’’تختی‘‘ کی سیاست بند کی جائے

ہمارے حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں ، جس کا ذکر میں اپنے کئی کالموں میں بھی کر چکا ہوں

ali.dhillon@ymail.com

یہ مانے بنا چارہ نہیں کہ کرپشن کی برف ہمیشہ چوٹیوں پر پگھلتی ہے ۔ کرپشن، جرائم اور فیشن ہمیشہ اوپر سے نیچے کی جانب سفر کرتے ہیں۔اگر 'اوپر' کرپشن نہ ہو، کسی کی آف شور کمپنیاں ہوں نہ کسی کے بیرون ملک اثاثے ہوں ، نہ کسی نے باپ، بھائی، بیٹے، بہو، بیٹی، داماد یا بھتیجے بھانجے کے نام پر قرضہ لے کر معاف کروایا ہو اور نہ ہی کسی حکمران کی اپنی ملیں یا فیکٹریاں ہوں تواس میں کوئی شک نہیں کہ سب ٹھیک چلتا رہے گا۔

ہمارے حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں ، جس کا ذکر میں اپنے کئی کالموں میں بھی کر چکا ہوں لیکن آج میں ایک اچھوتے پہلو سے قارئین کو آگاہ کرنا چاہتا ہوںاور وہ ہے ''سیاسی منافقت'' ۔ جہاں مخالفین کے نام کی افتتاحی ''تختی '' لگی دیکھتے ہیں وہاں بدعنوانی نظر آتی ہے اوراس منصوبے کے لیے فنڈز دستیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی اسٹاف جب کہ اس کے مدمقابل اپنے اربوں کے پراجیکٹ صاف شفاف نظر آتے ہیں ۔

لیہ میں زہریلی مٹھائی کھانے سے درجنوں ہلاکتیں ہوگئیں۔ بات زہریلی مٹھائی بنانے والے یا اس کے پیچھے کے محرکات کی نہیں ہے بلکہ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اگر اسپتال میں دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ معدہ صاف کرنے کی سہولت ہوتی تو شاید اتنی زیادہ تعداد میں لوگ نہ مرتے۔ لیہ ہی میں 8سال قبل سابق پنجاب حکومت نے 200بیڈ کا اسپتال اور فتح پور ٹراما سینٹر قائم کیا، 14 کروڑ کی کثیر لاگت سے تعمیر ہونے والی ٹراما سینٹر کو جدید طبی سہولتوں سے آراستہ کیا گیا۔یہ اسپتال اور ٹراما سینٹر خیبر تا کراچی جانے والی شاہراہ کے کنارے قائم کیا گیا۔ 56کنال رقبے پر مختص راولپنڈی اور پشاور سے ملتان تک یہ واحد مرکز مسیحائی تھا۔ مگر ایک لیگی وزیر نے اس کے تمام انسٹرومنٹس ،لوازمات اس لیے ختم کرادیے، اسے تحصیل اسپتال کے درجے تک تنزلی محض اس لیے دلائی کہ جنوبی پنجاب کے اس بڑے مرکز مسیحائی کا کریڈٹ اُس کے مخالف کو جانے کا خدشہ تھا ۔

آپ دور نہ جائیں وزیر آباد کارڈیالوجی سینٹر پر آجائیں جس نے 15اضلاع کے 1کروڑ عوام کو سہولت فراہم کرنا تھی، اس کی تعمیر پر 2ارب روپے خرچ ہوئے تھے لیکن تکمیل کے بعد 7سال سے اسٹاف فراہم کیا گیا نہ ہی اسے چالو کیا گیاجس کی وجہ سے وہ اب کھنڈر کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ غرض یہ کہ پنجاب میںخاص طور پر ہیلتھ کے وہ تمام پراجیکٹ ہی بند کر دیے گئے جو سابقہ دور میں شروع کیے گئے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ6سال پہلے اپریل 2010ء میں جب محکمہ صحت کو 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے تحت کیا گیا تھا تو میں نے اس وقت بھی اپنے کالموں میں ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اب محکمہ صحت میں بہتری کے بجائے مزید پستی ہوگی کیونکہ جس کام میں صوبائی اجارہ داری ہو وہ کام کرپشن کا شکار ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح بلوچستان میں سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے کرپشن میں ملوث ہونے کے بعد ان کے گھر سے 65کروڑ کی نقدی برآمد ہوئی ہے اور یہ بلوچستان کی تاریخ کا ایک میگا کرپشن کیس ہے۔

اس طرح کے ناجانے کتنے کرپٹ سیاستدان اوربیوروکریٹ پاکستان میں موجود ہیں، بہرحال صوبوں نے شعبہ صحت کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا، آج بھی آپ چلڈرن اسپتال لاہور میں چلے جائیں وہاں ایک ایک بیڈ پر چار چار بچے لیٹے ہوں گے۔ مکمل وینٹی لیٹرز ہیں اور نہ ہی انکو بیٹرز... اسے چھوڑیں ملک کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں چلے جائیں وہاں یہی حال ہوگا۔ پنجاب کارڈیالوجی میں دل کے مریضوں کو چیک اپ کے لیے لمبی تاریخ دی جارہی ہے۔ اسپتالوں اور لیبارٹریز کو ٹھیکے پر دیا جارہا ہے... ایسا تو خود ہی ہوگا جب بجٹ میں صحت کے لیے رکھے گئے 24ارب روپے کے بجٹ میں سے محض 3ارب روپے خرچ کیے جائیں گے اور باقی بجٹ اورنج ٹرین اور دیگر معاملات کے لیے رکھ دیا جائے گا... غریب تڑپتے رہیں اور تڑپ تڑپ کر مرجائیں حکمرانوں کی بلا سے۔


عوام ایک منتخب حکومت کو غیر منتخب حکومت پر صرف اورصرف اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کے ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومت ان کی زندگیوں میں آسانیاں، سہولتیں، مراعات، کشادگیاں اورآسائشیں لانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔ منتخب عوامی حکومتوں اور نمایندوں پر عوام کا یہ یقین جمہوریت پر ان کے یقین کی نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن ہوتا اس کے بالکل بر عکس ہے۔

میں سابقہ پنجاب حکومت کانمایندہ تونہیں ہوں بقول شاعر

میں حق پرستوں کی اک قبیل سے ہوں
جو حق پہ ڈٹ گیا اسی لشکر قلیل سے ہوں
میں یونہی دست و گریباں نہیں زمانے سے
میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں

آپ سابقہ دور میں شروع کیا گیا 1122کا پراجیکٹ دیکھ لیں فنڈز روکے جا رہے ہیں۔ مذکورہ پراجیکٹ کے لیے چندے مانگے جارہے ہیں حالانکہ اپنے قیام سے آج تک یہ سروس پنجاب بھر میں 11لاکھ سے زائد چھوٹے بڑے حادثات میں بروقت پہنچ کر کئی ہزار جانیں بچا چکی ہے۔ان ہیلتھ پراجیکٹس کے علاوہ بھی کئی پراجیکٹس ایسے تھے جو کسی کو نظر نہیں آرہے مثلاََ مری کے پہاڑوں پر رہائشی اور تفریحی نوعیت کی تعمیرات کا منصوبہ ''نیو مری پراجیکٹ'' محض اس لیے ختم کر دیا گیا کہ اس کے افتتاح کی تختی پرکچھ ''کچھ غیر ضروری'' نام نمایاں تھے۔ اور آخر میں رنگ روڈ کو دیکھ لیں۔ یہ صرف اس لیے مکمل نہیں ہو سکی کہ اس منصوبے کا آئیڈیا گزشتہ حکومت نے دیا تھا۔

حالانکہ یہ روڈ لاہور کے دیگر روڈزسے زیادہ ضروری تھا۔ اس کے علاوہ لاہور ائیرپورٹ جانے والا غازی روڈ 8سال سے زیر تعمیر ہے ۔ سابقہ دور میں بھی اورنج ٹرین قسم کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا جس کی فزیبلٹی رپورٹس پر ہی دو تین ارب روپیہ لگا دیا گیا تھا،اس کا کیا بنا؟ فزیبلٹیوں کے نام پر اتنے روپے پیسے کا ضیاع آخر کیوں ہو رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اربوں روپے صرف اس وجہ سے ضایع کر دیے جاتے ہیں کہ ''تختی '' کسی اور کے نام ہے لہٰذافلاں پراجیکٹ کو کھٹائی میں ڈال دو۔ ہمارے ہاں ایسا مضبوط نظام کیوں نہیں مرتب کیا جارہا جس میں سے یہ تختی نکل جائے اور حکمران خلوص نیت سے پراجیکٹ کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ اور کوئی ایسا تھنک ٹینک موجود ہو جو یہ تعین کرے کہ کس پراجیکٹ کو ترجیحاََ مکمل کرنا ہے اور کس پر کتنا پیسہ اور کتنا وقت لگنا چاہیے۔اگر ایسا نظام ترتیب دے دیا جائے تو یقین مانیں کہ ہر پراجیکٹ میں کمیشن سسٹم بھی ختم ہو جائے گا ۔

میرے خیال میں کسی بھی عوامی پراجیکٹ کی تختی کی نقاب کشائی بھی بند کی جانی چاہیے کیوں کہ ہمارے سیاستدانوں میں اتنا ظرف ہی نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے وجود کو بھی برداشت کر سکیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آج اگر نواز شریف کی حکومت ختم ہو جائے تو نئی آنے والی حکومت نواز دور کے تمام پراجیکٹس کے فنڈز روک دے گی بلکہ میں تو یہ کہوں گا یہ کہ یہ ظرف بے نظیر میں بھی نہیں تھا کیوں کہ نواز حکومت کے دور میں موٹر وے کا افتتاح ہوا تو بعد ازاں پیپلز پارٹی نے اسے 6کے بجائے 4لائن کردیا لیکن بعد ازاں اسے دوبارہ 6لائن کیا گیا۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ عوام کے پیسوں سے شروع کیے جانے والے پراجیکٹس پر اپنا نام لکھا جائے بلکہ فلاحی کاموں کی نسبت سے نام لکھنے کا رواج ہے یہاں ایک گلی کی نالی پکی کرانے والے مسیحا کونسلر کانام بھی جلی حروف میں گلی کی نکڑ میں بڑی سی تختی لگا کر لکھ دیا جاتا ہے ... اگر ایسا ہی نظام چلتا رہا تو یقین مانیے تختی مافیا ہی ہمارے اوپر ساری زندگی حکومت کرے گا...
Load Next Story