یہ تشنگی کیا ہے
یہ زندگی دریا کی مانند ہے، دریا مستقل تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے
KARACHI:
یہ زندگی دریا کی مانند ہے، دریا مستقل تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہ خواہشوں کا دریا بھی ہے، کبھی پار لگاتا ہے تو کبھی بیج منجھدار میں کشتی الٹ دیتا ہے۔ سُر سوہنی، شاہ جو رسالو کے اہم سروں میں سے ایک ہے۔ یہ ماورا ٹھاٹھ کی اہم راگنی کہلاتی ہے۔ معنویت و روحانیت سے بھرپور یہ راگنی سوز و گداز سے لبریز ہے۔ یہ سُر مشہور عشقیہ داستان سوہنی مہینوال کے ارد گرد گھومتا ہے، محبت ہمہ گیر جذبہ ہے، احساس کا ایسا رچاؤ ہے جو تخلیق کے جوہر میں بدل جاتا ہے۔
شاہ لطیف احساس کی وسعتوں کے شاعر ہیں۔ لہٰذا ان کے اشعار انسانی نفسیات و جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔ محبت کو ہر دور میں روایتوں کی زنجیر پہنا دی جاتی ہے۔ ان رکاوٹوں سے کئی المیے جنم لیتے ہیں۔ محبت، باطن کی تیسری آنکھ کھول دیتی ہے، انسانی سوچ و احساس کو قید نہیں کیا جا سکتا، محبت کی راہ کی رکاوٹیں تصوراتی بحروں میں ڈھل جاتی ہے۔ زمان و مکان ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محبت روح کو شفاف بناتی ہے ذہن کو آگہی کا عرفان عطا کرتی ہے اور روح ناقابل تسخیر طاقت بن کر ابھرتی ہے۔
سوہنی کی محبت کے چرچے جب دور دور تک پھیل گئے تو بدنامی سے بچنے کے لیے گھر والوں نے اس کی زبردستی شادی کر دی مگر شادی کے بعد بھی اس کے ذہن سے مہینوال کا خیال نہ نکل سکا۔
جستجو، اضطراب، سوز دروں
جز محبت یہ زندگی کیا ہے
بحر ہستی سے سیر نہ ہو سکی
کون جانے یہ تشنگی کیا ہے
سوہنی گھڑے کا سہارا لے کر، دریا پار کر کے مہینوال سے ملنے جاتی۔ گھڑا رابطے کا ذریعہ تھا۔ رابطہ روحانیت کا پہلا زینہ ہے، گھڑا بھی اسی مٹی سے بنا ہے جس سے انسان کا خمیر اٹھا ہے۔ ہم آہنگی کا یہ ہنر پوری کائنات میں پایا جاتا ہے، جو انسان کی ذہنی و روحانی ضرورت بھی ہے۔
ہم آہنگی اگر زندگی وکائنات میں نہ ہو تو انتشارہر چیز کو فنا کر سکتا ہے، یکسوئی، محبت کی دین ہے، جو وجود کا رابطہ ارد گرد کے ماحول سے مضبوط کرنے کا سبب بنتی ہے۔
لا تعلقی سے انتشار جنم لیتا ہے۔
محبت کے راستے مختلف ہو سکتے ہیں مگر منزل ایک ہے۔
بحر ہستی کا ناخدا بھی عشق
موجۂ ورطۂ فنا بھی عشق
عشق راز بلندیٔ انساں
عشق ساز خودی، خدا بھی عشق
ایک محور ہے مگر اظہار کی بہت ساری صورتیں ہیں۔ انسان فقط وہی بات سمجھ سکتا ہے جس میں اس کی انا سرخرو رہتی ہے، جس نظریے کو معتبر سمجھتا ہے۔ اس کی سوچ کے تمام رخ اس پر جا کے ختم ہوتے ہیں۔ محبت کا نظریہ فقط انسانیت ہے۔ شاہ کی شاعری ذات کے محدود دائرے سے نجات کا راستہ ہے، وہ محدود زاویہ جس میں انسان غیر اہم ہو جاتا ہے اور غیر انسانی رسمیں جیت جاتی ہیں۔
انگریز شاعر جان ڈن انسانی جسم کو حسین دروازے سے تشبیہ دیتا ہے، جس میں داخل ہو کر وہ روح کے اسرار جان پاتا ہے، مجازی عشق کی جستجو اور تڑپ طالب کے ذہن کے دروازے نئے موسموں کی طرف کھول دیتی ہے وہ وجود کی آگہی سے زندگی اورکائنات کے رازوں کا کھوج لگاتا ہے، لہٰذا شاہ لطیف اپنی سوچ اور وسعت النظری میں اپنے دور سے بہت آگے تھے۔
حالانکہ کہیں ان کے نقادوں نے انھیں اپنی سوچ کے دائرے میں قید کرنے کی کوشش کی ہے اور مجاز کے تمام رنگوں کو عشق الٰہی سے منسوب کرتے رہے ہیں، بالکل اسی طرح ولیم بلیک نے رجعت پرستی اور روایتی سوچ کا طلسم بکھیر کے رکھ دیا تھا۔ محبت میں جسم و روح کی تفریق کے نظریے کو مسترد کر دیا۔ جان بلیک نے دنیا کا مشاہدہ احساس کے پس منظر میں کیا نہ کہ کسی نظریے کی رو سے۔ بلیک جسمانی محبت کو احساس کی ضرورت کا نام دیتا ہے جو کرپشن سے بالاتر ہے جسے رجعت پرست سوچ ناکامی کاکفن اوڑھا دیتی ہے، تنگ نظر معاشرے سوہنی کو زندہ جاوید بنا دیتے ہیں، سوہنی روپ بدل کر واپس لوٹ آتی ہے۔
شاہ لطیف بھی ذہن کی بے کراں روشنی کے تناظر میں زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شادی شدہ عورت کے عشق کے قصے کو شاہ صاحب نے شاعری کا مرکز بنایا۔ دنیاوی تضادات اگر سوہنی کے راستے کی رکاوٹ نہ بنتے تو وہ مہینوال کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسرکرتی، اسے سمجھوتے کی چادر اوڑھنے کے لیے کہا گیا۔ غلط معاشرتی اقدار، بذات خود ایسے المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ بے اطمینانی اور دھتکار کا بیج شفاف ذہنوں میں بوتے ہیں اور غلط نتائج ملنے پر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔
خواہش کو شدت سے دبایا جائے گا تو وہ بار بار سر اٹھائے گی۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ خواہشات کو کچلا نہیں جا سکتا۔ راکھ میں دبی چنگاری سلگتی رہتی ہے یہ کسی وقت بھی دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔ یہ بات اگر معاشرہ سمجھ لے تو دوبارہ کبھی ایسی کہانیاں نہ جنم لیں۔ یہ جدید معاشرے بھی فرد کی نفسیات کو نہیں سمجھ پاتے جو اس کی ذہنی و جسمانی افزائش کا تعین کرتی ہے انسانی احساس کو روایتوں کے پیمانے پر پرکھنے کی کوشش اس کے خوابوں کی نفسی اور جبری شادیاں کئی جذباتی حادثات کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں۔ سوہنی کا گھڑا بھی جبرکا رد عمل تھا جو تعلق جوڑنے کا استعارہ بن گیا۔
یاد جاناں، سکوت نیم شبی
روح میں اضطراب و پیچ و تاب
سامنے تیرے کیا ہے یہ گرداب
اپنے سہارا نہ دیں تو پھرکچے گھڑے دل کی ڈھارس بن جاتے ہیں۔ ایک دن سوہنی کی نند نے پکے گھڑے کی جگہ اسی طرزکا کچا گھڑا رکھ دیا، طوفانی رات میں سوہنی جب دریا پار کرنے کی کوشش میں مہینوال سے ملنے جا رہی تھی تو اس کی محبت بیچ بھنور میں ہمیشہ کے لیے کھو گئی۔
ایک مسلسل تپش میری ہستی
موت بھی مجھ کو سازگار نہیں
اک خلش سی ہے سعی لا حاصل
ہائے میں پھر بھی سوگوار نہیں
شاہ صاحب وصل کو محبت کی معراج نہیں سمجھتے۔ تشنگی کو زندگی کا حاصل سمھجتے ہیں کمی یا احساس محرومی سے روحانی بالیدگی حاصل ہوتی ہے بشرطیکہ اس کمی کو احساس کا ہنر بنانے کا سلیقہ آتا ہو، جب کہ سوہنی وصل کو راحت سمجھتی تھی جس نے اس سے پرکھ کا قرینہ چھین لیا۔ وہ پکے اور کچے گھڑے کا فرق نہ سمجھ پائی۔ سوہنی ہجر کی طاقت سے واقف نہ تھی لہٰذا پیاس سے سمجھوتہ کرنے کا عرفان حاصل نہ کر سکی۔
نہ کوئی سوہنی نہ جاناں ہے
نہ کوئی آب جو نہ طوفاں ہے
ایک سر بستہ راز عرفاں ہے
ایک گم گشتہ سرِ انساں ہے
یہ زندگی دریا کی مانند ہے، دریا مستقل تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہ خواہشوں کا دریا بھی ہے، کبھی پار لگاتا ہے تو کبھی بیج منجھدار میں کشتی الٹ دیتا ہے۔ سُر سوہنی، شاہ جو رسالو کے اہم سروں میں سے ایک ہے۔ یہ ماورا ٹھاٹھ کی اہم راگنی کہلاتی ہے۔ معنویت و روحانیت سے بھرپور یہ راگنی سوز و گداز سے لبریز ہے۔ یہ سُر مشہور عشقیہ داستان سوہنی مہینوال کے ارد گرد گھومتا ہے، محبت ہمہ گیر جذبہ ہے، احساس کا ایسا رچاؤ ہے جو تخلیق کے جوہر میں بدل جاتا ہے۔
شاہ لطیف احساس کی وسعتوں کے شاعر ہیں۔ لہٰذا ان کے اشعار انسانی نفسیات و جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔ محبت کو ہر دور میں روایتوں کی زنجیر پہنا دی جاتی ہے۔ ان رکاوٹوں سے کئی المیے جنم لیتے ہیں۔ محبت، باطن کی تیسری آنکھ کھول دیتی ہے، انسانی سوچ و احساس کو قید نہیں کیا جا سکتا، محبت کی راہ کی رکاوٹیں تصوراتی بحروں میں ڈھل جاتی ہے۔ زمان و مکان ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محبت روح کو شفاف بناتی ہے ذہن کو آگہی کا عرفان عطا کرتی ہے اور روح ناقابل تسخیر طاقت بن کر ابھرتی ہے۔
سوہنی کی محبت کے چرچے جب دور دور تک پھیل گئے تو بدنامی سے بچنے کے لیے گھر والوں نے اس کی زبردستی شادی کر دی مگر شادی کے بعد بھی اس کے ذہن سے مہینوال کا خیال نہ نکل سکا۔
جستجو، اضطراب، سوز دروں
جز محبت یہ زندگی کیا ہے
بحر ہستی سے سیر نہ ہو سکی
کون جانے یہ تشنگی کیا ہے
سوہنی گھڑے کا سہارا لے کر، دریا پار کر کے مہینوال سے ملنے جاتی۔ گھڑا رابطے کا ذریعہ تھا۔ رابطہ روحانیت کا پہلا زینہ ہے، گھڑا بھی اسی مٹی سے بنا ہے جس سے انسان کا خمیر اٹھا ہے۔ ہم آہنگی کا یہ ہنر پوری کائنات میں پایا جاتا ہے، جو انسان کی ذہنی و روحانی ضرورت بھی ہے۔
ہم آہنگی اگر زندگی وکائنات میں نہ ہو تو انتشارہر چیز کو فنا کر سکتا ہے، یکسوئی، محبت کی دین ہے، جو وجود کا رابطہ ارد گرد کے ماحول سے مضبوط کرنے کا سبب بنتی ہے۔
لا تعلقی سے انتشار جنم لیتا ہے۔
محبت کے راستے مختلف ہو سکتے ہیں مگر منزل ایک ہے۔
بحر ہستی کا ناخدا بھی عشق
موجۂ ورطۂ فنا بھی عشق
عشق راز بلندیٔ انساں
عشق ساز خودی، خدا بھی عشق
ایک محور ہے مگر اظہار کی بہت ساری صورتیں ہیں۔ انسان فقط وہی بات سمجھ سکتا ہے جس میں اس کی انا سرخرو رہتی ہے، جس نظریے کو معتبر سمجھتا ہے۔ اس کی سوچ کے تمام رخ اس پر جا کے ختم ہوتے ہیں۔ محبت کا نظریہ فقط انسانیت ہے۔ شاہ کی شاعری ذات کے محدود دائرے سے نجات کا راستہ ہے، وہ محدود زاویہ جس میں انسان غیر اہم ہو جاتا ہے اور غیر انسانی رسمیں جیت جاتی ہیں۔
انگریز شاعر جان ڈن انسانی جسم کو حسین دروازے سے تشبیہ دیتا ہے، جس میں داخل ہو کر وہ روح کے اسرار جان پاتا ہے، مجازی عشق کی جستجو اور تڑپ طالب کے ذہن کے دروازے نئے موسموں کی طرف کھول دیتی ہے وہ وجود کی آگہی سے زندگی اورکائنات کے رازوں کا کھوج لگاتا ہے، لہٰذا شاہ لطیف اپنی سوچ اور وسعت النظری میں اپنے دور سے بہت آگے تھے۔
حالانکہ کہیں ان کے نقادوں نے انھیں اپنی سوچ کے دائرے میں قید کرنے کی کوشش کی ہے اور مجاز کے تمام رنگوں کو عشق الٰہی سے منسوب کرتے رہے ہیں، بالکل اسی طرح ولیم بلیک نے رجعت پرستی اور روایتی سوچ کا طلسم بکھیر کے رکھ دیا تھا۔ محبت میں جسم و روح کی تفریق کے نظریے کو مسترد کر دیا۔ جان بلیک نے دنیا کا مشاہدہ احساس کے پس منظر میں کیا نہ کہ کسی نظریے کی رو سے۔ بلیک جسمانی محبت کو احساس کی ضرورت کا نام دیتا ہے جو کرپشن سے بالاتر ہے جسے رجعت پرست سوچ ناکامی کاکفن اوڑھا دیتی ہے، تنگ نظر معاشرے سوہنی کو زندہ جاوید بنا دیتے ہیں، سوہنی روپ بدل کر واپس لوٹ آتی ہے۔
شاہ لطیف بھی ذہن کی بے کراں روشنی کے تناظر میں زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شادی شدہ عورت کے عشق کے قصے کو شاہ صاحب نے شاعری کا مرکز بنایا۔ دنیاوی تضادات اگر سوہنی کے راستے کی رکاوٹ نہ بنتے تو وہ مہینوال کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسرکرتی، اسے سمجھوتے کی چادر اوڑھنے کے لیے کہا گیا۔ غلط معاشرتی اقدار، بذات خود ایسے المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ بے اطمینانی اور دھتکار کا بیج شفاف ذہنوں میں بوتے ہیں اور غلط نتائج ملنے پر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔
خواہش کو شدت سے دبایا جائے گا تو وہ بار بار سر اٹھائے گی۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ خواہشات کو کچلا نہیں جا سکتا۔ راکھ میں دبی چنگاری سلگتی رہتی ہے یہ کسی وقت بھی دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔ یہ بات اگر معاشرہ سمجھ لے تو دوبارہ کبھی ایسی کہانیاں نہ جنم لیں۔ یہ جدید معاشرے بھی فرد کی نفسیات کو نہیں سمجھ پاتے جو اس کی ذہنی و جسمانی افزائش کا تعین کرتی ہے انسانی احساس کو روایتوں کے پیمانے پر پرکھنے کی کوشش اس کے خوابوں کی نفسی اور جبری شادیاں کئی جذباتی حادثات کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں۔ سوہنی کا گھڑا بھی جبرکا رد عمل تھا جو تعلق جوڑنے کا استعارہ بن گیا۔
یاد جاناں، سکوت نیم شبی
روح میں اضطراب و پیچ و تاب
سامنے تیرے کیا ہے یہ گرداب
اپنے سہارا نہ دیں تو پھرکچے گھڑے دل کی ڈھارس بن جاتے ہیں۔ ایک دن سوہنی کی نند نے پکے گھڑے کی جگہ اسی طرزکا کچا گھڑا رکھ دیا، طوفانی رات میں سوہنی جب دریا پار کرنے کی کوشش میں مہینوال سے ملنے جا رہی تھی تو اس کی محبت بیچ بھنور میں ہمیشہ کے لیے کھو گئی۔
ایک مسلسل تپش میری ہستی
موت بھی مجھ کو سازگار نہیں
اک خلش سی ہے سعی لا حاصل
ہائے میں پھر بھی سوگوار نہیں
شاہ صاحب وصل کو محبت کی معراج نہیں سمجھتے۔ تشنگی کو زندگی کا حاصل سمھجتے ہیں کمی یا احساس محرومی سے روحانی بالیدگی حاصل ہوتی ہے بشرطیکہ اس کمی کو احساس کا ہنر بنانے کا سلیقہ آتا ہو، جب کہ سوہنی وصل کو راحت سمجھتی تھی جس نے اس سے پرکھ کا قرینہ چھین لیا۔ وہ پکے اور کچے گھڑے کا فرق نہ سمجھ پائی۔ سوہنی ہجر کی طاقت سے واقف نہ تھی لہٰذا پیاس سے سمجھوتہ کرنے کا عرفان حاصل نہ کر سکی۔
نہ کوئی سوہنی نہ جاناں ہے
نہ کوئی آب جو نہ طوفاں ہے
ایک سر بستہ راز عرفاں ہے
ایک گم گشتہ سرِ انساں ہے