جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے
اگر ہم اپنے آپ کو درست نہیں کریں گے تو صورتحال اور بھی مزید خراب ہو گی
گئے وقتوں میں بزرگوں کی کہی گئی باتوں کو سمجھا جاتا تھا اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی میں ان حکمتوں کو شامل کیا جاتا تھا مگر جیسے جیسے ہم تعلیم یافتہ ہوئے ہم نے سائنس اور Logic کو زیادہ اہمیت دینی شروع کر دی اور سب سے بڑی بات اپنے آپ کو ہم زیادہ عقلمند اور دانش مند تصور کرنے لگے۔ زبردست قسم کے اقوال گاہے بگاہے ہماری گفتگو میں شامل رہتے ہیں اور ہم دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے ان کو استعمال کرتے ہیں مگر کیا کہیے کہ یہ صرف ایک دکھاوا ہی ہو کر رہ گیا ہے، ہم اندر سے کچھ ہیں اور باہر سے کچھ، باتیں کسی اور طرح کی کرتے ہیں مگر عمل کچھ اور کرتے ہیں، اسی لیے انتشارکی صورتحال نمایاں ہے۔
اگر ہم اپنے آپ کو درست نہیں کریں گے تو صورتحال اور بھی مزید خراب ہو گی۔ روز بروز انتشارکی صورتحال بڑھتی ہی جا رہی ہے اور جو تشویش ناک بات ہے وہ کچھ ایسے واقعات ہیں جس میں نوجوان نسل مایوسی کی حالت میں خودکشی جیسے اقدام اٹھانے پر مجبور ہو رہی ہے۔ ایک نجی یونیورسٹی کا طالب علم امتحانی مرکز تاخیر سے پہنچتا ہے، اسے انتظامیہ پرچے حل کرنے کے لیے کمرہ امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی، وہ دل برداشتہ ہو کر اپنے آپ کو آگ لگا لیتا ہے والدین کی زندگی بھر کی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں اور فقط بے بسی باقی رہ جاتی ہے۔
کیسا افراتفری کا عالم ہے، بے بسی، غربت و افلاس، ضروریات زندگی ناپید، خالی ہاتھ افراد جئیں یا مریں، اس تنگ حال معاشرے میں جب پانامہ لیکس جیسی فائلیں کھلتی ہیں اور بے بس عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان پر جابجا ٹیکسز لگا کر حکمران کیسے کیسے امیر تر ہو رہے ہیں۔ عوام کا پیسہ ان پر خرچ ہونے کی بجائے صرف گنتی کے چند لوگ ارب، کھرب پتی کیسے بن رہے ہیں، یہ باتیں تو عوام کی بھلائی کی کرتے ہیں، قسمیں کھاتے ہیں مگر یہ لوٹ مار ایسی کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
اسٹیل مل ایک قابل فخر ادارہ بنا مگر اس کو تباہ کر دیا گیا، پی آئی اے ایک پہچان بنا، اس کو بھی سیاست کھا گئی، بہت سے ادارے جنھوں ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، ان کو بدنیتی اور لالچ نے نگل لیا، بنیادوں کو کھوکھلا کریں گے تو عمارت ہلنا شروع ہو جاتی ہے اور خوف کے سائے بڑھنے لگ جاتے ہیں، ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہے، چاروں طرف خوف کے سائے اور چور، ڈاکو، لٹیرے، شکلیں بدل بدل کر ہمارے آس پاس۔ پتہ نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں باتیں تو بڑی وزنی کرتے ہیں گھر کی عورتیں، مدارس میں درس بھی حاصل کرتی ہیں۔
بچوں کو بھی مولانا قرآن پڑھانے آتے ہیں مگر ہمارے اعمال کس طرف گامزن ہیں، جھوٹ، بدنیتی، حسد، سازشیں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہمارا مقصد، جھوٹی، دکھاوے کی زندگی ، چمک دمک،کیا ہم صرف انھی کا جواب دیں گے؟ جو بے چارے بے گناہ مار دیے جاتے یا وہ لوگ جو دہشت گردوں سے جنگ میں شہید ہو جاتے ہیں یا وہ لوگ جو اس جہاد میں معذور ہو جاتے ہیں۔ وہ اور ان کا خاندان کیا ساری ساری زندگی تکلیفوں میں گزارے؟ اور وہ لوگ جو عوام کا بھروسہ لے کر آئے وہ صرف دھوکہ و فریب کریں، خوب خوب دولت اکٹھی کریں، کس سے جا کر انصاف مانگیں، کون ہے جو ہمارے اردگرد پھیلے لٹیروں سے عوام کو بچائے، ساری امیدیں، ساری خوشی کی داستانیں کیا کہیں قبروں میں دفن ہو جائیں گی۔
کہتے ہیں ناامیدی حرام ہے اور ہم سب کو اچھے اعمال کے ساتھ ساتھ اللہ سے امید بھی بہتری کی رکھنی چاہیے۔ انشا اللہ اندھیروں سے روشنی کی کرنیں ضرور پھوٹیں گی پانامہ لیکس کے بعد سیاسی ماحول خاصا کشیدہ ہوا ہے، آرمی چیف راحیل شریف کا بیان کہ کرپشن کا خاتمہ بھی ضروری ہے اور احتساب بھی ضروری ہے۔ اس بیان نے ماحول میں مزید ہلچل پیدا کر دی ہے۔
حالانکہ بات سو فیصد درست ہے مگر کون کون کس کس طرح اس کو اپنے اوپر لاگو کر رہا ہے۔ بے تحاشا کرپشن نے ملک کی جڑیں کمزور کر دی ہیں، شخصیات نے اپنے آپ کو مضبوط کیا اور ملک کو کمزور چھوٹے چھوٹے کریانہ کے کام کرنے والے نجانے کس کس طرح پیسہ کما کر لکھ پتی بن بیٹھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پیسہ کمانے اور عزت کمانے میں بہت فرق ہے، بچہ بچہ حکمرانوں کو سیاست دانوں کو چور اور لٹیرا کہیں اپنے اداروں کو ناانصاف کہیں تو پھر کیا کیجیے۔ کیا ایسے لوگوں کو اپنی جگہوں پر برقرار رہنے کا حق ہے؟
غریب ملکوں کے امیر ترین حکمراں کیسے کیسے امیر تر ہو رہے ہیں اور کیسے کیسے عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یہ واقعی ظلم و ستم ہے کہ سسکتے ہوئے لوگوں کی کھالیں کھینچ کھینچ کر اتار لی جائیں۔ 2018ء الیکشن کا سال ہو گا اور یہ وقت شاید تو تو میں میں کرتے کرتے گزر ہی جائے گا اور حکمرانوں کی دولت میں کمی نہیں اضافہ ہی ہو گا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان بنیادی ضروریات پہ الیکشن لڑے جاتے تھے جیتے جاتے تھے مگر اب انھیں بنیادی ضروریات پر بے شمار بے حساب دولت بنائی جاتی ہے، بجلی دن بہ دن مہنگی، پینے کا صاف پانی اور صاف ستھری ہوا ناپید۔ ایک عام آدمی کا حال بے حد برا ہے۔ ناجائز طریقوں سے دولت کمانے والے حد سے زیادہ بے شرم ہو گئے ہیں۔ نہ خدا کا خوف اور نہ اپنی بے عزتی کا خوف، عزت ہو تو بے عزتی کا خوف ہوتا ہے۔ اس لیے بے حسی کی چادر ایسی ان پر چڑھی ہوئی ہے جو دن بہ دن پھیلتی ہی جا رہی ہے۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ فوج کو برا بھلا کہنے والے کیا اب بھی اپنی طوطے کی تان لگائے رکھیں گے، برسوں سے بگڑے ہوئے حالات خاص طور پر کراچی کے اب آہستہ آہستہ زندگی کی طرف واپس آتے نظر آتے ہیں پورے ملک میں جمہوری حکومت ہونے کے باوجود فوج اپنا بھرپور رول ادا کرتی نظر آ رہی ہے جو روز مرہ کے کام پولیس کو نہایت ذمے داری سے کرنے چاہیے تھے وہ ذمے داریاں بھی رینجرز پوری کرتی نظر آتی ہے، عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ اپنی اپنی دکانیں چمکانے کے لیے سب اپنے ہی ملک کے دشمن ہوئے بیٹھے ہیں۔
لگاتار عمران خان بولے چلے جا رہے ہیں اور اپنی سی کوششیں بھی کر رہے ہیں نجانے وہ کون سا وقت ہو گا جب یہ کوششیں کامیاب ہوں گی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے امیدیں لگائے قوم بیٹھی ہے کہ اللہ ہی ہم سب کو بچائے تو ہم سب عزت و فخر سے اپنے ملک کو ہنستا بستا دیکھیں۔ اپنے ہی ملک کی جڑیں کمزور کرکے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کا رواج آخر کب تک رہے گا۔
برائی مٹنے کے لیے اور اچھائی پروان چڑھنے کے لیے ہے اور اللہ کے قانون تاقیامت تک کے لیے یکساں ہیں ہم گناہ گاروں پر ظالم حکمرانوں کو مسلط کردیا گیا ہے، ہم سب کو انفرادی طور پر توبہ استغفارکرنی ہوگی ، تب ہی یہ عذاب بھری حکومتیں ختم ہوں گی۔
اگر ہم اپنے آپ کو درست نہیں کریں گے تو صورتحال اور بھی مزید خراب ہو گی۔ روز بروز انتشارکی صورتحال بڑھتی ہی جا رہی ہے اور جو تشویش ناک بات ہے وہ کچھ ایسے واقعات ہیں جس میں نوجوان نسل مایوسی کی حالت میں خودکشی جیسے اقدام اٹھانے پر مجبور ہو رہی ہے۔ ایک نجی یونیورسٹی کا طالب علم امتحانی مرکز تاخیر سے پہنچتا ہے، اسے انتظامیہ پرچے حل کرنے کے لیے کمرہ امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی، وہ دل برداشتہ ہو کر اپنے آپ کو آگ لگا لیتا ہے والدین کی زندگی بھر کی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں اور فقط بے بسی باقی رہ جاتی ہے۔
کیسا افراتفری کا عالم ہے، بے بسی، غربت و افلاس، ضروریات زندگی ناپید، خالی ہاتھ افراد جئیں یا مریں، اس تنگ حال معاشرے میں جب پانامہ لیکس جیسی فائلیں کھلتی ہیں اور بے بس عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان پر جابجا ٹیکسز لگا کر حکمران کیسے کیسے امیر تر ہو رہے ہیں۔ عوام کا پیسہ ان پر خرچ ہونے کی بجائے صرف گنتی کے چند لوگ ارب، کھرب پتی کیسے بن رہے ہیں، یہ باتیں تو عوام کی بھلائی کی کرتے ہیں، قسمیں کھاتے ہیں مگر یہ لوٹ مار ایسی کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
اسٹیل مل ایک قابل فخر ادارہ بنا مگر اس کو تباہ کر دیا گیا، پی آئی اے ایک پہچان بنا، اس کو بھی سیاست کھا گئی، بہت سے ادارے جنھوں ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، ان کو بدنیتی اور لالچ نے نگل لیا، بنیادوں کو کھوکھلا کریں گے تو عمارت ہلنا شروع ہو جاتی ہے اور خوف کے سائے بڑھنے لگ جاتے ہیں، ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہے، چاروں طرف خوف کے سائے اور چور، ڈاکو، لٹیرے، شکلیں بدل بدل کر ہمارے آس پاس۔ پتہ نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں باتیں تو بڑی وزنی کرتے ہیں گھر کی عورتیں، مدارس میں درس بھی حاصل کرتی ہیں۔
بچوں کو بھی مولانا قرآن پڑھانے آتے ہیں مگر ہمارے اعمال کس طرف گامزن ہیں، جھوٹ، بدنیتی، حسد، سازشیں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہمارا مقصد، جھوٹی، دکھاوے کی زندگی ، چمک دمک،کیا ہم صرف انھی کا جواب دیں گے؟ جو بے چارے بے گناہ مار دیے جاتے یا وہ لوگ جو دہشت گردوں سے جنگ میں شہید ہو جاتے ہیں یا وہ لوگ جو اس جہاد میں معذور ہو جاتے ہیں۔ وہ اور ان کا خاندان کیا ساری ساری زندگی تکلیفوں میں گزارے؟ اور وہ لوگ جو عوام کا بھروسہ لے کر آئے وہ صرف دھوکہ و فریب کریں، خوب خوب دولت اکٹھی کریں، کس سے جا کر انصاف مانگیں، کون ہے جو ہمارے اردگرد پھیلے لٹیروں سے عوام کو بچائے، ساری امیدیں، ساری خوشی کی داستانیں کیا کہیں قبروں میں دفن ہو جائیں گی۔
کہتے ہیں ناامیدی حرام ہے اور ہم سب کو اچھے اعمال کے ساتھ ساتھ اللہ سے امید بھی بہتری کی رکھنی چاہیے۔ انشا اللہ اندھیروں سے روشنی کی کرنیں ضرور پھوٹیں گی پانامہ لیکس کے بعد سیاسی ماحول خاصا کشیدہ ہوا ہے، آرمی چیف راحیل شریف کا بیان کہ کرپشن کا خاتمہ بھی ضروری ہے اور احتساب بھی ضروری ہے۔ اس بیان نے ماحول میں مزید ہلچل پیدا کر دی ہے۔
حالانکہ بات سو فیصد درست ہے مگر کون کون کس کس طرح اس کو اپنے اوپر لاگو کر رہا ہے۔ بے تحاشا کرپشن نے ملک کی جڑیں کمزور کر دی ہیں، شخصیات نے اپنے آپ کو مضبوط کیا اور ملک کو کمزور چھوٹے چھوٹے کریانہ کے کام کرنے والے نجانے کس کس طرح پیسہ کما کر لکھ پتی بن بیٹھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پیسہ کمانے اور عزت کمانے میں بہت فرق ہے، بچہ بچہ حکمرانوں کو سیاست دانوں کو چور اور لٹیرا کہیں اپنے اداروں کو ناانصاف کہیں تو پھر کیا کیجیے۔ کیا ایسے لوگوں کو اپنی جگہوں پر برقرار رہنے کا حق ہے؟
غریب ملکوں کے امیر ترین حکمراں کیسے کیسے امیر تر ہو رہے ہیں اور کیسے کیسے عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یہ واقعی ظلم و ستم ہے کہ سسکتے ہوئے لوگوں کی کھالیں کھینچ کھینچ کر اتار لی جائیں۔ 2018ء الیکشن کا سال ہو گا اور یہ وقت شاید تو تو میں میں کرتے کرتے گزر ہی جائے گا اور حکمرانوں کی دولت میں کمی نہیں اضافہ ہی ہو گا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان بنیادی ضروریات پہ الیکشن لڑے جاتے تھے جیتے جاتے تھے مگر اب انھیں بنیادی ضروریات پر بے شمار بے حساب دولت بنائی جاتی ہے، بجلی دن بہ دن مہنگی، پینے کا صاف پانی اور صاف ستھری ہوا ناپید۔ ایک عام آدمی کا حال بے حد برا ہے۔ ناجائز طریقوں سے دولت کمانے والے حد سے زیادہ بے شرم ہو گئے ہیں۔ نہ خدا کا خوف اور نہ اپنی بے عزتی کا خوف، عزت ہو تو بے عزتی کا خوف ہوتا ہے۔ اس لیے بے حسی کی چادر ایسی ان پر چڑھی ہوئی ہے جو دن بہ دن پھیلتی ہی جا رہی ہے۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ فوج کو برا بھلا کہنے والے کیا اب بھی اپنی طوطے کی تان لگائے رکھیں گے، برسوں سے بگڑے ہوئے حالات خاص طور پر کراچی کے اب آہستہ آہستہ زندگی کی طرف واپس آتے نظر آتے ہیں پورے ملک میں جمہوری حکومت ہونے کے باوجود فوج اپنا بھرپور رول ادا کرتی نظر آ رہی ہے جو روز مرہ کے کام پولیس کو نہایت ذمے داری سے کرنے چاہیے تھے وہ ذمے داریاں بھی رینجرز پوری کرتی نظر آتی ہے، عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ اپنی اپنی دکانیں چمکانے کے لیے سب اپنے ہی ملک کے دشمن ہوئے بیٹھے ہیں۔
لگاتار عمران خان بولے چلے جا رہے ہیں اور اپنی سی کوششیں بھی کر رہے ہیں نجانے وہ کون سا وقت ہو گا جب یہ کوششیں کامیاب ہوں گی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے امیدیں لگائے قوم بیٹھی ہے کہ اللہ ہی ہم سب کو بچائے تو ہم سب عزت و فخر سے اپنے ملک کو ہنستا بستا دیکھیں۔ اپنے ہی ملک کی جڑیں کمزور کرکے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کا رواج آخر کب تک رہے گا۔
برائی مٹنے کے لیے اور اچھائی پروان چڑھنے کے لیے ہے اور اللہ کے قانون تاقیامت تک کے لیے یکساں ہیں ہم گناہ گاروں پر ظالم حکمرانوں کو مسلط کردیا گیا ہے، ہم سب کو انفرادی طور پر توبہ استغفارکرنی ہوگی ، تب ہی یہ عذاب بھری حکومتیں ختم ہوں گی۔