بادشاہ درباری اور نورتن
تاریخ اس با ت کی گواہ ہے کہ مسلمانوں میں اقتدار کی تبدیلی کا نظام کبھی بھی قابل ستائش نہیں ر ہا
KARACHI:
تاریخ اس با ت کی گواہ ہے کہ مسلمانوں میں اقتدار کی تبدیلی کا نظام کبھی بھی قابل ستائش نہیں ر ہا، جس کی و جہ سے بادشاہ کے مرنے کے بعد ریشہ دوانیوں، سازشوں اور جنگ و جد ل کا معرکہ جا ری رہتا تھا، جس کا بھاری نقصان فریقین کو بھی اٹھانا پڑتا تھا، یوں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا تھا، تخت کے حصول کے لیے وہ اپنے خونی بھائیوں کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے تھے، بادشاہوں، شہنشاہوں اور شہزادوں کے لیے ایسے کسی فرد کا قتل کوئی معنی نہیں رکھتا تھا جس سے تخت و تاج کو خطرہ ہو جب ان کا جی بغاوت کرنے پر آمادہ ہوتا، ان کے تخت نشینی کی ہوس کو کوئی بھی قابو نہیں کر سکتا تھا،
اس وقت وہ اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے نہ ہی وہ دوسروں کا خیال اور احساس کرتے تھے، عربوں میں خاندان امیہ، عباسی عہد اور خاص کر برصغیر میں تاریخ کی کتابیں ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔
برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل بھی بادشاہوں کے مر نے بعد ان کی اولاد کے حصے میں آیا کرتا، ہر دور کی طرح یہاں بھی سازشیں رہتی جن میں ان کے درباری اور نورتن اہم کردار کرتے کبھی انعام و اکرام سے نوازے جاتے تو کبھی سولی چڑھائے جاتے، ان نورتنوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور خاص طور پر دربار اکبر ی میں نورتنوں کی اپنی اہمیت تھی جن میں بیربل، شیخ فیضی، راجہ ٹوڈرمل، عبدالرحیم خان خاناں، مہاراجہ مان سنگھ، ابوالفضل اور تان سین شامل تھے۔
دربار میں یہ لوگ دن بھر بادشاہ کی رضا جوئی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیاہ کو سفید اور دن کو رات کہتے نہ تھکتے شاید ان میں جو درباری مسلمان ہوں گے وہ تنہائی میں بادشاہ وقت کی نئے دین، دین الٰہی کی اپنی حمایت پر افسوس کرتے ہوں اور توبہ کرتے ہوںکہ ہم دربار میں کیسی کیسی حماقتیں کرتے ہیں مگر اپنے حریفوں کو شکست دینے کا یہی حل تھا کہ بادشاہ کی ہر جائز ناجائز بات کی حمایت کی جائے تا کہ ان کے دشمنوں کا منہ بند ہو۔ وہ یہ مشہور محاورہ بھی کہتے تھے کہ ہم بادشاہ کے نوکر ہیں بینگنوں کے نوکر نہیں، اکبر بادشاہ کا مشہور نورتن ابوالفضل فیضی جو اس کا دودھ شر یک بھائی بھی تھا، اس کی ہاں میں ہاں ملانے سے اس قدر خائف ہو گیا تھا کہ اس کا تکیہ کلا م بن گیا تھا، ہائے ایسا نہ کروں تو کیا کروں وہ بار بار یہ الفاظ دہراتا اور ٹھنڈ ی آہ بھرتا تھا ۔
اکبرکے یہ نورتن ذہین ہو نے کے ساتھ ساتھ چاپلوسی اور خوش آمد میں ماہر تھے، خوشامد کا فن سب سے زیادہ شاہی دربار میں پروان چڑھا کیونکہ بادشاہ کی ذات تمام عقل قل اور اختیارات کی حامل تھی۔ خوشامد کرنے والے اپنی زبان میں شائستگی و خوبصورت اشعارکا استعمال کرتے بادشاہوں کی تعریف میں ان کے شجاعت و بہادری کے قصے سناتے، زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے۔ طاقت و اختیارات اور اقتدار ایک انسان کی شخصیت کو بدل دیتے ہیں، خوشامد کے لفظوں میں اس قدر جادو ہوتا کہ بادشاہ وقت اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکتا تھا۔
صاحب اقتدار اس کے نشے میں چور اردگرد خوشامدیوں کا ٹولہ اسے عظیم رہنما و لیڈر ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا، انھی ریشہ دوانیوں، سازشوں اور غلط مشوروں کی بنا پرحکومت کمزور ہونا شروع ہو جاتی، اس وقت کے بادشاہوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ان کے اقتدار کو زوال ہوا، اس زمانے میں بھی صر ف ون مین شو تھا اور آج کے دور میں بھی وہی رسم چلی آ رہی ہے کہ ہم شخصیت پرست رہے ہیں اور آج بھی ہم پر شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے کہ ہمارے ہاںجماعت نہیں فرد اہم ہے، اہلیت کی قدرنہیں، خاندان کی قدر ہے، آج کی سیاست میں جمہوریت صرف نام کو رہ گئی ہے، ایک ہی خاندان اور اس کی اولاد، بھائیوں، بہنوں، بہنوئیوں، مامووں، تایاؤں اور پھوپھیوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔
آج پا کستان کی عوام اور سیاسی جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ پا رٹی سربراہ کی اولاد کو ہی آیندہ اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے، یہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر برسراقتدار آتے ہیں اور بادشاہوں، شہنشاہوں کی طرح حکومت کرتے ہیں، ان کی اولاد اور رشتے دار شاہی خاندان کی طرز پر زندگی گزارتے ہیں یہ ملک کا پیسہ منی لانڈرنگ کی صورت میں ٹیکس چوری کی صورت میں ملک سے باہر لے جاتے ہیں، جائیدادیں خریدتے کاروبارکرتے ہیں، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کوئی محاسبہ کرنے والا نہیں ہے۔
گئے زمانے کے درباری اور نورتن آج کے زمانے کے سیکریٹری اور مشیر کے روپ میں انھیں کرپشن اور دھوکا، لوٹ مار کے نئے نئے راستے دکھاتے ہیں، انھیں باور کراتے ہیں کہ تم اس سلطنت خداداد کے حقیقی وارث ہو عوام بے بس و بے کس رعایا کے روپ میں تمھارے غلام ہیں تم کھل کر جھوٹ بولو وعد ے وعید کرو پھر مکر جاؤکوئی تمھارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، تمھیں کوئی ا ین آر او کوئی عدالت سزا نہیں دے سکتی، غلام گردشوں میں سیکڑوں بند دروازے ہیں، ہر بند دروازے کے پیچھے ایک سر بستہ راز ہے جس پر ثبوت و جوازکی سات سات مہریں لگی ہو ئی ہیں، جس کی حفاظت و جواب دہی یہ وزراء کرتے ہیں یہ وہ درباری اور نورتن ہوتے ہیں جو اٹھارہ کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں قانون سازی کرتے ہیں مگر خود قانون کو ناک پر بیٹھی مکھی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ جدید دور کے یہ نورتن اور درباری پارلیمنٹ گیٹ پر اپنی اور اپنے دوستوں کی تلاشی کو بھی انا کا مسئلہ بنا دیتے ہیں، سیکیورٹی ملازم بھی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں، انھیں اپنے دربار اور اقتدار سے دلچسپی ہوتی ہے۔
مگر قدرت کا نظام بھی بڑا عجیب ہے اور تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ جب کوئی بادشاہ برسر اقتدارآتا ہے تو اس کے زوال کی گنتی بھی شروع ہو جاتی ہے وقت بڑا بے رحم ہے یہ اپنی سچائی اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا بھی جانتا ہے، ایسے لوگو ں کو آنے والے زمانے میں عبرت بنتے دیر نہیں لگتی اس وقت نہ کوئی نورتن کام آتا ہے، نہ درباری کام آتا ہے۔ رئیس امروہی کا قطعہ ہے،
تاج و تخت و حکومت و دربار
عبرت انگیز یا اولی الابصار
تاجِ کسریٰ کے ساتھ کثریٔ مرگ
تختِ دارا کے ساتھ تختۂ دار