شہدائے 12 مئی کی یاد میں
11 و 12 مئی 2007ء کی درمیانی شب کراچی میں ایئرپورٹ جانے والے تمام راستے کنٹینر لگا کر بند کر دیے گئے
9 مارچ 2007ء کے دن سے جب سے اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کو صدر پرویز مشرف نے برطرف کیا تھا ملک بھر میں ججز بحالی تحریک شروع ہو گئی۔ اس تحریک میں اہم ترین کردار وکلا نے ادا کیا تھا، جب کہ سول سوسائٹی کے لوگ سیاسی کارکن و عام محنت کش بھی اس تحریک میں بھرپور کردار ادا کر رہے تھے، برطرف چیف جسٹس شہر شہر جا کر وکلا برادری کے ساتھ ساتھ عام لوگوں سے بھی خطاب کرتے۔
برطرف چیف جسٹس جس شہر جاتے دو چار گھنٹوں کا سفر 10 سے12 گھنٹوں میں طے کر پاتے کیونکہ عوام کا ایک جم غفیر ان کے ساتھ ہوتا یا کئی کئی گھنٹے ان کی آمد سے قبل ہی ان کا منتظر ہوتا۔ وہ سب لوگ برطرف چیف جسٹس کی عقیدت کے باعث نہیں آتے تھے ان لوگوں میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی جوکہ برطرف چیف جسٹس کے قافلے میں اس لیے آتے کہ وہ اس قافلے میں شریک ہو کر آمر صدر پرویز مشرف سے اپنی بیزاری کا اظہار کر سکیں جب کہ ان لوگوں کو یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید ان کو بروقت انصاف مل سکے گا۔
یہی وجہ تھی کہ جب 5 مئی کو برطرف چیف جسٹس اسلام آباد سے لاہور تشریف لائے تو چارگھنٹے کا سفر عام لوگوں کے ہجوم کے باعث 26 گھنٹے میں طے ہوا یعنی چیف جسٹس کا قافلہ 5 مئی 2007ء کی بجائے 6 مئی 2007ء کو اپنی منزل مقصود پر پہنچا اگر ان کا قافلہ بائی پاس کی بجائے گوجرانوالہ شہر میں سے آتا تو مزید تاخیرکا شکار ہوتا چنانچہ ان کی لاہور آمد کے موقعے پر ہی یہ اعلان سامنے آ گیا کہ برطرف چیف جسٹس 12 مئی 2007ء کو کراچی تشریف لائیں گے۔ ان حالات میں مئی 2007ء کو اخبارات کے ذریعے سے یہ خبر بھی سامنے آئی کہ کراچی کی نمایندہ سیاسی جماعت MQM بھی 12 مئی 2007ء کو کراچی میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کرے گی، چنانچہ اگلے تین یوم میں شہر کراچی میں تصادم کی مکمل کیفیت بن چکی تھی۔
11 و 12 مئی 2007ء کی درمیانی شب کراچی میں ایئرپورٹ جانے والے تمام راستے کنٹینر لگا کر بند کر دیے گئے۔ دوسری جانب 12 مئی 2007ء کو ٹھیک دس بجے برطرف چیف جسٹس اپنی رہائش گاہ سے ایئرپورٹ جانے کے لیے روانہ ہوئے 11 بجے دن ان کا طیارہ کراچی جانے کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ سے پرواز کر گیا جب کہ ٹھیک دس بجے دن ان کے استقبال کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں سے قافلے بھی کراچی ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہونا شروع ہو چکے تھے۔ یہ قافلے تھے پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ دیگر سماجی تنظیموں کے جب کہ یہی وقت تھا جب MQM کے قافلے بھی اپنے جلسہ عام میں شرکت کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں سے رواں دواں ہو چکے تھے۔
اس موقعے پر ضرورت اس امر کی تھی کہ دونوں جانب سے صبروتحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا جاتا مگر ایسا نہ ہو سکا، تصادم کی فضا پہلے سے موجود تھی ایک چنگاری کی ضرورت تھی سو وہ چنگاری کسی شرپسند نے بڑی خوبصورتی سے پھینک دی۔ یہ 12 بجے کا وقت تھا اور اسی وقت برطرف چیف جسٹس کا طیارہ کراچی کی فضاؤں میں داخل ہوا اور لینڈ کر گیا برطرف چیف جسٹس جب طیارے سے باہر آ رہے تھے تو کراچی پورا گویا جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں تھا، رقص ابلیس چار بجے تک جاری رہا اور چار بجے کے بعد کراچی کے نوجوانوں کی لاشوں کی گنتی شروع ہوئی۔
تو یہ لاشیں تھیں53 شہید ہونے والوں میں مزدور تھے، سیاسی کارکن تھے، عام شہری تھے ہاں ایک نوجوان ایسا بھی تھا جوکہ بیوہ ماں کی امیدوں کا واحد سہارا تھا اور ایک نوجوان ان شہدا میں ایسا بھی تھا جس کا ذہنی توازن درست نہ تھا یہ نوجوان ایک معروف دانشورکا بیٹا تھا یہ نوجوان تو یہ ادراک بھی رکھنے سے قاصر تھا کہ وہ جس علاقے میں گھوم رہا ہے، اس علاقے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو فقط اس کی زبان کے باعث مار دیا جائے گا مگر صد آفرین ہے اس دانشور پر کہ وہ دانشور اپنی تحریروں میں آج بھی تمام زبانوں کے بولنے والوں کو پیارو محبت و یگانگت کا درس دیتا ہے۔
میرا سلام ہے اس دانشور کو گو کہ شہید ہونے والوں کا تعلق پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی و MQM سے تھا مگر شام تک ہر سیاسی جماعت اپنے شہید ہونے والے کارکنان کی تعداد زیادہ سے زیادہ بتا کر خود کو مظلوم ثابت کر رہی تھی۔ MQM کے جلسے میں ایک صاحب فرما رہے تھے کہ آج ہماری تحریک کے لیے خون کا نذرانہ دینے والوں میں پنجابیوں، پختون، کشمیریوں ودیگر زبانیں بولنے والوں کا خون بھی شامل ہو چکا ہے جو قابل فخر ہے جب کہ ایک نامور سیاستدان فرما رہے تھے کہ ہم تو باچا خان کے فلسفہ امن و محبت پر عمل کرنے والے لوگ ہیں جب کہ کراچی کا ایک علاقہ ایسا بھی تھا جہاں سے بیک وقت 25 نوجوانوں کے جنازے اٹھے تھے۔
شام کو برطرف چیف جسٹس واپس اسلام آباد تشریف لے گئے اور اسلام آباد میں یہ کیفیت تھی کہ آمر صدر پرویز مشرف ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے، پنڈال میں ہر جانب ڈھول کی تھاپ پر رقص ہو رہے تھے، پنجاب بھر سے لوگ آئے ہوئے تھے بلکہ ان لوگوں کو یہ بھی کہا گیا تھا کہ A/C گاڑیوں میں جانا ہے دو وقت کھانا ملے گا اور اسلام آباد میں بری امام سرکارؒ و پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کے مزارات کی زیارت کا بھی اہتمام ہے، بس ذرا شام کے وقت صدر پرویز مشرف کے جلسہ عام میں جانا ہو گا پھر جب آمر صدر پرویز مشرف کا خطاب شروع ہوا ان کے پہلے الفاظ یہ تھے یہ ہے عوام کی طاقت اور ایک طاقت کراچی کے عوام نے دکھائی ہے یہ الفاظ گویا نمک پاشی تھے کراچی کے 53 شہدا کے زخموں پر۔
اب ان حالات میں ان 53 شہدا کے لیے انصاف کی امید رکھنا عبث ہی تو تھا جب کہ برطرف چیف جسٹس 20 جولائی کو 2007ء کو بحال ہو گئے اور 3 نومبر 2007ء کو برطرف کر دیے گئے اور 2009ء میں نہ چاہتے ہوئے بھی عوامی دباؤ کے باعث اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا مگر چیف جسٹس نے کوئی ایک بھی کوشش نہ کی کہ 12 مئی 2007ء کے کراچی کے 53 شہدا کو انصاف مل سکے تاوقت یہ کہ وہ اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو گئے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ان شہدا کے لیے اتنا بھی نہ کیا کہ ایک انکوائری کمیشن ہی بنا دیا جاتا تا کہ کم سے کم یہ تعین تو ہو جاتا کہ اصل قاتل کون تھے؟ جب کہ موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 12 مئی 2007ء کو میڈیا کو جدہ، سعودی عرب سے بیان جاری کیا تھا کہ کراچی میں ہونے والی خونریزی پر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے مگر 3 برس ہو گئے جب سے وہ حکومت میں ہیں مگر 12 مئی 2007ء کو شہید ہونے والوں کو شاید وہ فراموش کر چکے ہیں ۔
آج 12 مئی 2016ء ہے گویا شہدا 12 مئی کی 9 ویں برسی ہے اور کیفیت یہ ہے کہ اب تو یہ امید بھی ختم ہو چکی ہے کہ شہدا 12 مئی کو انصاف مل پائے گا۔ بہرکیف آج ہم شہدا 12 مئی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اس عہد کے ساتھ کہ حصول انصاف کے لیے ایک اور پرامن تحریک منظم کی جائے گی۔