کراچی میں بلوچوں کی آمد
سینئر سیاستدان عبداللہ حسین ہارون کے ایک اخباری بیان نے میری طرح ہرکس و ناکس کو حیرت زدہ کر دیا ہے
سینئر سیاستدان عبداللہ حسین ہارون کے ایک اخباری بیان نے میری طرح ہرکس و ناکس کو حیرت زدہ کر دیا ہے جس میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ 1928ء کی بات ہے جب ایک دو لاکھ روپے آج کے کروڑوں روپوں کے برابر تھے، اس وقت حاجی سرعبداللہ ہارون نے انگریزسرکار کوکراچی میں مسلمانوں کی اکثریت دکھانے کے لیے اس وقت کے میونسپل کمشنر سے لیاری کو 2 لاکھ روپے میں خرید لیا جس کی رجسٹری آج بھی موجود ہے اور لیاری میں دو قوموں بلوچ اور سندھی (کچھی) کو ایک ساتھ لا کر آباد کرنے کے لیے بلوچستان میں سرداروں اور نوابوں سے کئی ملاقاتیں کیں اور بلوچوں کو کراچی لانے پر آمادہ کیا۔
تب لیاری میں مسلمانوں کی اکثریت ثابت ہو گئی تو کراچی پاکستان کے حصے میں آیا اگرچہ کراچی اور لیاری کی تاریخ کے اوراق اس حوالے سے خاموش ہیں لیکن چونکہ یہ بات سر عبداللہ ہارون کے پوتے عبداللہ حسین ہارون نے کی ہے جو ایک ذمے دار شخصیت ہیں اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب رہ چکے ہیں اس لیے تحقیق کرنیوالوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہے، اور وہ تاریخی دستاویز کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ کراچی شہرکی بنیاد 1729ء کو رکھی گئی جس وقت یہاں صرف 25 جھونپڑیاں تھی یہ لوگ ماہی گیر تھے اور مکران کے علاقے کلانچ سے آئے تھے، لیاری ندی کے کنارے آباد ہونے والی یہ آبادی (لیاری) آہستہ آہستہ بڑھتی گئی۔ مکران اور ایرانی بلوچستان سے ہجرت کر کے لوگ یہاں آباد ہو گئے تھے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کراچی میں بلوچوں کی آمد تین ادوار پر مشتمل تھی۔ پہلا دور 1725ء سے 1770ء تک رہا، دوسرا دور 1797ء اور تیسرا دور 0 183ء تھا اس طرح لیاری اور یہاں آباد ہوئے بلوچوں کو تین صدیاں بیت چکی ہیں۔ آیے! تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔ 1725ء میں کراچی ایک قصبہ (کوک) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جب ندی کے جنوب میں اور سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی تجارتی اہمیت ہوتی لیکن سمندر کے اس جگہ سے ہٹنے کی وجہ سے یہ بندر گاہ تباہ ہو گئی۔ 1729 میں کراچی بندرگاہ ڈربو (DIRBO)کہلایا جانے لگا جہاں تجارت شاہ بندر، لہری بندر، مسقط، سورت پور بندر اور ملبار بندر گاہ سے کی جاتی تھی۔ کراچی میں گزری کے نام سے بھی ایک چھوٹی بندرگاہ تھی لیکن وہ اتنی معروف نہ تھی۔ آج گزری بڑی آبادی ہے۔
جب سندھ میں نور محمدکلہوڑو کی حکومت تھی تو ان دنوں کراچی کی سر زمین پر مچھیروں کی جھونپڑیاں تھیں جو صرف مچھلی کے شکار پرگزارا کرتے تھے۔ یہاں اس وقت کی قدیم مقامی آبادی مہاڑ، بھیل اورجوکھیہ قبائل کی تھی جو سامان تجارت پرچنگی وصول کرتے تھے ۔اس وقت جوکھیہ کے سردار جام دریاخان جوکھیہ تھے۔ جب شاہ بندر بند ہوا تو وہاں کے باسی بھی کولاچی (کراچی) میں آکرآباد ہوئے۔ ان دنوں بلوچستان پرخان آف قلات کی حکومت تھی۔ اس دور میں ایران سے آنیوالے بلوچوں کی اکثریت گڈاپ، منگھو پیر، ماری پور، ہاکس بے اور دیگر علاقوں میں آباد ہوگئی۔
