اصغر خان کیس صدر کا عہدہ سیاسی ہے سپریم کورٹ ریمارکس حذف کرے وفاق

سیاست میںحصہ لیناصدرکاآئینی حق ہے،فیصلے میںان سوالات کاجواب دیاگیاجودرخواست گزارنے نہیںاٹھائے تھے،موقف.


Numainda Express November 18, 2012
کورٹ فیس نہ لگانے کی وجہ سے رجسٹرارنے درخواست واپس کردی،کل دوبارہ جمع کرادی جائیگی،ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد فوٹو : فائل

وفاقی حکومت نے اصغر خان کیس کے فیصلے میں صدر مملکت کے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی شقوں پر نظر ثانی کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

وفاقی حکومت نے اصغر خان کیس کے فیصلے کیخلاف گزشتہ روز نظر ثانی کی درخواست دائر کی جس میںکہا گیا ہے کہ صدر پارلیمنٹ کا حصہ اور ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں اس لیے سیاست میں حصہ لینے کاآئینی اور قانونی حق رکھتے ہیں اور ان پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی کا حکم غیر آئینی ہے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان سوالات کا جواب دیا ہے جو درخواست گزار نے نہیں اٹھائے تھے۔ صدر مملکت پر سیاسی سرگرمیوں میں پابندی لگانا عدالت کے سامنے درخواست گزارکی استدعا نہیں تھی اور نہ ہی یہ قانونی سوال بنتا ہے۔درخواست میںکہا گیا ہے کہ عدالت اپنے فیصلے میں اکیڈمک معاملات میںگئی ہے،صدر کا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا یا نہ لیناخالص اکیڈمک بحث ہے اور عدالت کواکیڈمک بحث میں نہیں پڑنا چا ہیے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کے فیصلے میں ایوان صدر میں ہر قسم کے سیاسی سیل کو بندکرنے اور صدرکو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کا حکم دیا تھا،عدالت نے قرار دیا تھا کہ صدر وفاق کے اتحادکی علامت اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں اس لیے اس حیثیت میں وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے،صدرکی سیاست میں مداخلت سے ریاست کی یکجہتی متاثر ہوگی۔ دوسری طرف رجسٹرار آفس نے نظر ثانی درخواست فیس جمع نہ کرانے کی وجہ سے واپس کر دی ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علیزئی نے ایکسپریس کو بتایا کہ بینک بند ہونے کی وجہ سے 10 ہزار روپے کی مطلوبہ کورٹ فیس جمع نہیںکی جا سکی،انھوں نے فیس کیش کی صورت میں جمع کرانے کی درخواست کی لیکن آفس نے یہ درخواست مستردکر دی اورہدایت کی کہ فیس مروجہ طریقہ کارکے مطابق جمع کی جائے۔دل محمد علیزئی نے بتایا نظر ثانی درخواست پیرکو دوبارہ جمع کرائی جائے گی۔

انھوں نے کہا درخواست جمع کرنے کی تاریخ زائد المیعاد نہیں ہوئی ہے اور اب بھی دو دن با قی ہیں ۔بی بی سی کے مطابق ڈپٹی اٹارنی جنرل کی جانب سے دائرکی جانے والی سولہ صفحات پر مشتمل درخواست میںصدرکے عہدے سے متعلق ریمارکس کے حوالے سے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی گئی۔ درخواست میںکہاگیا ہے کہ عدالت کو صدر سے متعلق ایسا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں اور وہ اصغرخان کیس میں صدر سے متعلق آبزرویشن واپس لے۔درخواست کے مطابق اٹھارہویں ترمیم کے بعد صدرکے پاس ایگزیکٹو اختیارات نہیں رہے اور صدر سے متعلق آبزرویشن میں آئین کے آرٹیکل207 کو نظراندازکیاگیا ہے۔درخواست میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ اصغرخان کیس 1990کے انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں تھا اور اس میں صدرکے عہدے کے بارے میںکوئی سوال نہیں اٹھایاگیاتھا اس لیے عدالت کو ان معاملات پر خیالات ظاہرنہیںکرنے چاہئیں تھے۔واضح رہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ صدر وفاق کی علامت ہے اور وہ کسی گروہ یا جماعت کی حمایت نہیں کرسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں