انتہا پسندی بے قابو ہوگئی بھارت بڑا ہونے کے ناطے پاکستان کے معاملے میں لچک دکھائے پرویز مشرف
پرانے جھگڑے،مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے کنٹرول لائن کوغیرفوجی بنادیاجائے،نئی دہلی میں لیڈرشپ کانفرنس سے خطاب۔
پاکستان کے سابق صدرجنرل پرویزمشرف نے کہاہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی بے قابو ہوچکی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کوحل کرنے کے لیے دونوں ہی طرف سے''اچھی نیت''کی ضرورت ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں،باہمی اعتماد مکمل طور پر ختم ہو چکاہے اورہم دشمن بن گئے ہیں،ہمیں مستقبل کیلیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کاراستہ اپناناہوگا۔آگے بڑھنے کے لیے دونوں طرف سے اچھی نیت اورمضبوط ارادے کے ساتھ کیے گیے معاہدوں کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں اوربیوروکریسی کا عمل دخل نہیں ہوناچاہیے۔وہ لیڈر شپ کانفرنس سے خطاب کررہے تھے،سردجنگ کے زمانے میں را اور کے جی بی نے بلوچستان میں ہمارے لیے مسائل پیداکیے۔اب ان کے ذکرسے تلخی پیدا ہوگی۔مشرف نے کہاکہ پاکستان اوربھارت کئی شدت پسندتنظیموں کی سرگرمیوں سے پریشان ہیں اوران سے لڑنے کے معاملے پردونوں ممالک کوالگ الگ نہیں سوچناچاہیے۔
یہ ایک مشترکہ لڑائی ہے۔بھارت کے بارے میں جنرل مشرف نے کہاکہ پاکستان کی طرح یہاں بھی شدت پسندوں کے درمیان تعلق بڑھ رہاہے۔بھارتی مسلمان نوجوان شدت پسندی کی جانب مائل ہورہے ہیں یہ بات نہ بھارت کے لیے ٹھیک ہے اور نہ پاکستان کے لیے۔انھوں نے کہاکہ بھارت اورپاکستان اگر اپنے تعلقات کو بہتربناناچاہتے ہیں توپرانے جھگڑے بھلانے ہوں گے اورجھگڑے کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیرکا معقول حل نکالنا ہوگا اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب کنٹرول لائن کوغیرفوجی بنادیاجائے،زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جائے اورکنٹرول لائن کی اہمیت کو ختم کیاجائے تاکہ لوگوں اورسامان کے نقل وحمل میں آسانی ہو۔انھوں نے کہاکہ یہ سب آج بھی ممکن ہے اگرنیت ٹھیک ہو۔مشرف نے کہاکہ ہم سیاچن اورسرکریک کاحل چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ ہم ایٹمی صلاحیت والے ملک ضرورہیں لیکن ہم ٹریگربٹن پرہاتھ رکھ کرنہیں بیٹھے ہیں۔انھوں نے کہا کہ تنازعات پرسیاست بندہونی چاہیے۔اسامہ بن لادن کے بارے میں ایک صحافی کے سوال کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کوتلاش کرنے میں پاکستان ناکام رہایااس نے قصداًان کوچھپارکھاتھا؟پرویزمشرف نے کہاکہ اس معاملے میں پاکستان کے خفیہ نظام سے لاپرواہی ہوئی ہے۔انھوں نے مزیدکہاکہ دنیاکی سب سے مضبوط امریکی خفیہ نظام کوورلڈٹریڈسینٹرپرحملے کاپتہ نہیں چل سکا۔جس طرح گیارہ ستمبرکے حملے میں سی آئی اے سے غلطی ہوئی شاید ویسی ہی غلطی اسامہ بن لادن کے معاملے میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں سے ہوئی ہو۔افغانستان کے مسئلے کے حل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ2014کے بعددومناظرسامنے آسکتے ہیں ایک 1989کا،جب افغان سرداروں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی اور دوسرا1996کا،جب طالبان برسراقتدارآگئے تھے،اگر امریکاافغانستان میں کچھ فوج برقراررکھے توحالات کوقابومیں کیاجاسکتاہے۔کانفرنس کی صدارت کرنے والے کرن تھاپر کی جانب سے ایک ڈکٹیٹر کہہ کر بلائے جانے پرانھوں نے کہا کہ فوجی وردی پہنے سے کوئی ڈکٹیٹرنہیں بن جاتااور نہ ہی میں ڈکٹیٹرتھا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کوحل کرنے کے لیے دونوں ہی طرف سے''اچھی نیت''کی ضرورت ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں،باہمی اعتماد مکمل طور پر ختم ہو چکاہے اورہم دشمن بن گئے ہیں،ہمیں مستقبل کیلیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کاراستہ اپناناہوگا۔آگے بڑھنے کے لیے دونوں طرف سے اچھی نیت اورمضبوط ارادے کے ساتھ کیے گیے معاہدوں کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں اوربیوروکریسی کا عمل دخل نہیں ہوناچاہیے۔وہ لیڈر شپ کانفرنس سے خطاب کررہے تھے،سردجنگ کے زمانے میں را اور کے جی بی نے بلوچستان میں ہمارے لیے مسائل پیداکیے۔اب ان کے ذکرسے تلخی پیدا ہوگی۔مشرف نے کہاکہ پاکستان اوربھارت کئی شدت پسندتنظیموں کی سرگرمیوں سے پریشان ہیں اوران سے لڑنے کے معاملے پردونوں ممالک کوالگ الگ نہیں سوچناچاہیے۔
یہ ایک مشترکہ لڑائی ہے۔بھارت کے بارے میں جنرل مشرف نے کہاکہ پاکستان کی طرح یہاں بھی شدت پسندوں کے درمیان تعلق بڑھ رہاہے۔بھارتی مسلمان نوجوان شدت پسندی کی جانب مائل ہورہے ہیں یہ بات نہ بھارت کے لیے ٹھیک ہے اور نہ پاکستان کے لیے۔انھوں نے کہاکہ بھارت اورپاکستان اگر اپنے تعلقات کو بہتربناناچاہتے ہیں توپرانے جھگڑے بھلانے ہوں گے اورجھگڑے کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیرکا معقول حل نکالنا ہوگا اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب کنٹرول لائن کوغیرفوجی بنادیاجائے،زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جائے اورکنٹرول لائن کی اہمیت کو ختم کیاجائے تاکہ لوگوں اورسامان کے نقل وحمل میں آسانی ہو۔انھوں نے کہاکہ یہ سب آج بھی ممکن ہے اگرنیت ٹھیک ہو۔مشرف نے کہاکہ ہم سیاچن اورسرکریک کاحل چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ ہم ایٹمی صلاحیت والے ملک ضرورہیں لیکن ہم ٹریگربٹن پرہاتھ رکھ کرنہیں بیٹھے ہیں۔انھوں نے کہا کہ تنازعات پرسیاست بندہونی چاہیے۔اسامہ بن لادن کے بارے میں ایک صحافی کے سوال کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کوتلاش کرنے میں پاکستان ناکام رہایااس نے قصداًان کوچھپارکھاتھا؟پرویزمشرف نے کہاکہ اس معاملے میں پاکستان کے خفیہ نظام سے لاپرواہی ہوئی ہے۔انھوں نے مزیدکہاکہ دنیاکی سب سے مضبوط امریکی خفیہ نظام کوورلڈٹریڈسینٹرپرحملے کاپتہ نہیں چل سکا۔جس طرح گیارہ ستمبرکے حملے میں سی آئی اے سے غلطی ہوئی شاید ویسی ہی غلطی اسامہ بن لادن کے معاملے میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں سے ہوئی ہو۔افغانستان کے مسئلے کے حل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ2014کے بعددومناظرسامنے آسکتے ہیں ایک 1989کا،جب افغان سرداروں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی اور دوسرا1996کا،جب طالبان برسراقتدارآگئے تھے،اگر امریکاافغانستان میں کچھ فوج برقراررکھے توحالات کوقابومیں کیاجاسکتاہے۔کانفرنس کی صدارت کرنے والے کرن تھاپر کی جانب سے ایک ڈکٹیٹر کہہ کر بلائے جانے پرانھوں نے کہا کہ فوجی وردی پہنے سے کوئی ڈکٹیٹرنہیں بن جاتااور نہ ہی میں ڈکٹیٹرتھا۔