قانون سازوں کی قانون بازیاں

کرپشن کی مثال مردہ چوہے جیسی ہے۔ ایک راہ گیر بھی پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے

مشہور زمانہ ناول ''گاڈ فادر'' میں کہانی شروع ہونے سے پہلے پورے صفحے کے درمیان صرف ایک جملہ درج ہوتا تھا ''بے تحاشا دولت جائز ذریعے سے نہیں کمائی جا سکتی'' یعنی اگر کسی کے پاس بے تحاشا دولت ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عزت مآب کرپشن مآب ہیں اور یہ بات ہے کہ کوئی مائی کا لال ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ جب مجرم طاقتور، گواہ منحرف اور ثبوت غائب ہوتا ہے۔

کرپشن کی مثال مردہ چوہے جیسی ہے۔ ایک راہ گیر بھی پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ اس گھر میں مردہ چوہا ہے۔ کیونکہ بدبو چھپائی نہ قید کی جا سکتی ہے۔ پانامہ کی لا فرم موساک فونسیکا نے اچانک ایک کروڑ 5 لاکھ دستاویزات شایع کر کے وہ رولا ڈالا ہے کہ جس کے ریلے میں چاند چہرہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی کرپشن کی گٹر لائنیں برسٹ ہو گئی ہیں۔ یہ فنکار ایک سیدھے سے سوال کا سادا سا جواب نہیں دیتے، آئیں، بائیں، شائیں، کرتے ہیں مثلاً

سوال:۔ سر! آپ کے پاس یہ دولت کے انبار، جائیدادوں کے سلسلے اور اثاثوں کے ذخیرے کہاں سے آئے؟
جواب:۔ ان سے پہلے بھی ہمارا تین مرتبہ احتساب ہو چکا ہے۔ ہمارے حریف سیاستدان اور حاسد حکمرانوں نے ہم کو کرپشن کے شیرے میں تر بتر ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن ہم پوتر نکلے۔ صرف اس لیے کہ ہم پوتر تھے جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہم آج بھی پوتر ہیں۔

سوال:۔ سر! اگر یہ سچ ہے تو آپ کو آف شور کمپنیاں قائم کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی جن کا کاروبار ہی منی لانڈرنگ ہے۔
جواب: یہ میرا نہیں میرے بیٹوں کا کاروبار ہے دونوں کو بچپن سے ہی آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا شوق تھا۔

سوال:۔ سر! آپ کی صاحبزادی بھی...!
جواب:۔ وہ بھی بالکل اپنے بھائیوں پر گئی ہے۔ ویسے میں ایک مرتبہ پھر قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر میرے خلاف کرپشن ثابت ہوئی تو سیاست پر لات مار دوں گا (دولت پر نہیں) اور گھر (بڑے گھر نہیں) چلا جاؤں گا۔

حقیت یہ ہے کہ آف شور کمپنیوں کا آئیڈیا پاکستان کی ٹریفک پولیس کی دریافت ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ٹریفک پولیس کی آنکھوں میں بھی شرم و حیا ہوتی تھی۔ ایک آنکھ میں شرم دوسری آنکھ میں حیا، رشوت کی کمائی کو ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا۔ اشارہ کر دیتا تھا کہ سامنے پان کی دکان میں جمع کرا دے۔ جو اس کی آف شور کمپنی ہوتی تھی جس کا مالک اس کا بیٹا تھا جو سارا دن (پان پر) چونا لگاتا تھا۔ ٹریفک کانسٹیبل شام کو پان کی دکان سے سارا دن کی رشوت کی کمائی (منی لانڈرنگ کے بعد) دھلی دھلائی وصول کر لیتا، پکڑے جانے کا خوف نہ نوکری جانے کا خطرہ۔ اگر اینٹی کرپشن والے پکڑ بھی لیتے تو ثابت کیسے کرتے کہ یہ وہی نوٹ ہیں جو رشوت میں دیے گئے تھے کیا ان کے نمبر نوٹ کیے گئے تھے؟ نشان لگایا گیا تھا؟ اور یہ کارروائی مجسٹریٹ کے سامنے دو گواہوں کی موجودگی میں انجام دی گئی تھی؟


علاوہ ازیں کیا یہ ممکن ہے کہ نشان زدہ نوٹ سارا دن پان کی دکان میں ٹک کر بیٹھے رہتے؟ باقی بچا پان والا۔ بھلا وہ اپنے باپ ٹریفک کانسٹیبل کے خلاف گواہی کیوں دے گا؟ حالات حاضرہ کے مطابق پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ باپ بیٹا، سیاستدان، بیوروکریٹ، میئر و مولانا، عزت مآب و ذلت مآب سب کے سب کرپشن کے حمام میں قابل اعتراض حالت میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں مروج چند ناقابل یقین لیکن قابل قبول کرپشن کی مثالیں ملاحظہ کیجیے:

سرکاری رشوت: ترقیاتی فنڈز کے لفافے میں رکھ کر ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے بطور رشوت دیے جاتے ہیں جب کہ ترقیاتی کام عملاً بلدیاتی ادارے انجام دیتے ہیں۔ یہ ''کرپشن جاریہ'' مرد حق کے زمانے سے جاری ہے۔

قانونی کرپشن: ارکان اسمبلی جب چاہیں جتنی چاہیں اپنی تنخواہیں پلس مراعات پچھلی تاریخوں میں بڑھا سکتے ہیں، بڑھاتے ہیں، بقایا جات وصول کرتے ہیں۔
صوابدیدی کرپشن: ارکان اسمبلی صوابدیدی اختیارات سے کام لے کر صوابدیدی فنڈز مستحقین میں تقسیم فرماتے ہیں کیونکہ اس کارخیر کارکن اسمبلی کو صوابدیدی حق حاصل ہے، اس لیے پوچھ گچھ، حساب کتاب سے اس کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔
خفیہ فنڈز: جب یہ فنڈ ہی خفیہ ہے تو اس کی تقسیم بھی خفیہ رہے تو مناسب ہے۔
اختیاری کرپشن: کمیشن، کک بیکس، بھتہ وغیرہ۔

دوبارہ پانامہ لیکس کی طرف آتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ دراصل اشرافیائی جمہوریت میں شخصیات کی اور عوامی جمہوریت قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان پر جاگیردارانہ نظام مسلط ہے جو کرپشن کی مادر ملکہ ہوتا ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں جاگیرداروں کی اکثریت ہے (آبادی کے دو فیصد ہونے کے باوجود) اندازہ کریں کس لیول کے فنکار ہوں گے۔ یہ قانون ساز بھی ہیں اور قانون باز بھی اس وقت ملک کو کرپشن کے خاتمے کے لیے ''کرپشن کی سزا پھانسی'' کی ضرورت ہے (چین کی طرح)۔ سوال یہ ہے ایسی قانون سازی حاضر ارکان اسمبلی کر لیں گے؟ اگر کر لیے تو بچے گا کون؟

ملک کے حاضر وزیر اعظم جو معہ اہل و عیال کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں، فرماتے ہیں ''ہمارے خلاف ماضی میں بھی تین مرتبہ چھان بین ہو چکی ہے لیکن بدعنوانی تو دور کی بات ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ کر سکے۔''

پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف فرماتے ہیں ''دائمی امن کے لیے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔ آنے والی نسلوں کو ایک پرامن ملک دینے کے لیے فوج احتساب کی ہر بامقصد کوشش کی بھرپور معاونت کرے گی۔''

سیاسی پنڈت اس بات پر متفق ہیں کہ وزیر اعظم کو تحقیقات مکمل ہونے تک مستعفی ہو جانا چاہیے۔ وزیر اعظم جواب دیتے ہیں ''عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں، آپ کے کہنے پر گھر چلا جاؤں؟ یہ منہ اور مسور کی دال''۔
پاکستان پاکستان جیوے پاکستان
Load Next Story