سندھ سے ہندو برادری ہجرت نہیں کر رہی مولابخش چانڈیو

یاترا کیلیے جانیوالوں میں سے بعض بھارت ٹھہر بھی جاتے ہونگے ، اسے ہجرت نہیں کہا جا سکتا ، انٹرویو۔


BBC November 18, 2012
پاکستان نہیںبلکہ نوازشریف بے یقینی کی صورتحال کاشکارہیں،وفاقی وزیر،حیدرآبادمیں خطاب. فوٹو: فائل

سینیٹر مولابخش چانڈیو کا کہنا ہے کہ سندھ سے ہندو برادری کے لوگ یاترا کیلیے بھارت ضرور جاتے ہیں اور ان میں سے بعض لوگ بھارت میں ٹھہر بھی جاتے ہونگے لیکن اسے سندھ سے ہندوئوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کا نام نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ بات انھوں نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں کہی۔

صدر پاکستان نے سینیٹر مولا بخش چانڈیو کو اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا جسے سندھ کی ہندو برادری کو در پیش مسائل پر تحقیقات کرنے اور سفارشات تجویز کرنے کیلیے صدر پاکستان نے مقرر کیا تھا ۔ کمیٹی میں ایک ہندو رکن بھی شامل تھے ۔ کمیٹی کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا تھا جب ہندو لڑکیوں کے اپنے والدین کی رضا مندی کے بغیر اپنے گھروں سے چلے جانے اور مسلمان ہو کر شادی کرنے کے یکے بعد کئی واقعات پیش آئے تھے ۔ ایسی لڑکیوں کے والدین نے لڑکیوں کے اغوا کا الزام عائد کیا تھا۔ سینیٹر مولا بخش اور دیگر اراکینِ کمیٹی نے سندھ بھر میں سرکردہ ہندو شخصیات سے ملاقاتیں کر کے اپنی رپورٹ مرتب کی جو صدرِ پاکستان کو پیش کر دی گئی ہے ۔ سندھ میں ہندو برادری یوں تو ہر شہر اور ہر علاقے میں موجود ہے لیکن ضلع جیکب آباد اور کشمور سے برادری کے زیادہ ہی لوگ یاترا کیلیے بھارت جاتے ہیں ۔

اسی طرح ضلع تھرپارکر، عمر کوٹ، سانگھڑ کے علاقوں سے بھی لوگ جاتے ہیں جن میں اکثریت ہندو برادری کے ان لوگوں کی ہوتی ہے جنھیں برادری میں اچھوت کہا جاتا ہے ۔ یاترا کرانے کیلیے ٹور آپریٹر کے گروپ قائم ہیں۔ جیکب آباد کے ایک ٹور آپریٹر منوہر چائولا کا کہنا ہے کہ یاترا کیلیے جانے والوں کے بھارت جانے کے انتظامات کرنے اور ویزا دلانے کا کام ٹور آپریٹر کرتے ہیں اور اپنی خدمات کو وہ معاوضہ وصول کرتے ہیں ۔ منوہر کہتے ہیں کہ 3 سے 4 ہزار روپے فی کس معاوضہ لیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں