ہے، اسی طرح صرف نیٹ سیشنز کرانے کی قابلیت یا کسی اعلیٰ شخصیت کی نظرکرم شاہد اسلم کو ہر ٹور پر ٹیم کے ساتھ لے جاتی ہے، اگر آپ ایک فہرست بنائیں تو چند لوگ ہی نوازے جاتے نظر آئیں گے، باصلاحیت مگر سفارش یا جوڑ توڑ کی صلاحیت سے محروم سابق کرکٹرز بیچارے سائیڈ لائن ہیں، شاید اسی وجہ سے ہماری کرکٹ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