خدارا ’اللہ اکبر‘ کو دہشت گردی سے مت جوڑیں

مغرب کی جانب سے مسلمانوں میں جو نفرتوں کے بیج بوئے جارہے ہیں ان کی فصل اور اس کے اثرات انتہائی بھیانک ثابت ہوسکتے ہیں۔


مغربی میڈیا کو اپنا متعصبانہ رویہ ترک کرکے برابری کی بنیاد پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کی بجائے ان سے پیار و محبت، امن و رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا۔

گزشتہ روز مانچسٹر کے ایک پر ہجوم شاپنگ مال میں برطانوی پولیس کی جانب سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ڈرامائی مشقیں کی گئیں۔ مشقوں میں 800 کے قریب شہریوں نے رضاکارانہ طور پر حصہ لیا۔ پولیس نے رات گئے ان شہریوں کو شاپنگ مال میں بطور خریدار بھیجا جبکہ اس ڈرامے میں ایک خود کش بمبار بھی تیار کیا گیا جس نے شاپنگ مال میں گھس کر حملہ کرنا تھا۔ یہ ساری مشقیں ڈرامائی انداز میں کی جارہی تھیں اور پولیس کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مشقوں کا مقصد داعش کے حملوں سے بچنا اور ممکنہ حملے کے بعد امدادی کارروائیوں کے لئے پولیس اور رضا کاروں کو تیار کرنا ہے، لیکن جب نصف رات گزرنے کے بعد سیاہ لباس میں ملبوس دہشت گرد شاپنگ مال کی فوڈ کورٹ میں داخل ہوتے ہی 'اللہ اکبر' کا نعرہ بلند کرتا ہے اور دھماکہ ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد فورٹ کورٹ میں دھواں بھر جاتا ہے اور موقع پر پہنچنے کے بعد ایکشن شروع کردیتی ہے، اِس موقع پر نقصان سے بچنے کے لیے تمام رضا کاروں نے آنکھوں اور کانوں کے لئے حفاظتی آلات پہنے ہوئے تھے۔

اب یہاں میں اِس بلاگ کے قارئین کو بتاتا چلوں کہ یہاں یہ مشق ختم نہیں ہوئی بلکہ مشقیں تو کئی روز تک جاری رہیں گی، جن کے مقام اور اوقات کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا گیا تاہم گزشتہ روز مانچسٹر کے شاپنگ مال میں ہونے والی اس ڈرامائی ریہرسل میں باضابطہ طور پر میڈیا کو بھی مدعو کیا گیا تھا جس کے ذریعے براہ راست نشریات کا اہتمام کیا گیا۔ اِس موقع پر ایک اور اہم بات بھی یاد رہے کہ یہ واقعہ لندن کے نو منتخب مئیر پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان جناب صادق خان صاحب کی تقریب حلف برداری کے محض تین دن بعد پیش آیا۔



دہشت گردی سے بچنے کا تو بہرحال تمام ممالک کو پورا پورا حق ہے، بلکہ اگر کوئی ملک اپنے شہریوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے ایسا نہیں کرے تو حیرانی ہونی چاہیے، لیکن اِس دہشت گردی کو جب کسی مذہب سے جوڑ دیا جائے تو یہ قابل افسوس امر بن جاتا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

اللہ اکبر، درحقیقت اللہ سبحان و تعالیٰ کی واحدانیت اور کبریائی کا اعلان ہے، کسی بھی مسلمان کے لئے اللہ کی ذات ہی بڑائی کی حقدار ہے، خودکش حملہ آور کی زبان سے 'اللہ اکبر' کا اعلان کروا کر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور کبریائی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک طرف مغرب صادق خان کو منتخب کرکے پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہاں کا معاشرہ برابری اور بردباری کی علامت ہے لیکن دوسری طرف جعلی خود کش حملہ آور کے اس ڈرامہ کے درپردہ مسلمانوں اور اسلام کی تحقیر اور تذلیل کی جارہی ہے۔

مغربی میڈیا پر آرٹیکلز اور رپورٹس پڑھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ مغرب میں ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف معتصبانہ رویہ پھیلایا جارہا ہے اور مغرب کے اس پروپیگنڈے سے تمام دنیا بالعموم اور مسلمان بالخصوص متاثر ہو رہے ہیں۔ مجھے مغرب کے اس دہرے معیار پر حیرت قطعاً نہیں ہو رہی، کیونکہ مسلمانوں میں سے جو نمائندہ منتخب کیا گیا اس نے اپنی حلف برداری کی تقریب چرچ میں منعقد کرانے کا اعلان کیا۔ ویسے تو ہمیں یہ اعتراز بھی نہیں کہ چرچ میں یہ تقریب کیوں ہوئی، لیکن اعتراض اِس بات پر ضرور ہے کہ چرچ میں یہ تقریب اس لیے منعقد ہوئی کہ دنیا کو یہ پیغام نہ جائے کہ وہ شدت پسند مسلمان ہیں اور صرف اپنے مقامات کو اہمیت دیتے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں مسلمانوں کے لئے امیدوار کا چناؤ یقیناً ایک اہم مرحلہ تھا، اِس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے اور کتنے ناکام یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اِس مرحلے میں بات اس لیے نہیں کروں گا کہ ابھی اصل مقصد مانچسٹر واقع پر بات کرنے کا ہے۔ اگر اِس حوالے سے میری رائے مانگی جائے تو میں یہی کہوں گا کہ یہ دہشت گردی کے خلاف ڈرامائی مشق تربیت کے لئے نہیں بلکہ خاص اس مہم کا حصہ تھی جس میں مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔ خود کش بمبار سے 'اللہ اکبر' کی صدا بلند کرانا اور مقامی اور بین الاقوامی میڈیا پر اس کی براہ راست کوریج کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔ مسلمان توعالمی امن کا علمبردار ہے۔ نہ تو کوئی بھی مسلمان ایسی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا حامی ہے اور نہ ہی انہیں اچھا سمجھتا ہے جن میں معصوم اور بے گناہ انسانوں کی جان جائے۔ لیکن مغرب کی جانب سے بارہا ایسا پروپیگنڈا ناقابل فہم ہے۔

جناب عالی! دہرہ معیار نفرتوں کو فروغ دیتا ہے۔ یہ احساس کمتری کا باعث بنتا ہے جو تشدد پر ابھارتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہے تو پھر حقوق کی جنگ ایک میز، چائے کی چسکیوں اور تسلیوں کے منجن تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ جنگوں کے ایک لامتناہی سلسلے کی بنیاد بنتی ہے، یہ دہرا معیار ہی بغاوت کی بنیاد بنتا ہے، اسی وجہ سے دلوں میں موجود غیض و غضب قہر کی صورت اختیار کرتا ہے۔ مغرب کو جو احباب اپنا ہمدرد مانتے ہیں تو ان سے عرض ہے کہ صاحبان مغرب تو اپنے مفادات کے حصول کے لئے آپ کا ہمدرد اور غم خوار بن رہا ہے، القاعدہ کے نام پر سبکی اُٹھانے کے بعد ایک نیا مہرہ داعش کی صورت میں دریافت کرکے اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے، جی ہاں مغرب کبھی بھی مسلمانوں کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے نہیں لائے گا۔

مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کے لئے کبھی شان رسالت میں گستاخی کی جاتی ہے تو کبھی مقدس مقامات کی بے حرمتی کی صورت میں نفسیاتی تشدد کا حربہ آزمایا جاتا ہے۔ حالیہ واقعے میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرکے جہاں مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے گئے وہاں پوری دنیا کو واضح پیغام دیا گیا کہ مسلمان صرف دہشت گرد ہیں، یہ دہشت گردی اُن کے سوا کوئی اور کرتا ہی نہیں۔ حالانکہ پورے یورپ اور امریکہ کے تعلیمی اداروں، سینما ہالوں، شابنگ مالز اور دیگر عوامی جگہوں پر نسلی جھگڑے رونما ہوتے ہیں۔ سیاہ فام امریکی ہتھیاروں سے لیس درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، اپنی گرل فرینڈ کی بے وفائی کا بدلہ لینے سفید فام شخص سیاہ فاموں کی تقاریب میں اندھا دھند فائرنگ کردیتا ہے، حالانکہ ان میں سے کسی بھی واقع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ امریکا ہی ہے جو عوامی مقامات پر فائرنگ کے واقعات میں سب سے اوپر ہے، پھر جب کسی بھی حملے کے پیچھے مسلمان نہیں نکلتا تو چند لمحے کی خبر نشر ہوتی ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ حملہ کرنے والا ذہنی مریض تھا جس نے دماغی طور پر مفلوج ہو کر یہ انتہائی اقدام اُٹھایا۔ یہی یورپ اور امریکا ہے جہاں خواتین کی عصمت دری کے درجنوں واقعات رونما ہوتے ہیں، چوری کی واردتیں تسلسل سے کی جارہی ہیں مگر ان میں ملوث افراد کو ان کا ذاتی فعل قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کسی مجرم کا نام مسلمانوں سے ملتا جلتا ہو تو مغربی میڈیا بال کی کھال ادھیڑ کر دم لیتا ہے۔ ہم بہت زیادہ دور کیوں جائیں، یہ تو آج ہی کا واقعہ ہے جب ایک فرد نے جرمنی میں ریلوے اسٹیش پر چاقو کے وار سے ایک شخص کو قتل اور باقی تین کو زخمی کردیا، اور چونکہ وہ مسلمان نہیں تھا اس لیے اُس کو ذہنی مریض اور نشے کا عادی قرار دے دیا گیا۔

بہرحال مغرب کی جانب سے مسلمانوں میں جو نفرتوں کے بیج بوئے جارہے ہیں ان کی فصل اور اس کے اثرات انتہائی بھیانک ثابت ہوسکتے ہیں۔ مغربی میڈیا کو اپنا متعصبانہ رویہ ترک کرکے برابری کی بنیاد پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کی بجائے ان سے پیار و محبت، امن و رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا تاکہ دنیا امن کا گہوارہ ثابت ہوسکے۔ نیز اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ گنتی کے چند لوگوں کو بنیاد بنا کر اکثریت کے حوالے سے رائے قائم کرنے کے رویے کو بھی ترک کیا جانا چاہئے۔ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرکے مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے اس پر سرکاری سطح پر معافی مانگی جانی چاہیے اور جو افراد اس گھناؤنے فعل میں ملوث پائے جاتے ہیں انہیں قرار واقعی سزا دے کر پوری دنیا کے لئے مثال قائم کی جائے۔

[poll id="1108"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں