محاسبے کا اختیار کس کو ہے

ہمسائے بھارت سے ہی کچھ سیکھ لیں جسکی محبت میں وہ ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔


[email protected]

KARACHI: کسی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا کہ دس بارہ لوگ مختلف چینلوں پر بیٹھ کر قوم کو Educate کرنے کے بجائے اسے کنفیوژ کریں۔ اداروں کو آئین شکنی پر اکسائیں اور نئی نسل میں دانش کے بجائے ذہنی افلاس بانٹیں۔

ہمسائے بھارت سے ہی کچھ سیکھ لیں جسکی محبت میں وہ ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ وہاں کرپشن بھی ہے اور بہت زیادہ ہے، Mismanagement بھی ہے اور ہر ادارے میں ہے مگر وہاں کبھی کسی اینکر نے حالات کی درستگی کے لیے فوج کو نہیں پکارا اور نہ کبھی اسطرح کے سوال کیے ہیں کہ چونکہ فلاں سیاستدان کی اولاد نے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں اس لیے اب فوج کیا سوچ رہی ہے اور کب آرہی ہے؟۔

چونکہ ایک صوبے کے جنوبی علاقے میں ڈاکوؤں کے ایک گینگ پر پولیس قابو نہیں پاسکی اس کے لیے فوج کو بلانا پڑا، لہٰذا ثابت ہوا کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے۔اب فوج کو کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہی پڑیگا ۔اب فوج کیسے خاموش رہ سکتی ہے؟۔ یعنی ان واقعات کو بہانہ بناکر فوج آئین توڑتے ہوئے حکومت پر قبضہ کرلے۔ ایسی باتیں کرنے والے بلاشبہ سب سے زیادہ نقصان فوج کے اعلیٰ ادارے کو پہنچارہے ہوتے ہیں ۔

کیا بھارت، ملائشیا، ترکی یا سری لنکا میں دکھانے جانے والے ٹاک شوز میں اسطرح کے سوالات ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ مہذّب ملکوںمیں پڑھا لکھا طبقہ قوم میں آگہی پیدا کرتا ہے۔ شعور کو فروغ دیتا ہے، آئین کی پاسبانی کا درس دیتا ہے۔کسی ادارے کو اس بات پر نہیں اُکساتا کہ آپ اسلحے کے زور پر حکومت پر قبضہ کیوں نہیں کرلیتے یعنی وہ جرم کیوں نہیں کررہے جو آج افریقہ کے پسماندہ ممالک کی افواج بھی نہیں کرتیں۔

کیا ہمارے چینلوں پر کرپشن کے ناسور کے خاتمے پر کبھی سنجیدہ بحث ہوئی ہے؟ کیا کبھی ماہرین کو بلا کر یہ پوچھا گیا ہے کہ موجودہ اینٹی کرپشن اسٹرٹیجی میں کیا اسقام ہیں اور اسے کیسے درست کیا جا سکتا ہے؟ انسدادِ رشوت کے دو بڑے اداروں نیب اور ایف آئی اے کو آزاد اور خود مختار کیسے بنایا جائے اس پر کبھی بامعنی اور معیاری گفتگو نہیں ہوئی۔ بعض اینکرز میں تو تعلیم اور تجربے کی کمی ہوگی۔ مگر پچھلے دنوں کراچی سے تعلّق والے اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج صاحب نے ایسا تجزیہ فرمایا کہ سب کو حیران اور پریشان کردیا ۔

پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ مہمان سویلین ہو تو ہمارے اکثر اینکر پورے اینکرانہ جاہ و جلال کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بڑے جارحانہ انداز میں اس کی تفتیش کرتے ہیں اور اگر سامنے کوئی جرنیل (سابق ہی کیوں نہ ہو) ہو تو اینکروں کا جلال۔ جمال میں بدل جاتا ہے، انداز جارحانہ کے بجائے مودبانہ اور فدویانہ ہوجاتا ہے۔

