تین دنوں کا میلہ
طلسم ہوشربا کو انگریزی میں منتقل کرنا ایسا ہی ہے جیسے غالب نے کہا ہے کہ ’دل کا کیا رنگ کروں، خون جگر ہونے تک
ہمارے تہذیبی ورثے اور ہماری ثقافت کے مختلف پہلو اسلام آباد کی اس عمارت اوراس سے متصل باغیچوں، چھوٹے بڑے کمروں اور حجروں میں سمٹے ہوئے ہیں جسے 'لوک ورثہ میوزیم' کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ سعید اپنی سنسنی خیزکتابوں کی وجہ سے جانی پہچانی شخصیت ہیں اور جب سے انھوں نے 'لوک ورثہ' کا نظم و نسق سنبھالا ہے، اس میں زندگی کی ایک نئی لہر سی دوڑگئی ہے۔
اپریل کے مہینے میں چوتھے اسلام آباد لٹریچر فیسٹول کا انعقاد اسی میوزیم میں ہوا اور تین دن کے لیے صبح سے رات تک ایسی رونق رہی جسے دیکھ کر دل خوش ہوتا رہا۔ ادب اور ثقافت کے نام پر اسلام آباد ، راولپنڈی کے علاوہ آس پاس کے متعدد شہروں اور قصبوں سے نوجوان آئے اور انھوں نے جی کھول کر ان تقریبات اور مباحثوں میں حصہ لیا۔ میلے میں کتابیں، موسیقی کے کیسٹ اور بچوں کے وہ کھلونے بھی فروخت ہورہے تھے جو ہمارے دست کار اپنی جھونپڑیوں میں بیٹھ کر چھنی ہوئی اورگندھی ہوئی مٹی سے بناتے ہیں اور پھر انھیں رنگتے ہیں۔
موتیوں اور سیپیوں سے بنے ہوئے ہار اورآویزے، اونٹ کی ہڈی سے بنے ہوئے چوڑے اور چوڑیاں تھیں،کرتے اورکفتان تھے۔ یوں سمجھیے کہ بچوں اور بڑوں کی دلچسپی کا سامان تھا،کہیں چھولے اور پکوڑے بک رہے تھے اور کہیں سینڈوچ اور برگر تھے۔ مقامی اور بین الاقوامی کھانوں کی بہار تھی۔ میوزیم سے ملحق ایک ریستوران میں چینی ذائقے لوگوں کو اپنی طرف بلارہے تھے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ جس طرح چین اور پاکستان کی دوستی ہمالہ کی طرح بلند ہے، کچھ اسی طرح ان کھانوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں۔ 40 برس پرانے ایک دوست احمد اقبال سے ملاقات ہوئی اور وہ میزبانی کا حق ادا کرنے اس ریستوران میں لے گئے لیکن جب بل آیا تو مجھے ان کا مہمان ہونے پر پشیمانی ہوئی۔
ادبی میلے کے تین دنوں کے دوران کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس مرتبہ آئی ایل ایف میں ادب پر سیاست غالب تھی۔ انھیں اس بات پر اعتراض تھا کہ حنا ربانی کھر، خورشید محمود قصوری، اعتزاز احسن اور بعض دوسرے سیاستدانوں کو اس اہتمام سے جشن ادب میں کیوں بلایا گیا۔ میری سمجھ میں ان معترضین کی بات نہ آئی کیونکہ سیاست اور ادب کا اب سے نہیں ہزاروں برس سے ایک گہرا تعلق اور رشتہ ہے۔ اس اعتراض کو سن کر مجھے یونان کی عدالت میں چلنے والا وہ مقدمہ یاد آیا جو کئی سو برس قبل مسیح سقراط پر چلا تھا۔ یہ مقدمہ جس کی تفصیل ہمیں مکالمات افلاطون میں ملتی ہے، اسے پڑھیے تواندازہ ہوتا ہے کہ سیاست اورادب کا تاریخ وتہذیب کے ابتدائی دنوں سے کیسا گہرا ساتھ رہا ہے۔
اسلام آباد کا یہ چوتھا ادبی جشن جب آغاز ہوا تو حسب روایت آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی امینہ سید نے مہمانوں کا استقبال کیا۔آصف فرخی اس جشن کے شریک میزبان تھے۔ جشن ادب کراچی میں ہویا اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانہ اس میں جی کھول کر میزبانی کے فرائض ادا کرتا ہے۔ ابتدائی سیشن میں فرانسیسی سفیر مسز مارٹین ڈورانسے نے بھی تقریر کی ۔ اس مرتبہ فرانسیسی دانشور اور ادیب کرسٹو فے جفری لو نے پاکستان پر شایع ہونے والی اپنی دوکتابیں میزبانوں کو پیش کیں۔ کرسٹو فے پیرس انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل اسٹڈیزمیں سینئر ریسرچ فیلو کے طور پر پڑھاتے ہیں، اس کے علاوہ پرنسٹن یونیورسٹی سے بھی ان کا تعلق ہے جہاں وہ ہندوستانی سیاست پر لکچر دیتے ہیں۔
رفتگان میں انتظار حسین، جمیل الدین عالی، پنجابی اوراردو کی منفرد شاعرہ نسرین انجم بھٹی اور فاطمہ ثریا بجیا کو یادکیا گیا۔کراچی ہو، لاہور یا اسلام آباد میں ہونے والا جشن ہو، ان کے ہر سیشن میں شریک ہونے کے لیے انسان کا افراسیاب جادو ہونا لازم ہے لیکن چونکہ ہم میں سے کوئی بھی افراسیاب جادو نہیں، اسی لیے خواہش کے باوجود ہر سیشن میں شرکت نا ممکنات میں سے ہوتی ہے۔
مجھے نسرین انجم بھٹی کی یاد میں ہونے والی گفتگو میں شریک نہ ہونے کا ملال رہا، وجہ اس کی یہ تھی کہ عین اسی وقت عالی صاحب کی یاد گیری کے سیشن میں فاطمہ حسن انھیں انجمن ترقی اردوکے حوالے سے یاد کررہی تھیں اور لوگوں کو بتارہی تھیں کہ عالی صاحب نے انھیں انجمن کے حوالے سے جو فرائض تفویض کیے تھے، وہ انھیں کس طرح نباہ رہی ہیں۔ ان کے فرزنداول ذوالقرنین جمیل نے ایک بیٹے کے طور پر انھیں یاد کیا۔ مراد جمیل اور سمیرا جمیل بھی محفل میں موجود تھیں۔ میں نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ کہا کہ ان کا مشہور دوہا کہ ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار' جیسے پُر لطف اور چٹکی لپٹے والے دوہے یا شعر تو ان کی ذات کا ایک رخ تھے، ورنہ اصل، جمیل الدین عالی تو وہ تھا ، جس نے 500 صفحات پر پھیلی ہوئی طویل نظم 'انسان' لکھی تھی۔ وہ ایک شجر سایہ دار اور وضع دار انسان تھے ۔
ان جیسے لوگ جس سانچے میں ڈھلتے تھے، وہ کب کا ٹوٹ چکا ۔ وہ ایک جمے جمائے تہذیبی خانوادے کے بیٹے تھے۔ شاعری ان کی گھٹی میں پڑی تھی، انھوں نے غزلیں لکھیں لیکن اصل رنگ دوہے میں جمایا۔ نوابی لکیر کے اُدھر دلی میں رہ گئی تھی، کراچی میں وہ افسر شاہی سے متعلق ہوئے اورکئی دہائیوں تک ان کا طوطی بولتا رہا۔ شاعرانہ اور افسرانہ مصروفیتوں کے سبب انھوں نے دنیا کے شہروں، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کو دیکھا اور ان کے اندرکا مضطرب انسان اپنے لوگوں کے لیے بہت سے خواب دیکھتا رہا اور پھر اسی تڑپ میں وہ نثر کی طرف آئے۔
ان کی قوم پر ستی اور حبِ وطن انھیں بے قرار رکھتا ۔ان کے کالم پاکستان کے قومی اور سماجی مسائل کا احاطہ کرتے۔ وہ ملک سے باہر جاتے تو دوسرے ملکوں کی ترقی، خوش حالی اور نظم وضبط دیکھ کر وہ انھیں داد دیتے اور اس بات پرکڑھتے کہ آخر پاکستان میں یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوسکتا۔ ان سے روبرو ہونے والے کو اس کا اندازہ بھی نہ ہوتا کہ یہ شگفتہ مزاج شاعر جسے جملہ چست کرنے میں دیر نہیں لگتی تھی، وہ اپنے سینے میں غم دوجہاں کا کیسا جہنم سمیٹے ہوئے ہے۔
'دی انڈس ساگا' جیسی اہم کتاب لکھنے والے اعتزاز احسن نے انھیں ذاتی اور سیاسی حوالے سے یاد کیا۔کشور ناہید ان دنوں بیمار ہیں لیکن ادبی جشن کے دنوں میں ہنستی مسکراتی، دوسروں پر چوٹیں کرتی ہوئی نظرآرہی تھیں۔ انھوں نے اور امجد اسلام امجد نے نئی اور پرانی اردو نظم کے موضوع پر دھواں دھار باتیں کیں۔ حنا ربانی کھر، انا طول لیون سے 'ایک مشکل ملک کو نرم بنانے کے موضوع پر سیاست کی گتھیاں سلجھارہی تھیں۔ نسیم زہرا بھی دھیمے لہجے میں علاقائی ربط ضبط اور استحکام کے علاوہ طالبان کے موضوع پر بولتی سنائی دیں۔ راشد رحمان ان کے ساتھ تھے۔
اس جشن میں بلوچی ادب پر بات ہوئی اور اردو مشاعرہ بھی ہوا کہ اس کے بغیر ادبی میلہ مکمل کیسے ہوسکتا ہے۔
ہندوستان سے آئے ہوئے نوجوان ادیب اور دانشور سیف محمود، حارث خلیق اور فہمیدہ ریاض کے ساتھ اردو شاعری کی سکیولر روایات کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ نیرعباس نیر، مسعود اشعر اور آصف فرخی کہانیوں کی آوارہ گردی کے بارے میں پریشان نظر آئے۔اس جشن کا ایک بہت خاص سیشن طلسم ہوشربا کے انگریزی ترجمے کے بارے میں تھا۔ یہ ترجمہ شہناز اعجاز الدین نے کیا ہے۔
طلسم ہوشربا کو انگریزی میں منتقل کرنا ایسا ہی ہے جیسے غالب نے کہا ہے کہ 'دل کا کیا رنگ کروں، خون جگر ہونے تک... اردو والوں کی ناسپاسی ہے کہ انھوں نے شہناز اعجازالدین کے اس بہت مشکل کام کا حق ادا نہیں کیا۔ میں اس سیشن کا چند جملوں میں ذکرکرکے شہناز کے اس کام کی اہمیت کم نہیں کرنا چاہتی، اسی لیے 'طلسم ہوشربا' بہ زبان انگلیسی پر الگ سے کالم لکھوں گی۔ یہ وعدہ رہا۔ آپ سے اور سب سے بڑھ کر شہناز اعجاز الدین سے۔
'زنبیل' کی اسماء مندری والا، مہ وش فاروقی، دانش فاروقی اور فواد خان نے جس انداز سے قرۃالعین حیدرکا بے مثال افسانہ '' نظارہ درمیان ہے'' ڈرامائی انداز میں پڑھ کر سنایا، اس پر انھیں جتنی داد دی جائے وہ کم ہے۔ سننے والے قرۃالعین کی زبان اور ان لوگوں کی ادائیگی کے سحر میں 60منٹ تک گرفتار رہے۔
جشن کا اختتام امینہ سید، آصف فرخی کے شکرگزاری کے کلمات اورکرسٹوفے کی تقریر اور شائمہ سید کے رقص پر ہوا جس نے سماں باندھ دیا۔ یوں اس جشن میں شریک ہونے والے ادب، نقاشی، شاعری، فنون لطیفہ اور صوفی موسیقی سے اپنا دامنِ دل بھرکرگئے۔