کاغذی ڈالر کا شکنجہ اور قیدی ممالکچھٹا حصہ

ان اختیارات کو اشرافیہ اپنے قبضے تلے رکھنے کے لیے دو راستے اختیار کرتی ہے


خالد گورایا May 11, 2016
[email protected]

صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ''عوامی حکومت'' عوام میں سے برسر اقتدار آئے اور عوامی حکمران ان صدارتی، وزارتی محلات کو زمین بوس کر دیں۔ عوامی نمایندے اپنے اپنے حلقے میں عوامی فورم قائم کریں اور اس عوامی فورم میں عام آدمی وہی فیصلے کرے گا جو عوامی مفاد اور ملکی مفاد میں مثبت ہوں گے۔ اشرافیہ کی سب سے بڑی خواہش اور سب سے بڑی کمزوری سرمایہ اور ''اختیارات'' ہوتے ہیں۔

ان اختیارات کو اشرافیہ اپنے قبضے تلے رکھنے کے لیے دو راستے اختیار کرتی ہے۔ انتظامی عہدوں پر اشرافیہ قابض ہوتی ہے اور نظریاتی و سیاسی اختیارات اشرافیائی جمہوریت کے ذریعے حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ جمہوریت کی آڑ میں سرمایہ دار ڈریگن بن کر قانون سازی کرتا ہے۔ جو دکھاوے کے لیے ملکی مفاد ہوتا ہے اور حقیقتاً یہ برعکس عمل ہوتا ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں موجود تضادات کو عالمی سامراج نے تعاون کیا اور انڈیا نے مداخلت کر کے پاکستان کو توڑنے کے لیے مکتی باہنی کو قوت دی۔ اس طرح سرمایہ داری میں سیاسی، نظریاتی، مذہبی تضادات کو ابھارنا، ہی اشرافیہ کا مقصد ہوتا ہے۔ اگر ملک میں تضادات کو ختم کرنا عوام کے درمیان فاصلوں کو کم کرنا اشرافیہ کا مقصد ہوتا تو 1947ء سے 2016ء تک پاکستان میں تضادات ختم ہو چکے ہوتے۔

عالمی امریکی سامراج نے 1914ء کو پہلی عالمی جنگ کے دوران یورپی ملکوں میں ''کرنسی ایکسچینج بحران'' کے تضادات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کاغذی ڈالر کو داخل کر کے یورپی ملکوں کے مالیاتی سسٹم کو کاغذی ڈالر کا قیدی بنا لیا تھا۔ یورپی ملکوں کو اعتماد تھا کہ امریکا 20.67 کاغزی ڈالروں کے بدلے ایک اونس سونا دے گا۔ لیکن امریکا نے کاغذی ڈالروں کے نکاسی کے لیے سونا ادا کرنے کے بجائے مالیاتی نوسر بازی کرتے ہوئے 25 اکتوبر 1933ء سے 31 جنوری 1934ء تک ایک اونس سونے کی قیمت 20.67 ڈالر سے بڑھا کر 35.00 ڈالر کر کے مزید سونا اکٹھا کر لیا تھا۔

اور دسمبر 1945ء کو IMF بناکر باقی پوری دنیا کے ملکوں کو امریکا کا معاشی غلام بنا لیا۔ کرنسیوں کی قیمتوں کو کاغذی ڈالر کے مقابلے کم کر کے ان ملکوں کی تجارت بجٹوں کو خسارے میں بدلا اور پھر پوری دنیا کی معیشت کو ڈالرائز کر کے پسماندہ ملکوں کے وسائل کو لوٹنے کے لیے امریکا نے 1950ء سے 1970ء تک کمبوڈیا، ویت نام، انڈونیشیا، لاؤس، کوریا میں جارحیت شروع کر دی۔ لاکھوں ٹن بارود برسایا گیا جس کے نتیجے میں امریکی کاغذی ڈالر کا غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ یورپی ملکوں کی معیشت میں ابھر کر سامنے آ گیا۔ کتاب International Financial Statistics by IMF 1984 کے صفحہ 592 کے مطابق 1950ء میں امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 22820.0 ملین ڈالر تھا۔

سونا 652.00 ملین اونس تھا (35 ڈالر فی اونس) اور 1960ء میں گولڈ ریزرو 508.69 ملین اونس اور گولڈ ڈالر ریزرو 17800.0 ملین ڈالر تھے (34.991 ڈالر کا ایک اونس سونا)، 1971ء میں امریکا کا گولڈ ریزرو 291.60 ملین اونس تھا اور گولڈ ڈالر ریزرو 10210.0 ملین ڈالر تھا۔ امریکا کے پاس 1950ء سے 1971ء تک گولڈ ریزرو میں 124 فیصد کمی ہو چکی تھی۔ کتاب IFS سال 1980ء کے صفحہ 35-6 کے مطابق 1950ء میں پوری دنیا کے پاس کاغذی ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو 13333.0 ملین ڈالر تھے۔ امریکا کے پاس 22820.0 ملین ڈالر گولڈ ریزرو تھا۔ یعنی امریکا کے پاس 9487.0 ملین گولڈ ڈالر زیادہ تھے۔ 1971ء میں پوری دنیا کے پاس 81375.4 ملین ڈالر کے فارن ایکسچینج ریزرو تھے۔

اور امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 1971ء میں 1021.0 ملین ڈالر تھا۔ اس طرح 1971ء میں امریکا 71165.4 ملین ڈالر سے ڈیفالٹر ہو چکا تھا۔ امریکا کی مالیاتی دھاندلی کو بڑے یورپی ملکوں کے سوا پوری دنیا نہیں جانتی تھی۔ یورپی ملکوں نے اپنے اپنے ڈالر ریزرو میں کمی کرنا شروع کر دی تھی۔ کیونکہ 1962ء سے امریکا کے پاس گولڈ ریزرو ڈالر میں 16060.0 ملین ڈالر تھا اور بیرونی ملکوں کے پاس 19896.0 ملین ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو تھے۔ امریکا 1962ء میں 3836.0 ملین ڈالر سے ڈیفالٹر ہو چکا تھا۔ IMF کی کتابیں جو ہر سال IFS کے نام سے شایع ہوتی ہیں ان کے مطابق اسپین نے 1962ء سے 1967ء تک گولڈ ریزرو میں اضافہ کر لیا تھا اور ڈالر ریزرو میں 561.0 ملین ڈالر سے 264.0 ملین ڈالر تک کمی کر لی تھی۔ یونان نے بھی گولڈ ریزرو میں اضافہ فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو میں کمی کر لی تھی۔

ایسے ممالک میں کینیڈا، فرانس، میکسیکو، آسٹریا، سوئیڈن، آسٹریلیا، جرمنی FR، جاپان، بیلجیم، ڈنمارک، نیدرلینڈ، لبنان، سوئٹزرلینڈ، اٹلی، ساؤتھ افریقہ شامل تھے۔ اس کے برعکس برطانیہ پر ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی کا بوجھ پڑنے کے بعد 2581.0 ملین ڈالر گولڈ سے 1291.0 ملین ڈالر گولڈ رہ گیا۔ امریکا پر ادائیگی کا بوجھ پڑنے سے 16057.0 سے 12065.0 ملین ڈالر گولڈ رہ گیا تھا۔ ناروے پر دباؤ ملکی تھا لوگوں نے ڈالر حکومت کے حوالے کیے۔ ناروے کے گولڈ ریزرو میں کمی ہو گئی۔ ترکی کے گولڈ ریزرو میں بھی کمی ہو گئی۔ امریکی جارحیت کے جنگی غیر پیداواری اخراجات کے نتیجے میں کوریا، ویتنام، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس لاکھوں عوام کا قتل عام کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں معاشی بحران مزید بڑھتا گیا۔

مارچ 1971ء فرانس کی حکومت نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے عوض سونا (35 ڈالر فی اونس) ادا کرے۔ اس کے ساتھ ہی سوئٹزرلینڈ، نیدر لینڈ، بیلجیم کی حکومتوں نے ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی کا مطالبہ امریکا سے کیا۔ 3 مئی 1971ء سے 5 مئی 1971ء تک جرمنی کے حکومتی بینکوں نے اپنے لوگوں کو مقامی کرنسی Dectsche Mark ، 2 ارب ڈالروں کے بدلے ادا کرنے کے بعد اسٹاک ایکسچینج بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ ایسے ہی سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ، بیلجیم، آسٹریا نے بھی ڈالروں کے بدلے مقامی کرنسیاں دینے کے بعد اسٹاک ایکسچینجز بند کر دی تھیں۔

اس کے بعد امریکی مالیاتی کمپنی نے صدر رچرڈ نکسن کو مشورہ دیا کہ سونے اور ڈالر کا تعلق توڑنے کا اعلان کرے۔ 15 اگست 1971ء کو امریکی حکومت نے کاغذی ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی نہ کرنے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی امریکا نے یورپی ملکوں کی ایکسپورٹ پر امریکا میں داخلے کے وقت فیصد Surta لگا دیا۔ یورپ کے 16 ملکوں نے 1962ء کے بعد 14 اگست 1971ء کے دوران امریکی کاغذی ڈالر کے فارن ایکسچینج ریزرو ڈالرز کو سونے میں تبدیل کرنے کے لیے امریکا پر دباؤ بڑھایا تھا۔ امریکا نے 15 اگست 1971ء کو کاغذی ڈالر کے بدلے سونے کی ادائیگی بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یورپی 16 ممالک امریکی مالیاتی نوسربازی سے آگاہ تھے۔ جنھوں نے کاغذی ڈالر کی واپسی کے لیے امریکا پر دباؤ بڑھایا تھا۔ باقی پوری دنیا کے تمام ممالک اس ''کرنسی وار'' سے لاعلم تھے۔

کتاب انٹرنیشنل فنانشل اسٹیٹس'' سال 1980ء کے صفحہ 38-39 پر پوری دنیا کے پاس فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو کے اعداد و شمار کے مطابق 1962ء میں تمام دنیا کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر 19896.0 ملین ڈالر تھے۔ 1970ء میں 45434.0 ملین ڈالر، 1971ء میں 81375.4 ملین ڈالر، 1974ء میں مزید بڑھ کر 154835.2 ملین ڈالر ہو گیا تھا۔ اس عالمی معاشی بحران میں صرف 16 یورپی ممالک امریکی مالیاتی نوسربازی کے خلاف میدان میں اترے تھے۔ لیکن باقی دنیا کے تمام ممالک امریکی ''کاغذی ڈالر'' لین دین میں استعمال کر رہے تھے۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں