ایک اور محب وطن کو تختہ دار پر لٹکادیا گیا

جن سےوفا کےجرم میں سفید بالوں والےبزرگوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہےوہ کسی سنگدل محبوب کی مانند خاموش نظرآتے ہیں


فرید رزاق May 11, 2016
یہ عاشق لوگ بھی بنگلہ دیش کو ٹوٹے دل کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے اسکی خوشحالی کیلئے سرگرم ہوجاتے ہیں اور حکومت میں آکر بنگلہ دیش کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اچانک دشمن انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیتا ہے۔

یہ بنگال ہی تو ہے جہاں سے تحریک پاکستان کا آغاز ہوتا ہے، پھر مسلم لیگ کی جانب سے پاکستان کے قیام کا مطالبہ بھی بنگال میں انتخابات میں کامیابی کے بعد ہی زور پکڑتا ہے جس کا نتیجہ پاکستان کے وجود کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان کا قیام دشمن کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سازشوں کا جال بنتا ہے۔ بھائی کو بھائی کے خلاف دست و گریباں کراتا ہے، پھر عدم برداشت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے پاک سرزمین پر چھا جاتے ہیں اور ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوتا ہے۔

اِس ساںحہ کے بعد عقل نے دلیل کے ساتھ کہا کہ حالات کا تقاضہ ہے کہ پاکستان وفا نہ کرسکے گا۔ عشق نے کہا کہ اہلِ کوفہ بھی وفا نہ کر پائے تھے۔ عقل نے کہا کہ دشمن تعداد میں اس قدر زیادہ ہیں کہ معلوم نہیں کس بل سے نکل آئے اور ڈس لے۔ عشق نے بدر کی صدا لگائی۔ یہ صدا سب دلیلوں پر غالب آتی ہے اور عاشقوں کا لشکر وطن کی بقاء کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ سامنے صف آراء اپنے بھائی بھی ہوتے ہیں اور بھائیوں کے روپ میں وہ بھیڑیے بھی جنہوں نے بھائیوں کے دلوں میں نفرت کا زہر بھرا ہوتا ہے۔ یہ عاشق وہ تاریخ رقم کرتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے اپنے بھائی کو غدار وطن کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور عقلی دلیل کو مار بھگاتے ہیں۔ ان کے جسموں پر جئے بنگلہ کندہ کیا جاتا ہے لیکن وہ پاکستان زندہ باد کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ ان کے جسم کے اعضاء کو کاٹ کر تقسیم کردیا جاتا ہے لیکن وہ پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ آخر دشمن غداران وطن کے ساتھ کامیاب ٹھہرتا ہے اور اسلام کا مضبوط قلعہ کہلوانے کا دعویدار پاکستان اپنے ان عاشقوں کے انجام کی پرواہ کیے بغیر اپنی شکست تسلیم کرتا ہے اور انہیں دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتا ہے۔

یہاں عشق عقل کے سامنے سرجھکائے کھڑا ہوتا ہے کہ دلیل کی جیت ہوتی ہے۔ معاہدہ طے پاتا ہے کہ کسی بھی انتقامی کارروائی سے گریز کیا جائے گا۔ یہ عاشق لوگ بھی بنگلہ دیش کو ٹوٹے دل کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں اور اس کی خوشحالی کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ عوام ان پر اعتماد کرتی ہے اور وہ حکومت میں آکر بنگلہ دیش کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے لگتے ہیں۔ پھر اچانک دشمن اپنی چال چلتا ہے اور انتقامی کارروائیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتا ہے۔ سفید بالوں والے بزرگوں کو انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے پھانسیاں دی جاتی ہیں اور جن سے وفا کا جرم یہ عاشق کرتے ہیں وہ کسی سنگدل محبوب کی مانند خاموش رہتے ہیں اور لفظ ''آہ'' بھی نہیں نکالتے۔ عبدالقادر ملا، علی احسن مجاہد اور مطیع الرحمان نظامی اپنے عشق کی بدولت یقیناً فلاح پاگئے ہیں، لیکن بحیثیت پاکستانی ہم اس قدر بے بس ہیں کہ ہم پر قربان ہونے والے ان عاشقوں کا نوحہ بھی نہیں پڑھ سکتے۔



دفتر خارجہ نے عوامی دباو کے بعد صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ یہ ایک انسانی ظلم ہے۔پاکستان اگر امن دشمنوں کو عدالتوں کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پھانسی کی سزائیں دیتا ہے تو دنیا بھر میں انسانی حقوق کے ٹھیکیدار پاکستان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ واویلا شروع کردیا جاتا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ یہ خلاف ورزیاں انہیں بنگلہ دیش میں دکھائی نہیں دیتیں کہ جہاں انتقامی کارروائی کے لیے نام نہاد ٹریبونل کا قیام کیا گیا۔ بھارت پاکستان کو ہر مقام پر تذلیل کا نشانہ بنارہا ہے۔ اس مقصد کے لیے شیخ حسینہ کی حکومت پیش پیش ہے۔ کبھی فریڈم فائٹر کے نام سے تمغے بانٹے جاتے ہیں تو کبھی پاکستان کے چاہنے والوں کو پھانسیاں دے کر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ صحیح کا ساتھ دینے والوں کو کوئی رعائیت نہیں ملے گی۔



اِس ظلم کی بنیاد پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بنگلہ دیش سے زیادہ پاکستان کی حکومت نے خاموش رہ کر ظلم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزراء سے لے کر وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب تک سب کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور انہیں اس ظلم کو رکوانے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی، لیکن کسی نے اس بات پر کان نہیں دھرے۔ دنیا بھر کے لوگ اس انسان دشمن عمل پر سراپا احتجاج ہیں۔

https://twitter.com/AQpk/status/730078865675137026



ویسے افسوس تو اس بات پر بھی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار تنظیم OIC نے بھی اس ظلم پر چپ سادھ رکھی ہے۔ اداروں کے ایسے کرداروں کی وجہ سے انتہاپسندی کو تقویت پہنچتی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے اور اپنے مفادات اور خیر خواہوں کی حفاظت کے لیے مضبوطی سے کردار ادا کرے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو خدشہ ہے کہ پاکستان کی تذلیل کا یہ بازار یونہی گرم رہے گا۔

[poll id="1107"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں