پاناما لیکس پر اپوزیشن نے وزیراعظم کے لیے سوالنامہ تیار کرلیا

کیا وزیراعظم نے لندن مے فیئراپارٹمنٹس ڈکلیرکئے اور کیا انہوں نے انکم ٹیکس ادا کیا، سوالنامہ

کیا وزیراعظم نے لندن مے فیئراپارٹمنٹس ڈکلیرکئے اور کیا انہوں نے انکم ٹیکس ادا کیا، سوالنامہ فوٹو؛ فائل

QUETTA:
متحدہ اپوزیشن نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کے لیے 7 سوالوں پر مشتمل سوالنامہ تیار کرلیا جس میں لندن کے فلیٹس سمیت دیگر سوالات شامل ہیں۔



پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن جماعتوں كا اجلاس سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن كے چیمبر میں منعقد ہوا جس میں پیپلز پارٹی سے اعتزاز احسن اور نفیسہ شاہ ، تحریك انصاف سے شاہ محمود قریشی، شیری مزاری اور جہانگیر ترین، جماعت اسلامی سے طارق اللہ ، مسلم لیگ (ق) سے طارق چیمہ، ایم كیوایم سے میاں عتیق اور قومی وطن پارٹی كے آفتاب خان شیر پاؤ نے شركت كی اور اس دوران اپوزیشن جماعتوں نے پاناما لیكس پر وزیراعظم كے نام سوالنامہ تیار كیا۔



اجلاس كے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے بتایا كہ اپوزیشن نے متفقہ طور پر وزیراعظم كے لیے 7 سوال تیار كیے ہیں جن كے حوالے سے وزیراعظم كے لیے ضروری ہے كہ وہ پارلیمنٹ میں آئیں اور ان سوالات كا جواب دیں اور ان كے جواب سے مزید سوالات اٹھیں گے جو ان سے پوچھیں جائیں گے۔ انہوں نے كہا كہ اپوزیشن كے سوالات ہیں كہ وزیراعظم بتائیں كہ لندن میں مے فئیر میں فلیٹس میں ان كا یا ان كے خاندان كا یا كسی رشتہ دار كا مفاد ہے اور اگر ہے تو پارك لین مے فئیر میں 4 فلیٹس كب خریدے گئے اور اس كے لیے رقم كہا سے لی گئی اور اس پر انكم ٹیكس ادا كیا گیا۔



سوالنامے میں کہا گیا ہے کہ كیا وزیراعظم وضاحت كریں گے كہ كونسا بیان درست ہے جس میں ہے كہ لندن میں گارڈین اخبار میں ایك بیان 10اپریل 2000 میں شائع ہوا تھا كہ كلثوم نواز شریف نے دعویٰ كیا ہے كہ یہ فلیٹ بچوں كی تعلیم كے لیے خریدے گئے ہیں۔ دی انڈیپنڈنٹ لندن میں 19اكتوبر 1998میں رپورٹ شائع ہوئی تھی كہ وزیراعظم كے خاندان کے پاس نیلسن انٹر پرائزز لمیٹڈ اور نیسكول لمیٹڈ كے ذریعے پارٹمنٹ كی ملكیت ہے، وزیرداخلہ چوہدری نثار نے ماضی میں كہا تھا كہ وزیراعظم نے اپارٹمنٹ 1993:94میں خریدے تھے، حسن نواز كی بی بی سی میں 1999كو دیئے گئے اور 2016 میں حسین نواز كا اختلافی بیان پر كیا كہتے ہیں۔




سوالنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اور ان كے خاندان نے 1985 سے 2016 كے دوران كتنے نامی و بے نامی اثاثے خریدے اور ان كی انكم كا ذریعہ كیا تھا اور اس مدت میں وزیراعظم اور ان كے اہل خانہ نے كتنا انكم ٹیكس ادا كیا اس کی تفصیلات بتائی جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف اپنے اور اہل خانہ كے نام آف شور كمپنیوں كی تفصیلات بتائیں اور ان كی مالیت كتنی ہے، آف شور كمپنیوں كی مالیت اور سرمایہ كاری كی مكمل تفصیلات بھی بتائی جائیں۔





اعتزاز احسن نے كہا كہ ہم نے وزیراعظم كے لیے آسانی پید ا كر دی ہے، ہم چاہتے ہیں كہ وزیراعظم اپنے آپ كو كمیشن كے سامنے اور عوام كے سامنے پیش كردیں، حكومت كے ٹی او آرز پر انحصار نہیں كریں گے، وزیراعظم خود پر اور پانامہ لیكس پر دھیان دیں۔ ایك سوال پر انہوں نے كہا كہ جب آصف زرداری آگے تھے تو کہا جاتا تھا کہ بلاول كیوں نہیں بول رہا اب بلاول بول رہا ہے تو كہا جا رہا ہے كہ زرداری كیوں خاموش ہیں، آج بلاول جو بول رہے ہیں وہی پارٹی كی آواز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن كے ٹی اوآرز یكساں ہیں اور سب كے لیے ہیں، وزیراعظم سے آغاز كرنے كے لیے اس لیے كہہ رہے ہیں كیونكہ وزیراعظم نے خود كو احتساب كے لیے پیش كیا ہے، وزیراعظم او ر وزرا جلسوں میں كہہ رہے ہیں كہ دیكھیں كیسے وزیراعظم نے خود كو احتساب كے لیے پیش كر دیا ہے اور جب ہم احتساب كے لیے كہتے ہیں تو پھر ان كو قبول نہیں ہے۔



سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ ہم وزیراعظم كو مو قع دینا چاہتے ہیں كہ وہ پارلیمنٹ كے سامنے اور جوڈیشل كمیشن كے سامنے سرخرو ہوں۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقات سے متعلق ایك سوال پر اعتزاز احسن نے كہا كہ اپوزیشن پارلیمنٹ اور جمہوریت كی مضبوطی پر یقین ركھتی ہے اور ایسی باتوں میں دلچسپی نہیں ركھتی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ درست سوال ہے كہ وزیراعظم كس طر ح اربوں ڈالر وطن واپس لائیں گے جو اپنے بچوں كے سرمائے كو واپس نہیں لاسكتے اس سے پاكستان كی خوشحالی كی كیا توقع ہوگی، جو میٹرو، نندی پور جیسے بڑے منصوبے بناتے ہیں ان میں ٹانكا بھی بڑا لگتا ہے۔



اس موقع پر تحریک انصاف كے رہنما شاہ محمود قریشی نے كہا كہ اس مطالبے كے پیش نظر وزیراعظم سے جو درخواست كی گئی ہے ان كی ذمہ داری ہے كہ وہ ایوان كو اعتماد میں لیں، قوم كو آگاہ كریں كہ ان كی پوزیشن كیا ہے جب کہ ہم جوڈیشل كمیشن كے اپنے مطالبے پر قائم ہیں۔ انہوں نے كہا كہ حكومتی رابطہ خوش آئند ہے تاہم ہمیں وزیراعظم كی جانب سے اپوزیشن كے لكھے گئے خط كے جواب كا انتظار ہے، وزیراعظم كے جواب آنے كے بعد آئندہ كا لائحہ عمل مرتب كیا جائے گا۔

Load Next Story