روایات کے نام پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک

آج ہم جانتے ہیں کہ زمانہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے

ayazbabar@gmail.com

لاہور:
پاکستانی خواتین کے لیے ایک اچھا شگون یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب کی اسمبلیوں نے گھریلو تشدد کے خلاف ان کے تحفظ کے لیے قوانین منظور کیے ہیں۔البتہ اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سندھ اسمبلی نے2013ء میں یہ قانون منظور کیا تھا مگر اب تک اسے نافذ نہیں کیا۔ اس ایکٹ کے تحت جو کمیشن بنایا جانا تھا، اس کا قیام ابھی تک عمل میں نہیں آیا اور نہ سندھ حکومت کی طرف سے پروٹیکشن افسر مقرر کیے گئے ہیں۔ پنجاب میں جب مذہبی رہنماؤں نے اس قانون پر اعتراض کیا اور اسے مذہبی اور ثقافتی روایات کے خلاف قرار دیا تو اس کا نوٹیفکیشن روک لیا گیا۔

حقوقِ انسانی کی تنظیمیں بجا طور پر ناراض ہیں کہ صوبائی حکومتوں نے اپنی ہی اسمبلیوں کے منظور کردہ قوانین کو نافذ نہیں کیا۔ مگر اس صورتحال کا ایک مثبت پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں اسمبلیوں نے ارکان کی ایک بڑی اکثریت کی حمایت کے ساتھ یہ قوانین منظور کیے۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ اس سے واضح طور پر یہ اشارہ ملتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کی سوچ میں یہ تبدیلی آ رہی ہے کہ خواتین کے حقوق بھی انسانی حقوق ہیں۔ یہ تبدیلی کیوں کر ممکن ہوئی؟

آج ہم جانتے ہیں کہ زمانہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ بنی نوع انسان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے عرصے میں ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اتنی ترقی کی ہے کہ اس سے پہلے کے پانچ ہزار برس میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ بالخصوص انٹرنیٹ، آپٹیک فائبر، سیٹلائٹس اور ایوی ایشن ٹیکنالوجی کی ایجادات نے دور دراز براعظموں اور ترقی یافتہ و ترقی پذیر ملکوں کے درمیان مواصلاتی رابطوں کو آسان اور کم قیمت بنا دیا ہے۔ آج ہم گوگل کے بعد کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، جہاں علم اور اطلاعات تک ہر انسان کی رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی لگے یا نا لگے مگر سچ یہ ہے کہ عالمگیریت نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گاؤں بنا دیا ہے۔

اب جو اہم نکتہ سمجھنے کا ہے، وہ یہ ہے کہ مختلف معاشروں کی ثقافت ایک ہی جگہ اور ایک ہی عہد میں آ گئی ہے۔ انسانی معاشرہ لازمی طور پر عضویاتی (organic) ہوتا ہے۔ وہ سائنس و ٹیکنالوجی اور مواصلاتی طریقوں میں ترقی کے ساتھ بڑھتا اور ارتقائی منازل طے کرتا ہے، قوانین اور یہ سارا عمل رفتہ رفتہ پیداواری اور سماجی رشتوں کو تبدیل کرتا ہے۔ 21 ویں صدی کی تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں پرانی مذہبی اور ثقافتی روایات کو بچانے کی کوششوں کا نتیجہ، آخری سانس لیتے ہوئے نظام اور نئی سماجی اور ثقافتی اقدار کے ارتقاء کے درمیان تناؤ کی صورت میں سامنے آ رہا ہے، مگر اب بھی ثقافت اور روایت کے نام پر، خواتین کے سیاسی، معاشی، سماجی اور شہری حقوق سے انکار کیا جاتا ہے اور ان کی آزادیوں پر قدغن لگائی جاتی ہے۔ اُن ثقافتی اور مذہبی روایات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، جو صدیوں سے چلی آ رہی ہیں اور جن کی وجہ سے بیشتر خواتین خاموشی کے ساتھ اپنے حقوق سے محرومی کو برداشت کرتی ہیں۔

مردوں کی بالادستی والے معاشرے نے ایک ایسی سوچ پیدا کر دی ہے، جس میں زیادہ تر خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ انھیں صرف روایات اور ثقافتی اقدار پر ہی عمل کرنا ہے، بے شک اس کے لیے انھیں محکوموں کی سی زندگی گزارنی پڑے۔ ہم نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ کسی گھر میں روزمرہ زندگی کے دوران خواتین ایسی ثقافتی اقدار کی محافظ بن جاتی ہیں جو خود ان کی بیٹیوں اور بہوؤں کے حقوق غصب کرتی ہیں۔

جمود کو بچانے کے لیے رجعت پسند اکثر ثقافتی نسبتیت(relativism) کے نظریے میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خواتین کو ان کے عالمی انسانی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مغربی ثقافتی اقدار نافذ نہیں کی جا سکتیں۔

مختلف ثقافتوں کے درمیان یقیناً اختلافات ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ بعض ایسے طور طریقوں اور قدروں کو نظر انداز کر دیا جائے جن کا تعلق براہ راست بنیادی حقوق سے ہے۔ مردوں اور عورتوں کی برابری ایک ایسا مسلمہ انسانی حق ہے، جسے عام طور سے پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایسی ثقافتی رسموں اور رواجوں کو تبدیل کرنا ہو گا جو خواتین کی آزادی کی نفی کر کے فرد کے حقوق کو غصب کرتے ہیں۔


ہمارے معاشرے میں بہت سی ثقافتی اور مذہبی روایات خاموشی سے تبدیل ہو چکی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے کے ناگزیر تقاضے ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ مضبوط عالمی ثقافتی اقدار ہیں۔ ٹیکنالوجی کے انقلاب نے پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کے بارے میں بڑے پیمانے پر شعور بیدار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ایک دور دراز گاؤں گوٹھ سے بھی نام نہاد عزت کے نام پر قتل کے خلاف احتجاج کی آواز سنتے ہیں۔

ٹیکنالوجی میں ترقی نے خواتین کے کام کرنے کی جگہ کو زیادہ سازگار بنا دیا ہے کیوں کہ اب ان کے تحفظ کے لیے جدید طریقے منظر عام پر آ رہے ہیں۔ آج ہمیں پوری دنیا میں یونیورسٹیوں میں خواتین کا تناسب بہت زیادہ نظر آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقت بدل رہا ہے اور کس طرح بیشتر معاشروں میں سماجی رشتے تبدیل ہو رہے ہیں اور یوں خواتین کو زیادہ حقوق مل رہے ہیں۔

چونکہ عورت معاشی طور پر آزاد ہو رہی ہے، اس لیے مرد کے ساتھ اس کے رشتے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ اب خواتین گھر والوں کی سب سے بڑی خدمت گزار نہیں رہیں بلکہ معاشی طور پر آزاد انسان ہیں اور اپنی شناخت رکھتی ہیں۔ مردوں کے بالادست معاشرے کے چیمپیئنز کی طرف سے مزاحمت کے باوجود یہ سب تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

مثال کے طور پر غلامی، کثرت ازواج، ایسی ملازماؤں کے ساتھ جنسی تعلقات جو زیر حفاظت ہوں اور کم عمر لڑکیوں کے ساتھ شادی کو جس کی مذہبی روایات کے تحت اجازت تھی، آج پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اسی طرح سے دلہن کی خرید و فروخت کی قبائلی اور جاگیردارانہ ثقافتی اقدار، بیوی کو مارنے پیٹنے اور نام نہاد عزت کے نام پر قتل جیسے واقعات کو معاشرہ نفرت سے دیکھتا ہے۔ اُن لوگوں کو مسترد کیا جا چکا ہے جو ان فرسودہ ثقافتی اور مذہبی روایات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ ترقی پذیر معاشروں میں بھی ایسے استحصالی ہتھکنڈوں کے خلاف شعور بڑھ رہا ہے جن کا ہدف خواتین ہیں۔ یہ صرف قدامت پسند سوچ رکھنے والا ٹولہ ہے جس کا خیال ہے کہ ساتویں صدی کے قبائلی معاشرے کے قدری نظام کو برقرار رکھا اور نافذ کیا جا سکتا ہے۔

قدامت پسند مسلمان ہونے کے باوجود پاکستان کے عوام اسلامی ریاست(IS) کے طور طریقوں کو قبول نہیں کرتے۔ جس نے اس بارے میں فتویٰ جاری کیا کہ ان کی طرف سے لڑی جانے والی جنگ کے دوران، پکڑی جانے والی عورتوں کو آپس میں کس طرح تقسیم کیا جائے اور کون کس کے ساتھ جنسی عمل کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کی اس رائے کے باوجود کہ اسلامی روایات اس کی اجازت دیتی ہیں، ہمارا معاشرہ کم عمری کی شادیوں کی حمایت نہیں کرتا۔

یہ تسلیم کرانے کے لیے لوگوں کا شعور اور مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ خواتین کے حقوق، انسانی حقوق ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہونے کے ناتے انھیں برابر کے حقوق حاصل ہیں اور ان کے ساتھ ثقافتی یا قانونی اعتبار سے امتیازی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔ مناسب قوانین منظور ہو چکے ہیں جو آگے کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے۔ اب ان قوانین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story