حاجی خمیسہ عرف خمو یہاں کی سب سے عمر رسیدہ شخصیت تھی، بلوچوں نے زمینیں خریدیں اور زمینداری کا پیشہ اختیارکیا۔ اس دور میں زراعت کا پیشہ بھی ایک کاروبارکی حیثیت رکھتا تھا۔ کراچی میں سب سے پہلے بلوچ (کلمتی قبیلے) سے تھے۔ کلمتی اور جوکھیوقبیلے میں قریبا18 جنگیں ہوئیں۔ آج بھی منگھوپیر، جنگ شاہی اور نیشنل ہائی وے پر جتنی پرانی قبریں ملیں گی وہ یا توکلمتیوں کی ہیں یا پھرجوکھیوں کی۔ جنگ میں صلح ہونے کے بعد کلمتی یہاں مستقل طور پر آباد ہونا شروع ہو گئے اور کاشتکاری کے ساتھ ساتھ مویشیوں کی تجارت بھی کرنے لگے۔
یہ بلوچ جلد ہی یہاں کی مقامی آبادی میں گھل مل گئے۔ یہ پہلا دور تھا جو 1770ء تک رہا۔ دوسرا دور۔ میرخان قلات کا بھائی خان عبداللہ خان سندھ کے کلہوڑو حاکموں کے ہاتھوں قتل ہوا تو کلہوڑو حکمراں نے خون بہا کے طور پرکراچی کی بندرگاہ خان آف قلات کے سپرد کر دی جس کی وجہ سے اس بندرگاہ کا نام (قلاتی بندرگاہ ) پڑ گیا۔ آگے جا کراس کا نام ( کراچی بندرگاہ ) ہوگیا۔ خان قلات نے کراچی کی ترقی اور یہاں کا کاروبار دیکھتے ہوئے شہر میں ایک حاکم مقررکر دیا جو لوگوں سے ٹیکس وصول کرتا تھا۔ کراچی میں کاروباری فضا کو دیکھتے ہوئے مختلف ممالک کے بیوپاری اس بندرگاہ پر آنے لگے۔ تجارت کی وجہ سے یہاں پارسی اور ہندو تاجر پیشہ افراد بھی آباد ہونا شروع ہوئے۔اس دور میں بلوچستان سے مختلف قبائل جن میں بروہی،گبول، دشتیاری، جدگال وغیرہ بھی شامل تھے کراچی میں آئے ۔کراچی 1797ء تک خان آف قلات کے ماتحت رہا۔
اس زمانے میں سندھ کی حکومت کلہوڑو کے ہاتھوں نکل کر سندھ میں آباد ایک بلوچ قبیلے (تالپور) کو ملی۔ میر فتح علی خان تالپور نے اپنے تین بھائیوں سمیت یہاں حکومت کی اور پروگرام بنایا کہ آمدنی بڑھانے کے لیے کسی طرح شہرکراچی پر قبضہ کیا جائے۔ میاں فقیرو نے فوج کے ساتھ دوبارہ کراچی پر حملہ کیا لیکن اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا بالآخر میروں نے کراچی پر قبضہ کر کے منوڑہ میں ایک چھوٹا سا قلعہ بنایا اور سندھ میں آباد ایک بلوچ قبیلے کے سردار نظامانی کو کراچی کا گورنر مقررکیا اور اس قلعے کی نگرانی کے لیے کئی ہزار بلوچ مامورکیے۔
کراچی نے اس دور میں بہت ترقی کی۔ تیسرا دور ،1839ء میں کراچی پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا یوں کراچی برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ 1843ء تک انگریزوں نے پورے سندھ پر قبضہ کر لیا اور برطانوی حکومت نے سر چارلیس نیپئر کو سندھ کا پہلا گورنر مقررکیا جس نے کراچی کو اپنا صدر مقام بنایا۔ اس وقت کراچی کی آبادی صرف 14 ہزار تھی۔ انگریزوں نے آمد کے بعد کراچی کو ایک منصوبہ بندی کے تحت ترقی دی اور برطانیہ کے فوجی سازوسامان کی ترسیل کراچی کی بندرگاہ سے ہونے لگی۔ ان دنوں مکران سے بڑی تعداد میں بلوچ کراچی آ کرآباد ہوئے۔
اس کی ایک وجہ مکران میں قحط سالی اور ایرانی بلوچستان میں شاہ ایران کے سپاہیوں کے مظالم تھے۔ وہ کشتیوں اور خشکی کے راستے کراچی آئے اور یہاں آ کر ماہی گیری،کشتی سازی، کھیتی باڑی اور مزدوری کے پیشے اپنائے۔ انگریزوں نے انھیں لیاری میں آباد کیا۔ اس وقت لیاری جنگل، ویران، کھنڈر اور جنگلی جانوروں کا مسکن تھا۔ 1928ء میں جب رضا شاہ پہلوی نے ایرانی بلوچستان پر قبضہ کر لیا تو دشتیار سے بھی بلوچ لیاری،کراچی میں آ کرآباد ہوئے۔ کراچی میں تعمیراتی کاموں، سڑکوں، پلوں کی تعمیر، کراچی پورٹ اور ریلوے میں مزدوروں کی مانگ کی وجہ سے 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے شروع میں کئی برسوں تک مختلف بلوچ قبیلے، ایرانی بلوچستان اور مکران سے آٓ کر کراچی میں آباد ہوتے رہے۔ اس دور میں تمام محنت طلب کاموں میں بلوچ پیش پیش رہے۔
کراچی میں بلوچ کمیونٹی نے آباد ہونے کے ساتھ ہی سب سے پہلے زمین داری، ماہی گیری اور مال مویشیوں کی تجارت کا پیشہ اپنایا۔ زمین داری اور ماہی گیری سے جو منافع حاصل ہوتا اس سے وہ زمینیں خریدتے رہے۔ تقسیم سے قبل تک بلوچ کمیونٹی کراچی کی قریبا 60 فیصد زمینوں کی مالک بن گئی۔ لال محمد بلوچ کے نام سے منسوب لالوکھیت (لیاقت آباد)، ناظم آباد، گلشن اقبال، ملیر، گڈاپ، منگھوپیر، لانڈھی، کورنگی انڈسٹریل ایریا، شرافی گوٹھ، ائیرپورٹ، ڈرگ کالونی ماڈل کالونی، ہاکس بے اور ماڑی پور سمیت کئی گوٹھوں کی زمینوں کی ملکیت بلوچ کمیونٹی کے پاس تھیں جن پر باقاعدگی سے کاشتکاری ہواکرتی تھی۔
انگریزوں کی آمد کے بعد بلوچ کمیونٹی نے محنت مزدوری کا پیشہ اپنایا اور ماہی گیری کے ساتھ مچھلی کی خریدوفروخت بھی شروع کردی۔ تقسیم سے قبل تک کراچی کی بلوچ کمیونٹی کے لوگ درج ذیل کاروبارکے بیوپاری تھے۔
فشری میں کشتیوں کے مالکان، مچھلی کے سپلائرز، سبزی منڈی میں فروٹ اورسبزیوں کی تجارت، بکرا پیڑی میں مال مویشیوں کی تجارت،دودھ ،کھجورکے پتوں کی چٹائی، مچھلی کے جال اور ہاتھ سے بنی دیگر چیزوں کی خریدو فروخت، مکانات اور پلوں کی تعمیرکی ٹھیکے داری، چمڑے اور اس سے بنی مصنوعات کے ایکسپورٹرز، خورونوش اوردیگر اجناس کے بیوپاری، ٹرانسپورٹ۔ تجارت وزمین داری کے علاوہ انھوں نے محنت مزدوری اور درج ذیل ملازمتیں اختیار کیں سرنگیں کھودنا، ریلوے لائن کی پٹری بچھانا، پل تعمیرکرنا، سڑکیں بنانا، عمارتوں کی تعمیرات، پورٹ پر سامان اتارنا اور چڑھانا ، TPX ریلوے میں مزدوری کرنا، قلی کا کام کرنا، گدھا گاڑی اور اونٹ گاڑی چلانا، ٹرکوںسے سامان اتارنا اور چڑھانا، موٹرمکینک، بائی سائیکل مکینک، سی مین، چمڑے کی رنگائی، کشتیوں کے معمار، گھر کے معمار، فشری میں مچھلیوں کے سپلائرزکی ملازمت، پرائمری اسکولوں میں اردو، سندھی کے استاد، ریلوے، کے ایم سی،کے پی ٹی اور دیگر سرکاری اداروں میں چھوٹے عہدوں پر ملازمتیں اختیار کیں مضبوط جسم رکھنے کی وجہ سے محنت طلب کاموں میں ان کی بڑی مانگ تھی۔ تجارت اور ملازمت میں ہندو، پارسی اور سندھی، کچھیوں کے بعد بلوچ کمیو نٹی کے لوگوں کی اکثریت تھی۔