سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا
گفتار کے یہ غازی اور کردار کے نام نہاد قاضی اپنے خیالات اور نظریات بدلنے میں لمحے بھر کی دیر نہیں کرتے
بے اُصولی اور مصلحت کوشی، مفاد پرستی کے اِس پراگندہ سیاسی نظام میں ہمارے سیاستداں کب اور کس وقت اُس فرد اور جماعت کے خلاف زہر اُگلنے لگیں، جس کی مدح سرائی میں وہ کبھی رات دن ایک کر دیا کرتے تھے یا پھر اچانک کسی کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیں جن کی مخالفت میں وہ پہلے دلائل و استدلال کے انبار لگا دیا کرتے تھے، ہمارے لیے یہ اب کوئی انہونی اور انوکھی بات نہیں رہی ہے۔
لیکن پانامہ پیپرز کے افشاء ہونے کے بعد ملک میں جس طرح سیاسی جماعتوں کے نظریات اور اُصولوں میں اچانک تبدیلی آئی ہے اُسے دیکھ کر ہمارے اِس خیال اور گمان کو مزید تقویت پہنچی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست خالصتاً ایک خود غرض، مفاد پرست اور ناقابلِ اعتبار بے پیندے کے لوٹے کا نام ہے۔
گفتار کے یہ غازی اور کردار کے نام نہاد قاضی اپنے خیالات اور نظریات بدلنے میں لمحے بھر کی دیر نہیں کرتے۔ اُنہیں پل بھر کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ لوگ اُن کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ وہ لوگ جو راست بازی، حق گوئی اور اُصول پسندی کے اعلیٰ معیارات کے بہت بڑے داعی اور دعویدار ہوا کرتے تھے، کس طرح اچانک منافقت، چرب زبانی، مطلب پرستی کے اسیر ہو کر رہ گئے کہ اُنہیں کوئی ندامت کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اِسی لیے اگر کوئی طبقہ سب سے زیادہ طوطا چشم ، بددیانت اور خود غرض ہے تو وہ یہی طبقہ ہے۔
ہم اگر سابقہ چند دہائیوں کی وڈیو کلپس اُٹھا کر دیکھیں تو ہمیں ایسے کئی کامیاب سیاستدانوں کی اصلیت معلوم ہو جائے گی۔ ایسے لوگ صرف کسی ایک پارٹی میں نہیں ہیں بلکہ تمام پارٹیاں ایسے موقعہ پرستوں سے بھری پڑی ہیں۔
نظریات اور پارٹیاں بدلنے والے کبھی کسی کے ساتھ مخلص سیاسی ہمسفر بن کر نہیں رہ سکتے۔ وہ خود نمائی، شہرت طلبی اور ہوس اقتدار میں اِس قدر غرق ہو جاتے ہیں کہ پھرکوئی اُصول اور کوئی نظریہ اُن کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتا۔ غلط کار اور بے کردار افراد پر مشتمل یہ ایک ایسا گروہ ہے جنھیں حیران کن طور پر یہ خوش گمانی بھی ہے کہ مورخ اُن کا قصیدہ پڑھے گا حالانکہ من حیث الطبقہ وہ ایک ایسے گروہ کی ترجمانی کر رہے ہیں جسے اپنے رویوں کے نتائج کا شعوروادراک ہی نہیں ہے۔
عوام الناس کی نظر میں اُن کی حیثیت انتہائی ناقابلِ اعتبار اشخاص سے زیادہ کچھ نہیں۔ خود کو صاحبِ فکر و دانش، سیاسی نشیب و فراز کا نباض اور معاملہ فہم سمجھنے والے یہ مفلسانِ فہم و ذکاء اگر اپنی اِس بیمار سوچ سے باہر نکلیں تو یقینا وہ عوام کے سامنے اپنا درِندامت کھلا پائیں گے۔ سیاسی نظریات اور پارٹیاں بدلنے والے بہت سے ایسے اشخاص جنھیں بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ خاموش اورکنارہ کش ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے لیکن کوچہ اقتدار کا مسلسل طواف کرنے والے ہمہ تن اِس کوشش میں سرگرداں اور برسرِ پیکار رہتے ہیں کہ کہیں سے اُن کی آرزو تشنہ کی تکمیل کا سامان ہو جائے اور وہ ایک بار پھر سے کسی طرح اقتدار و اختیار کی ندی میں ڈوبکیاں لگانے لگیں۔
میاں نواز شریف کی شان میں ایک لمبے عرصے تک قصیدے پڑھنے والے اور اُن کے ہر فیصلے کی بھرپور تائیدوحمایت کرنے والے ایک الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کا صدمہ اور غم ایسا لگا بیٹھے کہ میاں نوا ز شریف کا ہر مخالف اور حریف اُن کا دوست اور ممدوح بن گیا۔ وہ اِس غم کے سبب ایسے ذہنی عارضہ میں مبتلا ہو چکے ہیں جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف تہذیب اور اخلاق سے عاری مہذب پارلیمانی اقدار کے منافی کیسے کیسے جملے اور فقرے کسنے والے آج اچانک کس طرح اُن کے ثنا خوان اور مدح سرا بن گئے ہیں کہ آنکھیں حیران دماغ ششدر رہ جائے۔ بلاول بھٹو زرداری جسے وہ تضحیک و تحقیرآمیزالقابوں سے نوازا کرتے تھے آج کس خوبصورتی کے ساتھ پینترا بدل لیا ہے۔ خود کو بلاول کا خود ساختہ ''فین'' تصورکرنے والے یہ موصوف اِس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ میڈیا پر وہ جو کچھ کہیں گے لوگ آنکھیں بند کر کے تسلیم کر لیں گے۔
فرد واحد پر مشتمل عوامی مسلم لیگ کے یہ بیک وقت سربراہ، ممبر اور روحِ رواں بھی ہیں۔ بازاری لہجے میں گفت و شنید کے باعث میڈیا اُنہیں اپنے پروگراموں میں مزاح اور دلچسپی پیدا کرنے کی خاطر مدعو کر لیتا ہے تو وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اِس ملک کے سیاسی نظام میں وہی صرف ایک واحد صاحب بصیرت، عقلِ کل، ذہین اور فائق دانشور ہیں۔ باقی سارے یہاں فارغِ العقل لوگ ہیں۔ اِسی زعم اور خام خیالی میں وہ ہر تین چار ماہ بعد اِس ملک میں تبدیلی کی نوید سنا کر اپنی طوطا فال طبیعت کی تشفی کا سامان بھی کر لیا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جمہوریت کی لاش گرنے اور چور دروازے سے قصرِ اقتدار میں داخل ہونے کی اپنی خواہش کا اظہار بھی وہ اکثر دبے لفظوں میں بیان کر دیا کرتے ہیں۔
ویسے تو وہ آج کل اپنی اِنہی حسرتوں کی تکمیل کے لیے خان صاحب کی سیاست کے دل سے فریفتہ اور عاشق بنے ہوئے ہیں۔ وہ بے چارے اکیلے تو خود کچھ نہیں کر سکتے لہذا 2011ء میں کسی ایسے شخص کے مرغ دست آموز بن گئے جسے پسِ چلمن بیٹھے کسی تھرڈ ایمپائر نے بالا ہی بالا وزیرِاعظم بنانے کا جھانسہ دے ڈالا تھا۔ خان صاحب کی قابلیت اور بصیرت کے وہ اُس وقت قائل نہ ہوئے جب وہ 1996ء سے 2010ء تک ملکی سیاست کے اندھیروں میں اکیلے ہی بھٹک رہے تھے۔ اُس وقت تو وہ اُنہیں ایک ناکام و نامراد سیاست دان سے زیادہ اہمیت دینے کے روادار بھی نہ تھے۔
اب بھی کوئی بعید نہیں کہ وہ کسی وقت خان صاحب کی سیاست سے مایوس ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کے نفسِ ناطقہ بن جائیں جس کا موجودہ چیئرمین اُن کا زبردست فین بن چکا ہے۔ احساسِ ذمے داری اور احساسِ زیاں سے عاری ایسے ہی خود غرض اہلِ سیاست کے باعث سیاست پر سے ہمارے لوگوں کا اعتبار اور اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ ہوسِ اقتدار اور شہرت طلبی کے حامل سیاستدانوں نے عملی اور تعمیری سیاست کو فروغ دینے کی بجائے ذاتی مفادات اور طوطا چشمی کے ساتھ ہمیشہ جمہوری نظام پر کلہاڑا چلانے کی کوششیں کی ہیں۔
یہ جانتے بوجھتے بھی کہ غیر جمہوری نظام کسی لحاظ سے بھی ملک و قوم کے لیے کوئی بہتر متبادل نظام نہیں ہے۔ تیس پیتیس سالہ غیر جمہوری نظام نے ہمارے ملک کی نہ صرف جڑیں کمزور کی ہیں بلکہ اُس کا جغرافیہ بھی مختصر کیا ہے۔ وہ ہر وقت اُسی کی آرزو اور تمنا کرتے رہتے ہیں۔ خود غرضانہ سیاست کے حامل ہمارے ایسے ہی حریفانِ جمہوریت مخصوص سیاسی وغیرسیاسی شخصیات کے ارادت مندوں میں شامل ہو کر اُنہیں پیغمبرانہ بصیرت کا حامل قرار دینے میں کوئی تامل نہیں برتتے۔ اِس فتنہ خو قبیلے میں شامل یہ افراد آئے دن فوج سے پہل کرنے اور جمہوری نظام کی گردن دبوچنے کا غیر شعوری و غیرآئینی مطالبہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
وہ اب بھی اپنا یہ فریضہ بڑی تندہی کے ساتھ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ نومبر کے مہینے سے پہلے ہمارے اِس جمہوری نظام کوتلپٹ کر دینے کی اپنی دیرینہ خواہش کو وہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر سیاسی پیش گوئی کا نام دے کر خود کو ایک سچا، ذہین اور جہاں دیدہ پنڈت ثابت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کے ساتھ اُن کی ساری ہمدردیاں اور وفاداریاں صرف اُس وقت تک قائم ہیں جب تک اُنہیں کوئی دوسرا سہارا اور آسرا نہیں مل جاتا۔ قومی سیاست کو ایسے ہی بے کردار لوگوں نے بدنام اور داغدارکر کے رکھ ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخلص، باکردار اور دیانتدار لوگ کم کم ہی سیاست کے اِس ماحول میں اپنے لیے کوئی جگہ بنا پاتے ہیں۔
لیکن پانامہ پیپرز کے افشاء ہونے کے بعد ملک میں جس طرح سیاسی جماعتوں کے نظریات اور اُصولوں میں اچانک تبدیلی آئی ہے اُسے دیکھ کر ہمارے اِس خیال اور گمان کو مزید تقویت پہنچی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست خالصتاً ایک خود غرض، مفاد پرست اور ناقابلِ اعتبار بے پیندے کے لوٹے کا نام ہے۔
گفتار کے یہ غازی اور کردار کے نام نہاد قاضی اپنے خیالات اور نظریات بدلنے میں لمحے بھر کی دیر نہیں کرتے۔ اُنہیں پل بھر کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ لوگ اُن کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ وہ لوگ جو راست بازی، حق گوئی اور اُصول پسندی کے اعلیٰ معیارات کے بہت بڑے داعی اور دعویدار ہوا کرتے تھے، کس طرح اچانک منافقت، چرب زبانی، مطلب پرستی کے اسیر ہو کر رہ گئے کہ اُنہیں کوئی ندامت کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اِسی لیے اگر کوئی طبقہ سب سے زیادہ طوطا چشم ، بددیانت اور خود غرض ہے تو وہ یہی طبقہ ہے۔
ہم اگر سابقہ چند دہائیوں کی وڈیو کلپس اُٹھا کر دیکھیں تو ہمیں ایسے کئی کامیاب سیاستدانوں کی اصلیت معلوم ہو جائے گی۔ ایسے لوگ صرف کسی ایک پارٹی میں نہیں ہیں بلکہ تمام پارٹیاں ایسے موقعہ پرستوں سے بھری پڑی ہیں۔
نظریات اور پارٹیاں بدلنے والے کبھی کسی کے ساتھ مخلص سیاسی ہمسفر بن کر نہیں رہ سکتے۔ وہ خود نمائی، شہرت طلبی اور ہوس اقتدار میں اِس قدر غرق ہو جاتے ہیں کہ پھرکوئی اُصول اور کوئی نظریہ اُن کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتا۔ غلط کار اور بے کردار افراد پر مشتمل یہ ایک ایسا گروہ ہے جنھیں حیران کن طور پر یہ خوش گمانی بھی ہے کہ مورخ اُن کا قصیدہ پڑھے گا حالانکہ من حیث الطبقہ وہ ایک ایسے گروہ کی ترجمانی کر رہے ہیں جسے اپنے رویوں کے نتائج کا شعوروادراک ہی نہیں ہے۔
عوام الناس کی نظر میں اُن کی حیثیت انتہائی ناقابلِ اعتبار اشخاص سے زیادہ کچھ نہیں۔ خود کو صاحبِ فکر و دانش، سیاسی نشیب و فراز کا نباض اور معاملہ فہم سمجھنے والے یہ مفلسانِ فہم و ذکاء اگر اپنی اِس بیمار سوچ سے باہر نکلیں تو یقینا وہ عوام کے سامنے اپنا درِندامت کھلا پائیں گے۔ سیاسی نظریات اور پارٹیاں بدلنے والے بہت سے ایسے اشخاص جنھیں بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ خاموش اورکنارہ کش ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے لیکن کوچہ اقتدار کا مسلسل طواف کرنے والے ہمہ تن اِس کوشش میں سرگرداں اور برسرِ پیکار رہتے ہیں کہ کہیں سے اُن کی آرزو تشنہ کی تکمیل کا سامان ہو جائے اور وہ ایک بار پھر سے کسی طرح اقتدار و اختیار کی ندی میں ڈوبکیاں لگانے لگیں۔
میاں نواز شریف کی شان میں ایک لمبے عرصے تک قصیدے پڑھنے والے اور اُن کے ہر فیصلے کی بھرپور تائیدوحمایت کرنے والے ایک الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کا صدمہ اور غم ایسا لگا بیٹھے کہ میاں نوا ز شریف کا ہر مخالف اور حریف اُن کا دوست اور ممدوح بن گیا۔ وہ اِس غم کے سبب ایسے ذہنی عارضہ میں مبتلا ہو چکے ہیں جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف تہذیب اور اخلاق سے عاری مہذب پارلیمانی اقدار کے منافی کیسے کیسے جملے اور فقرے کسنے والے آج اچانک کس طرح اُن کے ثنا خوان اور مدح سرا بن گئے ہیں کہ آنکھیں حیران دماغ ششدر رہ جائے۔ بلاول بھٹو زرداری جسے وہ تضحیک و تحقیرآمیزالقابوں سے نوازا کرتے تھے آج کس خوبصورتی کے ساتھ پینترا بدل لیا ہے۔ خود کو بلاول کا خود ساختہ ''فین'' تصورکرنے والے یہ موصوف اِس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ میڈیا پر وہ جو کچھ کہیں گے لوگ آنکھیں بند کر کے تسلیم کر لیں گے۔
فرد واحد پر مشتمل عوامی مسلم لیگ کے یہ بیک وقت سربراہ، ممبر اور روحِ رواں بھی ہیں۔ بازاری لہجے میں گفت و شنید کے باعث میڈیا اُنہیں اپنے پروگراموں میں مزاح اور دلچسپی پیدا کرنے کی خاطر مدعو کر لیتا ہے تو وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اِس ملک کے سیاسی نظام میں وہی صرف ایک واحد صاحب بصیرت، عقلِ کل، ذہین اور فائق دانشور ہیں۔ باقی سارے یہاں فارغِ العقل لوگ ہیں۔ اِسی زعم اور خام خیالی میں وہ ہر تین چار ماہ بعد اِس ملک میں تبدیلی کی نوید سنا کر اپنی طوطا فال طبیعت کی تشفی کا سامان بھی کر لیا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جمہوریت کی لاش گرنے اور چور دروازے سے قصرِ اقتدار میں داخل ہونے کی اپنی خواہش کا اظہار بھی وہ اکثر دبے لفظوں میں بیان کر دیا کرتے ہیں۔
ویسے تو وہ آج کل اپنی اِنہی حسرتوں کی تکمیل کے لیے خان صاحب کی سیاست کے دل سے فریفتہ اور عاشق بنے ہوئے ہیں۔ وہ بے چارے اکیلے تو خود کچھ نہیں کر سکتے لہذا 2011ء میں کسی ایسے شخص کے مرغ دست آموز بن گئے جسے پسِ چلمن بیٹھے کسی تھرڈ ایمپائر نے بالا ہی بالا وزیرِاعظم بنانے کا جھانسہ دے ڈالا تھا۔ خان صاحب کی قابلیت اور بصیرت کے وہ اُس وقت قائل نہ ہوئے جب وہ 1996ء سے 2010ء تک ملکی سیاست کے اندھیروں میں اکیلے ہی بھٹک رہے تھے۔ اُس وقت تو وہ اُنہیں ایک ناکام و نامراد سیاست دان سے زیادہ اہمیت دینے کے روادار بھی نہ تھے۔
اب بھی کوئی بعید نہیں کہ وہ کسی وقت خان صاحب کی سیاست سے مایوس ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کے نفسِ ناطقہ بن جائیں جس کا موجودہ چیئرمین اُن کا زبردست فین بن چکا ہے۔ احساسِ ذمے داری اور احساسِ زیاں سے عاری ایسے ہی خود غرض اہلِ سیاست کے باعث سیاست پر سے ہمارے لوگوں کا اعتبار اور اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ ہوسِ اقتدار اور شہرت طلبی کے حامل سیاستدانوں نے عملی اور تعمیری سیاست کو فروغ دینے کی بجائے ذاتی مفادات اور طوطا چشمی کے ساتھ ہمیشہ جمہوری نظام پر کلہاڑا چلانے کی کوششیں کی ہیں۔
یہ جانتے بوجھتے بھی کہ غیر جمہوری نظام کسی لحاظ سے بھی ملک و قوم کے لیے کوئی بہتر متبادل نظام نہیں ہے۔ تیس پیتیس سالہ غیر جمہوری نظام نے ہمارے ملک کی نہ صرف جڑیں کمزور کی ہیں بلکہ اُس کا جغرافیہ بھی مختصر کیا ہے۔ وہ ہر وقت اُسی کی آرزو اور تمنا کرتے رہتے ہیں۔ خود غرضانہ سیاست کے حامل ہمارے ایسے ہی حریفانِ جمہوریت مخصوص سیاسی وغیرسیاسی شخصیات کے ارادت مندوں میں شامل ہو کر اُنہیں پیغمبرانہ بصیرت کا حامل قرار دینے میں کوئی تامل نہیں برتتے۔ اِس فتنہ خو قبیلے میں شامل یہ افراد آئے دن فوج سے پہل کرنے اور جمہوری نظام کی گردن دبوچنے کا غیر شعوری و غیرآئینی مطالبہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
وہ اب بھی اپنا یہ فریضہ بڑی تندہی کے ساتھ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ نومبر کے مہینے سے پہلے ہمارے اِس جمہوری نظام کوتلپٹ کر دینے کی اپنی دیرینہ خواہش کو وہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر سیاسی پیش گوئی کا نام دے کر خود کو ایک سچا، ذہین اور جہاں دیدہ پنڈت ثابت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کے ساتھ اُن کی ساری ہمدردیاں اور وفاداریاں صرف اُس وقت تک قائم ہیں جب تک اُنہیں کوئی دوسرا سہارا اور آسرا نہیں مل جاتا۔ قومی سیاست کو ایسے ہی بے کردار لوگوں نے بدنام اور داغدارکر کے رکھ ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخلص، باکردار اور دیانتدار لوگ کم کم ہی سیاست کے اِس ماحول میں اپنے لیے کوئی جگہ بنا پاتے ہیں۔