اسی طرح ریٹائرڈ جج صاحب سے سوال کیا گیا کہ پانامہ لیکس میں کچھ اہم سیاستدانوں کے بچوں کے نام آئے ہیں یعنی انھوں نے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں، تو ان حالات میں فوج کیا سوچ رہی ہوگی؟۔ عدالتِ عظمیٰ کے ریٹائرڈ جج صاحب سے توقع تھی کہ وہ اپنے علم اور تجربے کی بناء پر کہتے کہ پاکستان کی فوج ایک ڈسپلنڈ فورس ہے جسکا مطلب ہے وہ ملکی قانون اور قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرتی ہے اس لیے اگر فوج نے سوچنا ہے تو اپنے آپریشنل اشوز کے بارے میں سوچے ، ضربِ عضب کے بارے میں Introspection کرے۔ فوج کے اپنے معاملات مزید ٹرانسپیرنٹ بنانے کے بارے میں سوچے۔ راقم نے پوری سروس میں کبھی کسی کرپٹ اہلکار کو ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کیا مگر اس کے باوجود کہونگا کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ یا سیاستدانوں کا محاسبہ فوج کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔

دنیا بھر کی ترقّی یافتہ قوموں اور مہذّب معاشروں نے بڑا سوچ سمجھ کر فوج کے فرائض اور ذمّے داریوں کا تعیّن کیا ہے، کرپشن کے ضمن میں ان کا فرض صرف اتنا ہے کہ اپنے ادارے کو کرپشن سے مکمل طور پر پاک کریں اور جن سابق جرنیلوں نے مشرف سمیت یورپ ، امریکا اور دبئی میں جائیدادیں بنائی ہیں اور اپنے وسائل سے کہیں زیادہ پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں ان کا سخت محاسبہ کرکے قوم کو آگاہ کرے اور جوغریب قوم کی دولت لوٹنے میں ملوث پائے جائیں وہ اسی طرح گرفتار ہوکر جیل کی ان بیرکوں رکھے جائیں جہاں وزیر، اسپیکر اور وزیرِ اعظم بند رہے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف چونکہ خود صاف ستھرے کردار کے آدمی ہیں اس لیے ان سے امید ہے کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔

ریٹائرڈ جج صاحب نے یہ فرماکر کہ فوج کاکڑ فارمولہ استعمال کرسکتی ہے ذہنی افلاس کا مظاہرہ کیا ۔ اپنے مطلب کا جواب سنکر اینکر کا منہ خوشی سے مزید پھول گیا اور منتخب پارلیمنٹ کے خلاف اس کے بغض کا زہر پوری اسکرین پر پھیل گیا۔کاکڑ فارمولے سے ان کی مراد غالباً یہ تھی کہ اسوقت کے آرمی چیف نے جسطرح وزیرِاعظم نوازشریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو استعفیّ دینے پر مجبور کیا اسی طرح کچھ لوگوں سے زبردستی استعفیٰ لیا جائے گا۔اوّل تو یہ کہ تمام ذرایع تصدیق کرتے ہیں کہ جنرل کاکڑ نے پرائم منسٹر کو استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کیا بلکہ نیا الیکشن سیاسی قیادت کا اپنا فیصلہ تھا، ہاں سیاسی قیادت کے اصرار پر سازشیں کرنے والے صدر سے ضرور استعفیٰ لیا گیا تھامگر موجودہ حالات کی اس سے مماثلت اس لیے نہیں ہے کہ ُاسوقت منتخب وزیرِ اعظم اور با اختیار صدر کے درمیان تعلقات اس حد تک کشیدہ ہوگئے تھے کہ سنگین بحران کے باعث حکومت چلانا مشکل ہوگیا تھا ۔

پنڈی کا کَلّمَ کَلّا ایم این اے یا دیگر مایوس سیاستدان جب فوج کو "کچھ کرنے" یعنی آئین شکنی پر اکساتے ہیں تو یہ ان کا اعترافِ شکست ہے۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم سیاسی میدان میں وزیرِ اعظم کا مقابلہ نہیں کرسکتے ، عوام سے انھیں شایدآئیندہ بھی کوئی امید نہیں اس لیے اپنے سیاسی حریف کو شکست دینے کے لیے وہ ہمارے گاؤں کے اُس بچے کیطرح دھمکی دیتے ہیں جو کمزور تھا اور دوسرے بچوں سے جب بھی مارکھاتا تو انکامقابلہ کرنے کے بجائے روتا ہوا دھمکی دیتا تھا "میں چاچا جی نو ں بلا لواں دا" ۔

جہاں تک اصلاحِ احوال کے لیے فوج کو پکارنے والے اینکروں کا تعلق ہے تو باخبر ذرایع تصدیق کرتے ہیں کہ ایسے اینکر Sponsoredہیں اور کہیں سے لائن لے کر ایسی باتیں کرتے ہیں ورنہ وہ بڑے "کھَچرے" اور سمجھدار ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ مہذّب ملکوں میں اصلاحِ احوال کے لیے فوج کو نہیں بلایا جاتا، کرپشن کے خاتمے کے لیے موثّر، آزاد اور بااختیار ادارے قائم کیے جاتے ہیں اور پوری قوم اور عدلیہ اور خود فوج ان اداروں کی پشت پر کھڑی ہوتی ہے۔ فوج کے ٹیک اوور کا مطلب اداروں کا انہدام ہے استحکام نہیں۔ایسے اینکر اور صحافی فوجی حکمرانی کے خطرناک نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں۔

اگر ان کے خیال میں فوج دوسرے اداروں سے کرپشن دور کرسکتی ہے اور اداروں کی اصلاح میں کامیاب ہوسکتی ہے تو ان سے پوچھاجائے کہ میڈیا سے بھی عوام کو شکایتیں ہیں اس کی اصلاح کے لیے اگر فوجی افسراخباروں کے ایڈیٹربن جائیں اور ہر چینل کا بیوروچیف کسی کرنل کو لگا دیا جائے کہ ڈسپلن اور حب الوطنی کی بناء پر اخبار اور چینل کو وہ بہتر طور پر چلائینگے تو آپ کو کیسا لگے گا؟۔آپ غصّے سے چھت کو ٹکّر یں ماریں گے۔ تو میرے بھائی اپنے ادارے میں فوجی مداخلت آپکو غلط اور مضحکہ خیز لگتی ہے۔

میڈیا پر فوج کا کنٹرول آپکو خطرناک نتائج کا حامل دکھائی دیتا ہے مگر سب سے بڑے ادارے پارلیمنٹ میں مداخلت کی آپ پورے طمطراق سے نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ اس کی ترغیب دے رہے ہوتے ہیں، ریٹائرڈ جج صاحب سے اگر کوئی پوچھے کہ لوگوں کو عدالتوں سے بھی بروقت انصاف نہیں ملتا ، ہر عدالت اور کچہری کے باہر صبح سے شام تک ہزاروں لوگ ذلیل و خوار ہورہے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں انصاف کی فوری فراہمی کے لیے۔ موجودہ ججوں کو ہٹا کر میجر اور کرنل بٹھادیے جائیں تو آپکو کیسا لگے گا؟ آپکے ادارے پر بھی کاکڑفارمولا اپلائی کیا جائے تو آپ کیا محسوس کریں گے؟۔

جو اینکر سادگی یا بیوقوفی میں اسطرح کی باتیں کرتے ہیں کہ " فوج کو اب کچھ کرنا ہی پڑے گا ، فوج کو بڑا فیصلہ کرنے سے نہیں روکا جاسکے گا" وہ اسطرح کا تاثر دیتے ہیں جیسے فوج منتخب حکومت کے ماتحت نہیں ہے اور وہ کسی مجاز اتھارٹی سے پوچھے بغیر ہی جو چاہتی ہے کرتی ہے، آج جب کہ پوری دنیا ایک گلوبل سٹی بن چکی ہے عالمی ادارے ہر ملک کے اہم اداروں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھے ہوتے ہیں ایسی فوج کے بارے میں عالمی سطح پر بڑا منفی تاثر ابھرتا ہے جو اپنے آپ کو منتخب سویلین حکومت کے تابع نہ سمجھے ۔کوئی کام کرنے سے پہلے کسی مجاز اتھارٹی سے اجازت لینا ضروری نہ سمجھے اور اپنے آئینی اور قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کرے۔ پروفیشنل اور ڈسپلنڈ فوج آئین اور قانون کی پاسداری کرتی ہے اور منتخب حکومت کے تابع ہوتی ہے۔

مہذّب ملکوں نے ہر ادارے کی ذمہّ داریوں کا تعین کیا ہوا ہے اگر ایک ادارہ دوسرے کے دائرہ ٔ کار میں مداخلت کرے گا تو پیدا ہونے والی افراتفری اور انتشار سے ملک کمزور ہوگا ۔ فوج ہماری محافظ ہے، محافظ رہے تو آنکھ کا تارا ہوتا ہے لیکن محافظ ، محاسب بننے کی کوشش کرے تو متنازعہ ہوکر عزّت سے محروم ہوجاتا ہے۔

اگر کبھی کوئی غیر جانبدار کمیشن ہمارے ملک کے بڑے اداروں کے اعمال کا حساب لینے بیٹھاتو کسی کا بھی نامۂ اعمال قابلِ رشک نہیں نکلے گا جتنے سیاستدان کرپٹ ہیں جرنیل بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں اور ہماری برادری یعنی بیوروکریسی ان سے بھی زیادہ کرپٹ ہے۔ ایک ادارے کو دوسرے کا نگران یا محاسب بننے کا قانونی یا اخلاقی حق حاصل نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کرپشن کے خاتمے کے نام پر جب بھی آمروں نے قبضہ کیا ہے انھوں نے بدنام ترین افراد کو اپنے ساتھ شامل کرکے کرپشن کو فروغ دیا ہے۔ مشرف نے تو کرپشن کو قانونی چھتری مہیّا کردی۔ کرپشن پر اگر سزا دی ہے تو عوام نے ہی دی ہے ۔کرپشن میں ملوث پارٹیوں کو عوام نے سیاسی میدان سے نکال باہر کیاہے

کوئی ادارہ طاقت کے زور پر دوسروں کا محاسبہ کرنے کی کوشش کریگاتوہم دسویں گیارہویں صدی کی تاریک کھائیوں میں اتر جائیں گے۔ پردے کے پیچھے (Behind the Scene) رہ کر اگر فوج اقتدار کے بجائے صرف ملک کی بہتری کے لیے سسٹمزکی اصلاح کے لیے کردار ادا کرتی ہے تو وہ قوم کے لیے قابلِ قبول ہو سکتا ہے جسطرح آصف علی زرداری پر دباؤ ڈالکر ججوں کو بحال کرایا گیا۔

اسی طرح فوج پیچھے رہ کر نیب اور ایف آئی اے کو انڈیا کی CBIکیطرح آزاد ادارہ بنانے، پارلیمنٹ کی مدّت چار سال کرنے اور آئین کی دفعہ 63/62 کے موثّر اطلاق کے لیے اپناکردار ادا کرے تو قوم اسے تحسین کی نظروں سے دیکھے گی لیکن فوج کا سیاست میں مداخلت کرنا ، چاہے وہ ایم کیوایم کے مقابلے میں کسی بہتر شخص کو لانے ہی کے لیے کیوں نہ ہو، غلط، غیر آئینی اور غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا اور ہمارے مقبول آرمی چیف کواس سے ہر صورت پرہیز کرنا چاہیے ۔ حکمرانوں پر الزام کرپشن کا ہو یا اس سے بھی سنگین محاسبے کا حق صرف عوام کو ہے یا عدلیہ کو اور کسی کو نہیں!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں