اب بھی وقت ہے توبہ کرلیں

کیامعلوم کس لمحےتم بھی کہیں دورچلے جاؤ، جہاں سےکوئی واپس نہیں لوٹتا۔ جب خالی ہاتھ ہی جانا ہے تو توبہ کیوں نہیں کرلیتے؟


محمد عاصم May 10, 2016
اپنے دامن کو صاف کیوں نہیں کرلیتے؟ آج یہ کام تمہارے اپنے بس میں ہے۔ کل نا جانے حالات کیا ہوں اور تمہیں کوئی صفائی کا موقع بھی نہ مل پائے۔ فوٹو: ایکسپریس

گرگٹ کو رنگ بدلنے کا انمول ہنر آتا ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اور نووارد تقریر کا شوقین، گوبھی کے کھیت میں جا کر اپنے پوشیدہ جوہر دکھاتا ہے۔ آف شور کمپنیاں بھی دولت کی افزائش کا اچھوتا انداز ہیں اور شاید اسی انوکھے طریقہ کار کو دیکھ کر بلوچستان کے شہزادوں نے زمین پر جنت بنانے کا منصوبہ بنایا وہ بھی غریب عوام کی خون پسینہ کی کمائی سے۔

آج اگر قارون زندہ ہوتا تو ہماری لوٹ مار دیکھ کر شاید خودکشی کرلیتا یا پھر شرم سے ہی ڈوب مرتا، اور اگر ہلاکو زندہ ہوتا تو امریکہ بہادر کی سفاکیت کو دیکھ کر اپنے مظالم سے توبہ کرلیتا اور جوگی بن جاتا۔ لیکن جو کچھ بچاری پاکستانی عوام کے ساتھ ہو رہا ہے ایسا تو شاید کسی ظالم و جابر و سنگ دل نے بھی نا کیا ہوگا۔



میاں نواز شریف صاحب اور ان کے ہمنوا دوستوں کے خلاف اپوزیشن کی سبھی جماعتیں صف آراء ہو کر میدان میں اتری تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ چور صرف میاں صاحبان ہی ہیں جبکہ اپوزیشن دودھ کی دھلی ہے، لیکن پاناما لیکس کی دوسری قسط نے ہی غبارے سے ہوا نکال دی۔ یوں عمران خان صاحب کے اپنے گھر میں چھپے چوروں کا نقاب اتر گیا۔ جناب علیم خان صاحب کے ساتھ ساتھ ذولفقار عرف ذلفی صاحب کا نام بھی سامنے آگیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ذلفی صاحب ہی درحقیقت تحریک انصاف کے اصل فنانسر ہیں۔ دوسری قسط کے بعد چور مچائے شورکا قصہ تمام ہوا، اِس لیے سوال اب یہ ہے کہ کیا عمران خان صاحب اپنے ہی گھر میں احتساب کا جھاڑو پھیریں گے؟ یا صرف یونہی دوسرے پر تنقید کرتے رہیں گے؟

اچھے وقتوں کی بات ہے۔ دریائے نیل کے بارے میں وقت کے طاقتور ترین حکمران کو ایک خط کے ذریعے لکھا گیا
''یہاں دریائے نیل کا پانی خشک ہوگیا ہے اور پرانی روایات کے مطابق کسی دوشیزہ کی قربانی کیے بغیر دریا کا پانی رواں نا ہوگا، اب چونکہ آپ کی حکومت ہے اور آپ کے دین کے مطابق کسی بے گناہ کا قتل انسانیت کا قتل ہے، ایسے میں دریا کے پانی کو جاری کرنے کے لیے آپ سے رہنمائی درکار ہے''

وقت کے اصل حاکم کے پاس جب خط پہنچا تو فوری لکھ بھیجا
''اے دریائے نیل! اگر تو اللہ کے حکم سے چلتا ہے تو فوراََ اپنا پانی رواں کردے ورنہ ہمیں تیرے پانی کی ضرورت نہیں ہے''

حکم تھا کہ خط کو دوشیزہ کی جگہ دریائے نیل میں ڈال دیا جائے، ایسا ہی کیا گیا، وہ دن اور آج کا دن تاریخ بتاتی ہے کہ دریائے نیل پھر کبھی خشک نہیں ہوا۔ وقت کے یہ عادل حاکم اور مسلمانوں کے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔

انسان کی روزی کا ذمہ خالق کائنات نے خود اٹھا رکھا ہے۔ زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں آتا جس کا رزق اللہ نے پیدا نا کیا ہو۔ ایک بار حضرت سلمان علیہ سلام نے اللہ سے درخواست کی
''یاربی! میں تیرا بندہ سلمان تیری مخلوق کی میزبانی کرنا چاہتا ہوں، اجازت دی جائے''

اللہ نے اجازت دے دی۔ حضرت سلمان علیہ سلام کو اللہ نے جنوں اور دیگر مخلوقات پر دسترست دی ہوئی تھی۔ چنانچہ کھانا تیار کیا جانے لگا۔ دیگوں کی دیگیں پکنے لگیں، جب کھانا تیار ہوا اور دعوت کا اعلان کیا گیا تو روایت بتاتی ہے کہ سمندر کی ایک مچھلی آئی اور سارا کھانا کھا کر چل دی۔ یہ سارا منظر حضرت سلمان اور ان کی ساتھی دیکھتے ہی رہ گئی۔ اللہ نے تب ارشاد فرمایا ''اللہ ہی تو ہے جو کائنات کی ہرشے کو رزق مہیا کرتا ہے'' بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

لیکن ہمارے حکمران اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مالِ دنیا کی حوس میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ اربوں روپوں کی کرپشن سامنے آرہی ہیں۔ کھربوں کی دولت بنا ٹیکس ادا کیے آف شور کمپنیوں میں لگی ہے۔ ہر سیاسی جماعت میں چور اور ڈاکو موجود ہیں۔ آخر یہ تضاد ہمیں کیوں دیکھنے کو ملتا ہے؟

اللہ کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
''وہ وقت قریب ہے جب تمہیں وھن کی بیماری لگ جائے گی''

صحابہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ یارسول اللہ یہ وھن کی بیماری کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا
''وھن کی بیماری یہ ہے کہ انسان کے دل میں دنیا کی محبت جگہ اختیار کرلے اور موت سے اُس کو ڈر لگنے لگ جائے''

آج ہمارے لیڈران میں وھن کی بیماری سرطان کی طرح سرائیت کرچکی ہے۔ مال بنانے اور اس عارضی دنیا کی تعیشات کو اپنانے میں اپنے ہی گھر کو لوٹ رہے ہیں۔ نشیمن کو مکین ہی ڈبو نے کا سیاہ کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ آخر کب تک عوام کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رہ پائے گا؟ اگر اس دنیا میں بچ بھی گئے تو آخرت میں کیا جواب دیں گے؟ پھر ان کی اپنی نسلیں بھی تو اسی سرزمین پر اپنے بڑوں کی بداعمالیوں کی سزا کاٹیں گی۔ جب یہی سب ہونا ہے تو پھر یہ سب لوٹ مار کن کے لیے؟



ارے نادان لوگو! دیکھو وقت کتنی تیزی سے گزر رہا ہے، ابھی کل ہی تو تمہارا بچپنا تھا۔ امی ابو کا ہاتھ پکڑ کے اسکول جایا کرتے تھے۔ وہ ہاتھ کہیں دور چلے گے ہیں۔ تمہیں یہ بھی تو یاد ہوگا کہ یہی محبت کے امین، تمہارے پیارے، تمہیں دنیا میں اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرتے تھے۔ لیکن آج تم ان کی باتوں سے کوسوں دور جا چکے ہو۔ کیا معلوم کس لمحے تم بھی کہیں دور چلے جاؤ، جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتا۔ جب خالی ہاتھ ہی جانا ہے تو توبہ کیوں نہیں کر لیتے؟ لوٹی دولت واپس کیوں نہیں کردیتے؟ اپنے دامن کو صاف کیوں نہیں کرلیتے؟ آج یہ کام تمہارے اپنے بس میں ہے۔ کل نا جانے حالات کیا ہوں اور تمہیں کوئی صفائی کا موقع بھی نہ مل پائے۔

[poll id="1105"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں